Getty Images
انڈیا کے مایہ ناز وکٹ کیپر بلے باز اور سابق کپتان مہندر سنگھ دھونی نے بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے چار سال بعد کامیابی کے ساتھ خود کو اپنی انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) ٹیم چینئی سپر کنگز کے لیے ایک مضبوط لوئر آرڈر بیٹسمین میں تبدیل کر لیا ہے۔ سپورٹس جرنلسٹ سریش مینن کرکٹ کے 41 سالہ سپر سٹار کے نئے اوتار پر یہ تحریر لکھتے ہیں۔
جب رواں سیزن کا آئی پی ایل مکمل ہو جائے تو ٹرافی کو ایک نام دینا بُرا خیال نہیں ہوگا۔
اگر کوئی شخص اس ٹورنامنٹ کی علامت اور شائقین کی توجہ کا مرکز ہو سکتا ہے تو شاید اسے دھونی ہی ہونا چاہیے۔ وہ ہمیشہ سے آئی پی ایل کا چہرہ رہے ہیں اور ایسے میں 'ایم ایس دھونی ٹرافی' سونے پر سہاگے کا کام کرے گی۔
دھونی سنہ 2008 کے آئی پی ایل کے افتتاحی ایڈیشن میں سب سے مہنگے کھلاڑی تھے۔ پندرہ سال بعد بھی وہ چینئی سپر کنگز (سی ایس کے) کے سب سے قیمتی کھلاڑی بنے ہوئے ہیں اور اپنے آپ میں ان تمام چیزوں کا مجموعہ ہیں جو اس ٹی 20 ٹورنامنٹ کا سب سے زیادہ دلچسپ اور بہترین تصور ہے۔
یہاں تک کہ چینئی میں بھی، جسے فلمی ستاروں اور سیاست دانوں کا شہر کا جاتا ہے اور جہاں لاکھوں لوگ ایک طرح سے ان کی پوجا کرتے ہیں، وہاں بھی دھونی نمایاں نظر آتے ہیں، بطور خاص آئی پی ایل کے ان چند ہفتوں کے دوران۔
سی ایس کے اور ان کے مداحوں کے درمیان تعلق خاص ہے اور دھونی وہ شخص ہیں جو سی ایس کے کی علامت ہیں۔ وہ حیرت انگیز طور پر چھکا لگانے میں مہارت رکھتے ہیں اور نایاب ذہانت کے ساتھ ٹیم کی قیادت کرتے ہیں۔ جب تک وہ کریز پر ہیں سی ایس کے کا کوئی میچ ہارنے کا امکان نہیں رہتا ہے۔
AFPاپنی ٹیم کے لیے ایک اور کپ
چار سال قبل دھونی نے انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد سے ہر سال ان کے تمام طرز کی کرکٹ چھوڑنے کے سوال نے ناقدین اور شائقین کے ذہنوں کو یکساں طور پر پریشان کیا ہے۔
لیکن دھونی کے ذہن میں دوسری چیزوں نےقبضہ کر رکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ اپنی ٹیم کو ایک اور کپ دینا چاہتے ہیں۔ وہ پہلے ہی چار بار اس کپ کو جیت چکے ہیں لیکن اس بار جیت کر وہ اسے پانچ کرنا چاہتے ہیں اور ممبئی انڈینز کی برابری کرنا چاہتے ہیں۔
دھونی آئی پی ایل میں سب سے اصلی کپتان بنے ہوئے ہیں، یہ وہ بندرگاہ ہے جہاں نوجوان اور اکثر اعتماد سے محروم کھلاڑی پناہ حاصل کرتے ہیں۔ بس یہی توقع کی جاتی ہے۔ وہ جولائی میں 42 سال کے ہو جائیں گے، اور ممکنہ طور پر صرف کپتانی کے لیے ہی ٹیم میں جگہ کے قابل ہیں، نہ صرف اپنی زیرک حکمت عملی کی وجہ سے بلکہ ان نوجوان کھلاڑیوں کو سہارا دینے کے لیے جو ان کی طرف امید کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔
جب وہ انڈین ٹیم کے کپتان تھے تو دھونی نے ایک بار کہا تھا کہ وہ صرف ایک ایسی ٹیم چاہتے ہیں جو وقت پڑنے پر خود کو ٹرک کے سامنے پھینک دے۔ اور انھیں سی ایس کے میں ایسی ہی ٹیم ملی ہے۔
لیکن رواں سال دھونی کا بہت دیر سے آنا یہاں تک کہ نمبر 8 پر بیٹنگ کرنے کا فیصلہ ہے جس کی وجہ سے تبصرے ہو رہے ہیں۔ وہ گھٹنے کی انجری سے دوچار ہیں اور اس حوالے سے بظاہر انھوں نے اپنے کھلاڑیوں سے کہہ رکھا ہے کہ 'مجھے زیادہ دوڑانے پر مجبور نہ کریں۔' اس کے متعلق انھوں نے وضاحت کی ہے کہ ان کا کام 'آخری اوورز میں بیٹنگ کرنا اور گیند کو باہر پہنچانا' ہے۔
Getty Images’دھونی، دھونی‘ کا نعرہ
اور وہ یہ کام بڑے متاثر کن انداز سے کر رہے ہیں۔ رواں آئی پی ایل میں ان کا اسٹرائیک ریٹ 204 ہے، انھوں نے صرف 47 گیندوں کا سامنا کیا 96 رنز بنائے ہین اور ہر 4.7 گیندوں پر ایک چھکے کی اوسط سے 10 چھکے لگائے ہیں۔
نمبر 8 پر بیٹنگ کرتے ہوئے انھوں نے دہلی کیپٹلز کے خلاف نو گیندوں میں 20 رنز بنائے اور ان کی ٹیم 27 رنز سے وہ میچ جیت گئی۔ انھوں نے سی ایس کے ہوم سیزن کا آغاز فاسٹ بولر مارک ووڈ کو پہلی دو گیندوں پر چھکے مار کر کیا۔ پنجاب کنگز کے خلاف نمبر 6 پر بیٹنگ کرتے ہوئے انھوں نے چار گیندوں پر دو چھکوں کی مدد سے 13 رنز بنائے۔
مجھے ایسا کوئی وقت یاد نہیں جب کسی ٹیم کے نمبر 8 بلے باز کی آمد کا اس بے صبری کے ساتھ انتظار کیا جاتا رہا ہو۔
ان کے ساتھی ساتھی رویندر جڈیجہ نے کہا ہے کہ وہ نمبر 7 پر بیٹنگ کرنے جانے کے زیادہ خواہش مند نہیں کیونکہ تب تک 'دھونی، دھونی' کے نعرے لگنا شروع ہو جاتے ہیں اور ناظرین (صرف چنئی میں ہی نہیں) ایک وکٹ کے آؤٹ ہونے کی دعا کرنے لگتے ہیں تاکہ وہ دھونی کو کھیلتا دیکھ سکیں۔
یہ بھی پڑھیے
دھونی کی وہ خصوصیات جن کے باعث وہ انڈیا کے سب سے کامیاب ترین کپتان ثابت ہوئے
مہندر سنگھ دھونی: انڈیا کا کامیاب ترین کپتان، رانچی کا ’پل دو پل کا شاعر‘
دھونی کا نیا اوتار دو طرح کے کھلاڑیوں کے لیے پیغام ہو سکتا ہے: ایک وہ جو نمبر 3 سے نیچے بیٹنگ کرتے ہیں اور جن کا واحد کام چھکا لگانا ہے، اور صرف کریز پر ٹکے رہنا نہیں ہے۔
اور دوسرے عمر رسیدہ بلے بازوں کے لیے ان کا پیغام یہ ہے کہ ٹی ٹوئنٹی میں بڑے ہٹس لگا کر اپنے آپ کو کارآمد بنائیں، اور ان کے ہونے کا یہی واحد جواز ہے۔
ریڈ بال کرکٹ میں چیزیں اس کی الٹ ترتیب میں جاتی ہیں۔ روہن کنہائی یا سچن ٹنڈولکر جیسے کھلاڑی جو گیند کو شاندار طرح سے مارنے سے شروع ہوتے ہیں لیکن اکثر اپنا گارڈ بدلتے ہیں اور سیدھے بیٹ سے کھیلتے ہیں، اور باؤنڈری مارنے کے بجائے رنز جمع کرنے لگتے ہیں۔
AFPدھونی کے دماغ میں کوئی نہیں اتر سکا
وائٹ بال کرکٹ میں یہ رویہ غلط ہے۔ دھونی کہتے ہیں کہ نو گیندوں پر 20 رنز بنانا 70 گیندوں پر 50 رنز سے زیادہ مفید ہے۔
41 سال کی عمر میں ٹی 20 کھیلنے کے قابل ہونے کے لیے اس قسم کی خود آگاہی اور فٹنس کی ضرورت ہوتی ہے جس کا دھونی مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس کے بعد اس کے لیے جذبہ بھی درکار ہے خاص طور پرایسی صورت میں جب آپ کو خود کو ثابت کرنے کی بھی ضرورت نہ ہو۔
اس بات کو قبول کرنے میں ایک عاجزی اور آگاہی کی ضرورت ہے کہ بڑی سنچری اور نصف سنچری ماضی کی بات ہو چکی ہے اور ویسے بھی اس کھیل میں اس سے زیادہ قابل رحم اور کوئی چیز نہیں ہے کہ ایک سابق عظیم کھلاڑی اپنے شاندار دنوں کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔
ان تمام سالوں میں کوئی بھی دھونی کے دماغ میں نہیں جھانک سکا ہے۔ ہر بار جب انھوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا، پہلے سرخ بال سے، اور پھر سفید بال کی کرکٹ سے، انھوں نے سب کو حیران کردیا۔ کیا یہ آئی پی ایل میں ان کا آخری سال ہوگا؟ شاید ہاں، یا شاید نہیں۔
بہر حال آئی پی ایل ٹرافی کا نام ان کے نام پر رکھنا مناسب ہوگا۔ آخر کار، یہ ان کی ٹیم تھی جس نے انڈیا کو سنہ 2007 کا ورلڈ کپ جتایا تھا اور آئی پی ایل کو فروغ دیا۔
سریش مینن نے تنڈولکر اور بشن بیدی جیسے کرکٹرز پر کتاب لکھی ہے۔