ڈان کے گانے ’کھائیکے پان‘ کی کہانی جو پہلے فلم میں تھا ہی نہیں

بی بی سی اردو  |  May 15, 2023

انڈیا میں یہ سینیما کا وہ دور تھا جب امیتابھ بچن اپنا سکہ جما رہے تھے۔ سنہ 1978 میں بالی وڈ کے ابھرتے ہوئے اداکار امیتابھ کی پانچ بڑی فلمیں ریلیز کے لیے تیار تھیں۔

پانچ سال قبل سنہ 1973 میں امیتابھ نے فلم 'زنجیر' کے ذریعے 'اینگری ینگ مین' کے طور پر اپنی پہچان بنائی تھی۔

امیتابھ اور ریکھا کی فلم 'گنگا کی سوگندھ' 10 فروری سنہ 1978 کو ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے بعد راکھی، رندھیر کپور اور نیتو سنگھ کے ساتھ 'قسمے وعدے' 21 اپریل 1978 کو ریلیز ہوئی۔

اس کے دو ہفتے بعد یعنی 5 مئی سنہ 1978 کو سنجیو کمار، ششی کپور اور امیتابھ کی فلم ’ترشول‘ آئی تھی اور اس کی چاروں طرف دھوم تھی۔

'ترشول' کے صرف سات دن بعد یعنی 12 مئی 1978 کو امیتابھ بچن کی ایک اور فلم ریلیز کے لیے تیار تھی۔

فلم کے ہدایت کار کا نام چندر باروٹ تھا اور یہ ان کی پہلی فلم تھی۔ اس فلم کے پروڈیوسر ایسے تھے جو بہت زیادہ قرض میں ڈوبے ہوئے تھے اور اس فلم پر بازی لگا کر وہ یہ امید کر رہے تھے کہ فلم پیسہ کمائے گی اور ان کا قرض ادا ہو جائے گا۔

فلم کا نام بھی ایسا تھا کہ اس پر اعتراضات اٹھنے لگے تھے۔ اس فلم کا نام ’ڈان‘ تھا۔ یہ شاہ رخ خان اور فرحان اختر کی 'ڈان' نہیں بلکہ سنہ 1978 کی ڈان ہے۔

'ڈان‘ کے نام پر اعتراض

درحقیقت ان دنوں 'ڈان' (Dawn) نام کا ایک بہت مشہور انڈرگارمنٹ برانڈ تھا۔ اسی لیے کوئی بھی فلم مارکیٹ میں 'ڈان' (Don) کے نام سے فلم خریدنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ دونوں کا تلفظ ایک جیسا تھا۔

اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے امیتابھ بچن نے اپنے ایک بلاگ میں لکھا: ’سچ یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کے لیے ڈان کا ٹائٹل ایک پس و پیش کا موضوع تھا۔ یہ ایک بنیان برانڈ کا نام تھا۔

’گاڈ فادر کے آنے کے بعد لفظ ڈان مقبول ہوا اور اسے معمول سمجھا جانے لگا۔ لیکن ان دنوں یہ مزاحیہ لہجے میں استعمال ہوتا تھا۔‘

https://twitter.com/SrBachchan/status/1011759314506219520

معاملہ یہاں تک پہنچ گیا تھا کہ فلم کے تقسیم کار 'ڈان' نام کی فلم نہیں خریدنا چاہتے تھے۔ جب یہ فلم ریلیز ہوئی تو اسے فلاپ قرار دے دیا گیا۔

لیکن چند ہی دنوں میں ایسا کرشمہ ہوا کہ فلم کے ٹکٹ کے لیے لمبی قطاریں لگنے لگیں۔ لوگ بار بار تھیٹر میں گانا دیکھنے جاتے۔ گانا تھا 'کھائیکے پان بنارس والا'۔

فلم ڈان کچھ ہی عرصے میں سپر ہٹ ہوگئی۔ جس لفظ ڈان پر اعتراض کیا گیا اسی کا ڈائیلاگ 'ڈان کو پکڑنا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے' سب کے لبوں پر تھا۔

45 سال مکمل ہونے کے بعد آج اسے کلٹ فلم سمجھا جاتا ہے۔

'کھائیکے پان بنارس والا': وہ گانا جو پہلے فلم ڈان میں تھا ہی نہیں

بات یہاں گانوں کی ہو رہی ہے تو سب سے پہلے 'کھائیکے پان بنارس والا' کی بات کرتے ہیں۔

دراصل یہ گانا فلم میں پہلے نہیں تھا۔ اور اس کا ذکر امیتابھ بچن نے اپنے ٹویٹ میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: 'یہ بعد کا خیال تھا۔ کھائیکے پان بنارس والا کو دراصل فلم 'ڈان' کے پورا ہونے کے بعد شامل کیا گیا تھا۔'

واقعہ یہ ہے کہ فلم کے ہدایت کار چندرا باروٹ معروف فلم ساز اور اداکار منوج کمار کے شاگرد تھے۔ انھوں نے 'پورب اور پشچم'، 'روٹی، کپڑا اور مکان' جیسی فلموں میں منوج کمار کی معاونت کی تھی۔

جب ڈان فلم تیار ہو گئی تو چندرا باروٹ نے وہ فلم منوج کمار کو دکھائی۔ منوج کمار نے کہا کہ سلیم جاوید کی لکھی ہوئی یہ کہانی اتنی اچھی طرح بنی ہوئی ہے اور سنسنی خیز ہے کہ اس میں قدرے ہلکے پھلکے لمحات کی ضرورت ہے۔

سامعین کو پُرسکون کرنے کے اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے چندرا باروٹ نے ’کھائیکے پان بنارس والا‘ گیت شامل کیا۔

مخصوص بنارسی انداز کے ساتھ یہ گیت نغمہ نگار انجان نے لکھا تھا جو بنارس کے رہنے والے تھے۔ فلم کی موسیقی کلیان جی آنند جی نے ترتیب دی تھی اور اسے کشور کمار نے آواز دی تھی۔

جب کشور نے 'کھائیکے پان' گانے سے انکار کر دیا

انجان کے بیٹے سمیر نے سنہ 2019 میں 'آج تک ساہتیہ' کے نام سے ایک پروگرام میں کہا: ’میں 17-18 سال کا تھا جب ممبئی میں 'کھائیکے پان بنارس والا' کی ریکارڈنگ ہو رہی تھی۔

'کشور کمار، امیتابھ بچن اور میرے والد انجان ریکارڈنگ روم میں تھے۔ جب میں نے پہلی بار کشور جی کو دیکھا تو میں دنگ رہ گیا۔ انھوں نے ریشم کی لُنگی پہن رکھی تھی۔ پاؤں میں دو مختلف قسم کی چپلیں تھیں۔ آنکھوں میں سرمہ تھا۔

'جیسے ہی والد صاحب نے گانے کے بول سنائے، کشور جی نے کہا کہ یہ کون سا لفظ ہے کہ 'بھنگ کا رنگ' جما ہوا چکا چک۔‘

انھوں نے کہا: 'میں نے یہ الفاظ پہلے نہیں سنے، میں گانا نہیں گاؤں گا۔' پھر جب انھیں لفظ 'کھائیکے' پان کہا گیا تو کشور جی اس بات پر بضد تھے کہ وہ 'کھا کے' بولیں گے۔

والد صاحب نے کہا کہ 'کھائیکے' اور 'چکاچک' کے معنی سمجھنے کے لیے آپ کو بنارس کی گلیوں میں جانا پڑے گا۔ اس کے بعد کشور جی نے کچھ نہیں کہا۔ ان کے لیے پان منگوایا گیا۔ کشور جی نے کہا کہ وہ صرف ایک بار گائیں گے اور گلوکار کو ریکارڈنگ میں کوئی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ کشور جی نے ایک ہی ٹیک میں پورا گانا گا دیا۔'

'کھائیکے پان بنارس والا' دراصل 'ڈان' کے لیے نہیں لکھا گیا تھا۔ کلیان جی آنند جی نے اسے اپنے زمانے کے سٹار دیو آنند کی فلم بنارسی بابو (1973) کے لیے لکھا تھا۔

لیکن دیو آنند کو یہ گانا زیادہ پسند نہیں آیا۔

چندر باروٹ تنزانیہ سے آئے تھے

گانے کی شوٹنگ کے قصے بھی دلچسپ ہیں۔ دراصل آنند جی کو پان کا شوق تھا اور رات تک پان کھاتے ہوئے ان کے ہونٹ سرخ ہو جاتے تھے۔

انھیں دیکھ کر چندرا باروٹ نے بھی گانے کی شوٹنگ سے قبل امیتابھ بچن کے لیے بہت سے پان منگوائے اور کھلائے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہونٹ تو سرخ ہو گئے لیکن پان میں ملے چونے سے ہونٹ بری طرح کٹ گئے۔

چندرا باروٹ دراصل تنزانیہ کے رہنے والے تھے اور وہیں نوکری کرتے تھے۔ لیکن 1960 کی دہائی میں وہاں کے حالات بہت خراب ہو گئے۔ کئی جگہوں پر پُرتشدد نسلی حملے ہوئے۔ 1966 میں طلبہ کی ایک بڑی تحریک بھی چلی تھی۔ اور بگڑتے حالات دیکھ کر خاندان تنزانیہ چھوڑ دیا۔

یہ بھی پڑھیے

امیتابھ بچن: فلم ’زنجیر‘ نے کیسے ایک ناکام ہیرو کو سپر سٹار بنا دیا؟

وہ فلم جس نے امیتابھ بچن کے لیے بازی پلٹ دی

امیتابھ بچّن نے فلم 'امر اکبر انتھونی' پر کہا تھا پاگل ہوگئے ہو کیا؟

چندرا باروٹ اپنی بہن کمل باروٹ سے ملنے کچھ دنوں کے لیے ممبئی آئے تھے۔ کمل ہندی فلموں میں گلوکاری کرتی تھیں۔

انھوں نے دیگر گلوکاروں کے ساتھ 'ہنستا ہوا نورانی چہرا' اور 'دادی اماں دادی اماں مان جاؤ' گائے ہیں۔

چندرا باروٹ جو ایک بار ممبئی آئے تو یہیں کے ہو کر رہ گئے اور منوج کمار کے ساتھ نے ان کی قسمت بدل دی۔

قرض کی ادائیگی کے لیے 'ڈان' بنائی

وہ فلم 'روٹی، کپڑا اور مکان' میں منوج کمار کو اسسٹ کر رہے تھے۔ اس فلم کے سینماٹوگرافر نریمن ایرانی ایک بڑا نام تھے۔

سینئر فلم ناقد رامچندرن سری نواسن بتاتے ہیں: 'نریمن ایرانی‘ نے 'زندگی-زندگی' نامی فلم بنائی تھی جو بری طرح فلاپ ہوگئی۔

ایرانی 12 لاکھ روپے کے قرض میں ڈوب گئے۔ پھر 'روٹی کپڑا اور مکان' میں کام کرنے والے کچھ فنکاروں نے ایرانی جی سے کہا کہ آپ فلم بنائیں اور ضرورت پڑی تو ہم مفت میں کام کریں گے۔

سکرپٹ سلیم جاوید سے لی گئی۔

یوں تو ڈان ایک مجرم کی کہانی ہے لیکن درحقیقت ڈان فلم کا بننا اس جذبے کی کہانی ہے جہاں چندرا باروٹ، زینت امان، امیتابھ بچن اور پران جیسے لوگ مشکل وقت میں اپنی برادری کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔

لیکن فلم کے دوران ایک بڑا حادثہ ہو گیا۔ رامچندرن سری نواسن بتاتے ہیں: ’شوٹنگ کے دوران بادل پھٹنے کی وجہ سے بجلی ایرانی جی پر گر پڑی اور وہ زخمی ہوگئے اور پھر ان کی موت ہوگئی۔ سب نے بغیر پیسے لیے فلم پوری کی۔ جب فلم نے پیسے کمائے تو تمام اداکاروں میں پیسے تقسیم کیے گئے۔‘

اس فلم کے لیے امیتابھ بچن کو بہترین اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ بھی ملا۔

ایوارڈ کی پرانی تصویر شیئر کرتے ہوئے امیتابھ نے ٹویٹ کیا تھا: 'اس سال نوتن جی اور مجھے فلم فیئر ایوارڈ ملا تھا۔ ہم نے فلم 'ڈان' کی ریلیز سے پہلے ہی نریمن ایرانی کو کھو دیا تھا۔ میں نے یہ ایوارڈ ان کی اہلیہ کو وقف کر دیا۔'

ڈان کی کامیابی بھاری پڑی

اتنی بڑی ہٹ دینے کے باوجود چندرا باروٹ کوئی اور بڑی فلم نہیں دے سکے۔

2015 میں بی بی سی کی ساتھی شویتا پانڈے کے ساتھ بات چیت میں انھوں نے کہا تھا کہ ’ڈان کی کامیابی کی تختی بہت بھاری ہو گئی، لوگوں کی توقعات بڑھ گئیں، کوشش ہمیشہ رہی کہ پچھلی فلم سے بہتر کروں لیکن سٹار کاسٹ اور بجٹ کی کمی کی وجہ سے یہ کام نہیں ہو سکا۔‘

امیتابھ اور چندرا باروٹ کی دوستی آج بھی قائم ہے۔ وہ امیتابھ کو 'ٹائیگر' کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: 'رشتہ ایک بار بنتا ہے اور زندگی بھر رہتا ہے۔ ایک بار میں ال پچینو کی فلم دیکھ رہا تھا کہ مجھے 'شمیتابھ' میں امیتابھ کا ایک مونولاگ یاد آیا اور رات 4.30 پر میسج کیا، جس کا انھوں نے فوراً جواب دیا۔'

ڈان کی بات پر واپس آئیں تو امیتابھ نے شعلے، دیوار، چپکے چپکے جیسی سپر ہٹ فلمیں دے رکھی تھیں۔ لیکن ڈان اس لحاظ سے اہم ہے کہ زنجیر کے بعد شاید ڈان پہلی ایسی سپر ہٹ فلم تھی جس میں امیتابھ کے ساتھ کوئی دوسرا ہیرو نہیں تھا۔

اس لحاظ سے امیتابھ بچن کو 'ون مین انڈسٹری' کا خطاب ملا اس کی بنیاد ڈان سے مضبوط ہوئی۔

ڈان اپنے وقت کی سٹائلش فلموں میں سے ایک تھی۔ جب فلموں میں ڈاکوؤں کو دکھایا جا رہا تھا اس دور میں فلم کا ولن ایک سٹائلش ڈان تھا۔ امیتابھ کی بیل بوٹم، پولکا ڈاٹ والی شرٹ اور واسکٹ زبردست ہٹ رہیں۔

اس میں مزے کی بات یہ ہے کہ جہاں ہندی فلموں میں تقریبا ہر چند مناظر کے بعد کپڑے بدلے جاتے ہیں، وہیں فلم ڈان میں امیتابھ فلم کے آخری گھنٹے (01.22.37) سے لے کر آخر تک ایک ہی لباس میں نظر آتے ہیں۔ شاید پولس کی بھاگ دوڑ میں کہیں ان کا کوٹ اور بو ٹائی گم ہو جاتی ہے۔

رامچندرن سری نواسن کہتے ہیں: ’فلم کا ایک اور دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ اس فلم میں سروج خان نے سائیڈ ڈانسر کا کردار ادا کیا تھا۔ وہ ہر روز ٹکٹ لے کر ایک ہی تھیٹر میں جا کر ڈانس دیکھتی تھیں۔ کچھ دنوں بعد جب مالکان کو پتا چلا کہ وہ روز کیوں آتی ہیں تو انھوں نے سروج خان کے لیے الگ سیٹ ہی رکھ دی۔‘

زینت امان اور ہیلن کا کردار

ڈان میں صرف امیتابھ ہی نہیں، باقی کردار بھی مقبول رہے۔ زینت امان کو روما کے کردار میں ایک چیلنجنگ کردار ملا جہاں ان کا کام صرف رومانس کرنا نہیں تھا۔

جسجیت کے کردار میں اداکار پران بہت اہم کردار میں تھے اور ان دنوں وہ ہیرو سے کئی گنا زیادہ فیس لیتے تھے۔

ڈی ایس پی ڈی سلوا کے کردار میں افتخار، وردان کے طور پر اوم شیو پوری، انسپکٹر ورما کے طور پر ستین کپو، نارنگ کے طور پر کمل کپور، ڈان کے گینگ ممبر کے طور پر میک (میک موہن) یا ڈان کی گرل فرینڈ کے طور پر اپرنا چودھری، سبھی یادگار تھے۔

ہیلن نے اس فلم میں ایک چھوٹا سا کردار بھی ادا کیا تھا اور ان کا گانا 'یہ میرا دل' سپر ہٹ رہا۔ اس وقت ہیلن کی عمر 40 کے قریب تھی۔ اور یہ وہ دور تھا جب ہیروئن یا ویمپ کی عمر تیس سے تجاوز نہیں کرنی چاہیے تھی۔

ڈان کے گیتوں کے لیے پلے بیک سنگر آشا بھوسلے اور کشور کمار دونوں کو فلم فیئر ایوارڈز ملے۔

BBCسلیم جاوید کی کہانی

اگر ہم سکرین پلے کی بات کریں تو سلیم جاوید نے دیوار، شعلے یا ترشول میں کئی تہہ دار کردار لکھے تھے جن میں صحیح اور غلط کی لکیر دھندلی نظر آتی ہے۔

ان کے مقابلے میں، ڈان کی کہانی کم و بیش سیدھی ہے - لیکن سکرین پلے میں زبردست تناؤ تھا، جسے چندرا باروٹ نے مہارت سے پردے پر اتارا۔

ڈان کی کامیابی کے بعد اسے کئی زبانوں میں بنایا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب رجنی کانت تمل فلموں میں آ چکے تھے۔ انھیں کامیابی بھی ملی تھی، لیکن جب 1980 میں 'بِلّا' نام سے تمل میں 'ڈان' کا ریمیک بنا تو رجنی کانت سپر سٹار بن گئے۔

تیلگو زبان میں بننے والی فلم میں این ٹی آر (این ٹی راما راؤ) نے اداکاری کی۔ موہن لال نے ملیالم میں اس کے ریمیک پر کام کیا۔ یہ فلم پاکستان میں 'کوبرا' کے نام سے بنائی گئی تھی۔ سنہ 2006 میں شاہ رخ نے 'ڈان' نام سے ہی ایک فلم میں کام کیا اور سنہ 2009 میں پربھاس کے ساتھ تیلگو میں اس کا ریمیک بنایا گیا۔

2022 میں امیتابھ کی 80ویں سالگرہ پر جب 'ڈان' دوبارہ سینما گھروں میں ریلیز ہوئی تو لوگ ہال میں ناچتے اور جھومتے نظر آئے۔

فلم ڈائریکٹر مدھور بھنڈارکر نے اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ انھوں نے بچپن میں یہ فلم سینیما ہال میں دیکھی تھی اور 44 سال بعد دوبارہ سینیما ہال میں دیکھنے گئے۔

https://twitter.com/imbhandarkar/status/1579405371558744064

جیسے ہی فلم پٹھان ہٹ ہوئی، لوگوں نے شاہ رخ اور ڈان-3 ٹرینڈ کرنا شروع کردیا۔ پچھلے سال امیتابھ بچن نے ڈان کا پوسٹر اور شاہ رخ کے ساتھ ایک تصویر شیئر کی تھی جس پر لکھا تھا- اسی ترتیب کو برقرار رکھتے ہوئے ڈان۔ ہر ایک نے اس کے اپنے اپنے مطلب نکالے۔

میں نے یہ بھی سوچا کہ اگر امیتابھ اور شاہ رخ واقعی 'ڈان' سیریز میں ایک ساتھ نظر آتے ہیں تو۔۔۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More