BBC
4 مئی یعنی گذشتہ جمعرات کی دوپہر لگ بھگ ڈیڑھ بجے پاکستان کے ضلع کرم کے مقام نورکی پر گاڑی میں سوار محمد شریف نامی شخص کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔ جس علاقہ میں محمد شریف کا قتل ہوا وہ تری منگل گاؤں سے تقریباً 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
مقامی صحافیوں اور سرکاری اہلکاروں کے مطابق اس واقعے کے فوری بعد مقامی افراد کے موبائل فونز پر اس نوعیت کے پیغامات وائرل ہونا شروع ہو گئے کہ شیعہ اکثریتی علاقے میں سنی عقیدے سے تعلق رکھنے والے اُستاد کو قتل کر دیا گیا ہے۔ بہت سے مقامی افراد نے اس حوالے سے وائرل ہونے والے پیغامات اور آڈیوز بھی بی بی سی کے ساتھ شیئر کی ہیں۔
اسی نوعیت کے پیغامات شیئر ہونے کے بعد اُسی روز تری منگل سے ایک مشتعل ہجوم نے مقامی گورنمنٹ ہائی سکول پر دھاوا بولا اور سٹاف روم میں موجود شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کو تشدد کے بعد قتل کر دیا۔
اس واقعے میں مجموعی طورپر سات افراد ہلاک ہوئے جن میں چار اساتذہ کے علاوہ تین مزدور بھی شامل تھے جو سکول میں جاری تعمیراتی کام کے لیے سامان لے کر گئے ہوئے تھے۔
دونوں واقعات میں مجموعی طور پر آٹھ افراد ہلاک ہوئے اور ابتدائی طور پر سرکاری حکام نے اس واقعہ کی بنیادی وجہ ’زمین کے لین دین پر مبنی دیرینہ تنازع‘ کو قرار دیا۔
مگر مقامی افراد اور واقعہ پر نظر رکھنے والے صحافیوں کا خیال ہے کہ محمد شریف نامی شخص کے قتل میں ذاتی رنجش کے ساتھ غیرت کا عنصر (پسند کی شادی کا معاملہ) بھی شامل ہے۔
مقامی صحافی سید عدنان حیدر کے مطابق ضلع کرم میں تشدد کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔
پارا چنار ہیڈکوارٹر تھانہ میں اس تفتیش سے منسلک افسر سے جب اس حوالے سے پوچھا گیا کہ کیا سکول اساتذہ کا قتل ذاتی رنجش یا زمین کے لین دین کا نتیجہ ہے تو اُن کا کہنا تھا کہ ابتدائی تفتیش کے نتیجے میں اس واقعے کو ذاتی رنجش یا زمین کے لین دین کے تنازعات کے ساتھ جوڑنا ممکن نہیں ہے۔
’یہ شاملات اور زمین کے تنازعات کا معاملہ نہیں۔ جو ٹیچرز قتل ہوئے ،وہ مختلف گاؤں کے رہنے والے تھے، مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والوں کا زمین کے لین دین پر کیسے تنازع ہو سکتا ہے؟‘
تاہم اس علاقے کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر محمد عمران نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ’اس واقعہ کے پیچھے زمین کا تنازع ہے۔ یہ مینگل اور طوری قبائل کے مابین زمینی لین دین کا جھگڑا ہے۔ اگر اس مسئلے کو حل کر دیا جائے تو اس علاقے میں قتل و غارت گری ختم ہو جائے گی۔‘
جب ان سے سوال کیا گیا کہ جن اساتذہ کا قتل ہوا وہ ایک جگہ یا علاقے کے نہیں بلکہ مختلف مقامات سے تعلق رکھنے والے تھے اور ان کی باہمی رشتہ داری بھی نہیں تھی تو کیسے یہ کسی زمین کے ٹکڑے کا تنازع ہو سکتا ہے؟ اس پر اُن کا کہنا تھا کہ طوری و بنگش قبائل اور منگل قبائل مختلف گاؤں میں آباد ہیں، یہ کسی ایک جگہ نہیں رہتے۔
دوسری جانب بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس علاقے سے تعلق رکھنے والے قبائلی رہنما حاجی عابد حسین نے دعویٰ کیا کہ وہ اس پورے معاملے کے عینی شاہد ہیں اور یہ کہ ’یہ زمین کا تنازع نہیں۔ زمین کا تنازع گیدو کے منگل قبائل اور پیواڑ کے علی زئی قبائل کے مابین ہے۔ قتل ہونے والے ٹیچرز ان علاقوں کے نہیں بلکہ دور دراز علاقوں کے ہیں اور زیادہ تر بنگش ہیں،اسی طرح تین مزدور جو قتل ہوئے وہ بھی مختلف علاقوں کے ہیں۔‘
حاجی عابد حسین کے مطابق انھوں نے اور دیگر علاقہ معززین نے انتظامیہ کو بتایا ہے کہ ’یہ زمین کا معاملہ نہیں۔‘
محمد شریف کون تھے؟BBC
یاد رہے کہ پہلے واقعہ میں مارے جانے والے محمد شریف کے بارے مقامی سوشل میڈیا پر یہ بات سامنے آئی کہ وہ بھی شعبہ تعلیم سے وابستہ تھے اور معلم تھے تاہم حقائق اس کے برعکس ہیں۔
اساتذہ تنظیموں کے مقامی رہنما شجاعت حسین کے مطابق ’محمد شریف اُستاد نہیں تھے۔ یہ غلط افواہ پھیلائی گئی۔ اس کے پیچھے مقاصد ہو سکتے ہیں۔‘
مقامی ایس ایچ او رجب علی کے مطابق محمد شریف اُستاد نہیں بلکہ ٹیکسی ڈرائیور تھے۔ وہ نا تو تری منگل گاؤں کے رہائشی تھے اور نا ہی وہاں بسنے والے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔
مگر محمد شریف کا قتل، اس کے بعد وائرل ہونے والے پیغامات اور بالآخر اساتذہ سمیت سات افراد کے قتل نے فرقہ وارانہ رخ کیسے اختیار کیا؟ ضلع اپر کرم میں اس حوالے سے سماجی سطح پر بحث پائی جاتی ہے۔ اس واقعہ سے متعلق کچھ مقامی افراد سے ہماری بات ہوئی۔
مقامی بزرگ حاجی رحیم نے بتایا کہ ’دونوں طرف سے غلط فہمی ہو گئی، دونوں طرف سے بے گناہ لوگ مارے گئے اور فرقہ وارانہ فساد ہو گیا۔ یہاں حکومت کی رِٹ بہت کمزور ہے۔ اگر رِٹ مضبوط ہوتی تو ایسا نہ ہوتا۔‘
محمد شریف کا قتل اور وائرل میسجBBC
اس واقعہ پر نظر رکھنے والے صحافیوں اور مقامی افراد کا کہنا تھا کہ جیسے ہی محمد شریف کے قتل کا واقعہ ہوا، سوشل میڈیا جیسا کہ واٹس ایپ پر میسجز پھیلنا شروع ہوئے، جن میں یہ پہلو نمایاں تھا کہ شیعہ علاقے میں ایک سنی عقیدہ رکھنے والے ٹیچر کو قتل کر دیا گیا ہے۔
مقامی صحافی سید عدنان حیدر نے ہمیں بتایا کہ ’میسج پھیلائے گئے کہ اہلسنت کے بندے کو مار دیا گیا ہے۔ اس کا بدلہ لینا ضروری ہے۔‘
’یوں کچھ لوگ سکول میں داخل ہو گئے اور چار اساتذہ جو کہ اہل تشیع تھے، پر تشدد کیا گیا اور بعد میں گولی مار دی گئی۔‘
اس کیس کی تفیش سے منسلک ایک پولیس افسر کے دعوے کے مطابق ’اساتذہ کا قتل محمد شریف کے قتل کے ردِعمل میں ہوا، اس طرح کا منفی پروپیگنڈا یہاں ہوتا رہتا ہے۔‘
پیر احمد بطور سپرینڈنٹ کی ڈیوٹی پر مامور تھے اور اس وقت وہ سکول میں موجود تھے اور دو بجے ہونے والے امتحان کی تیاری میں مصروف تھے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’ہمیں یہ بتایا گیا کہ پہلے جو گاڑی میں بندہ مارا گیا، اس کے ردِعمل میں سکول پر حملہ ہوا ہے اور ایک لشکر اندر گھس آیا ہے، لہذا یہاں سے فوری نکل جاؤ۔‘
یہ بھی پڑھیے
ضلع کرم میں اساتذہ کی ہلاکت: ’میں جن کے بچوں کو پڑھا رہا ہوں ان سے ہی جان کا خطرہ ہے‘
کرم: لین دین کے تنازع سے شروع ہونے والی بات گستاخیِ مذہب کے الزام تک کیسے پہنچی؟
مردان: سیاسی جلسے میں توہین مذہب کا الزام، مشتعل ہجوم نے ایک شخص کو ہلاک کر دیا
اُن کا کہنا تھا کہ ’ہلاک ہونے والے اساتذہ بھی چھٹی کے وقت سکول سے نکل گئے تھے مگر جیسے ہی سکول کی جانب آنے والے ہجوم پر ان کی نظر پڑی تو وہ واپس آ گئے۔‘
’ہم تین لوگوں نے قریب ہی واقع ملک ثواب خان کے حجرے میں جا کر پناہ لی۔‘
مقتول ٹیچر سید حسین کے بھائی سید محمد حاجی کے مطابق ’میرے بھائی نے ایک بج کر پچپن منٹ پر مجھے واٹس ایپ پر میسج کیا کہ سکول کے راستے میں کوئی قتل ہو گیا ہے، حالات خراب لگ رہے ہیں۔‘
’پھر اگلا میسج اگلے منٹ میں آیا کہ میں لیٹ آؤں گا۔ فی الحال میں صیحح سلامت ہوں، مگر مجھے لگتا ہے کہ یہ ہمیں نہیں چھوڑیں گے۔ پھر دو بج کر تیرہ منٹ پر واٹس ایپ بند ہو گیا۔‘
واضح رہے کہ تری منگل کا علاقہ اہل سنت مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر مشتمل ہے۔ یہاں کے گورنمنٹ ہائی سکول میں سنی و شیعہ دونوں مسلکوں کے اساتذہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔
شجاعت حسین کا کہنا تھا کہ ’جن اساتذہ کو قتل کیا گیا، وہ کئی سالوں سے اپنی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔‘
مقتول ٹیچر سید حسین، جو دوراوی علاقہ کے رہائشی تھے، کے والد نے بتایا کہ ’میرا بیٹا وہاں کے بچوں کو پڑھاتا تھا۔ استاد تو باپ ہوتا ہے، انھوں نے اپنے روحانی باپ کا بھی خیال نہ کیا اور اسے بیدردی سے مار دیا۔‘
ایک اور مقتول ٹیچر سید علی شاہ کا تعلق علیشاری علاقہ سے تھا۔ ان کے کزن سید مجاہد حسین نے ہمیں بتایا کہ ’سید علی شاہ صبح سکول سے چھٹی کرنا چاہتا تھا۔‘
’اس نے مجھے کہا کہ میرا آج سکول میں کوئی کام نہیں مگر بعد میں سکول سے کال آئی کہ آج ضرور آنا ہے اور وہ چلا گیا۔‘
سید علی شاہ کے بھتیجے سید قائد علی شاہ کے مطابق ’ایک بجے سکول سے چھٹی ہو جاتی ہے مگر یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ میرے چچا اور دیگر اساتذہ وہاں کیوں رُکے رہے اور ایک بجے سکول سے چھٹی کر کے گھروں کی طرف کیوں نہیں آئے؟‘
ایک اور مقتول ٹیچر لیاقت حسین کے کزن تنویر حسین کے مطابق ’لیاقت علی اس سکول کے بچوں کا بہت خیال رکھتا تھا، وہ کئی سال سے وہاں پڑھا رہا تھا۔‘
جس روز واقعہ پیش آیا اُن کی آنکھوں میں انفیکشن تھا مگر وہ پھر بھی سکول چلے گئے۔
ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین نے بی بی سی کے ساتھ چند آڈیوز شیئر کی ہیں جن میں چند افراد مخصوص فرقے سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کی ہلاکت پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ اس واقعے کے بعد ضلع کرم میں ہر قسم کا کاروبار زندگی مکمل طور پر بند ہو گیا تھا اور علاقے میں سخت ترین حفاظتی اقدامات کیے گئے تھے۔ پولیس کی اضافی نفری کے علاوہ پیرا ملڑی فورس کے اہلکاروں کو مختلف مقامات پر تعنیات کیا گیا تھا۔
قتل کے واقعات کے بعد ضلع کرم کے داخلی راستے بند کر دیے گئے تھے جنھیں اگلے روز کھولا گیا۔ ضلع کرم کی پولیس کے مطابق فائرنگ کے دو مختلف واقعات میں آٹھ افراد کی ہلاکت پر تین مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
تینوں مقدمات نامعلوم افراد کے خلاف درج کیے گئے ہیں اور ان میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔