Getty Images
پاکستان میں صورتحال کبھی اتنی سنگین نہیں تھی جتنی اب ہے۔
ملک کی معیشت دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہے، معاشرہ سیاسی طور پر تقسیم کا شکار ہے۔ لاکھوں افراد اب تک گذشتہ برس آنے والے سیلاب کے اثرات سے باہر نہیں نکلے پائے ہیں۔ ملک میں دہشتگردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں اور مہنگائی کے طوفان نے لاکھوں شہریوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل تر بنا دیا ہے۔
ایک طرف ملک شدید مالی مسائل سے دوچار ہے تو دوسری طرف سیاست دانوں اور اداروں میں اختیارات کی رسہ کشی جاری ہے کہ کون پاکستان کو چلائے گا۔
روزانہ کی بنیاد پر ٹی وی چینلوں پر چلنے والے مباحثے، سخت الٹی میٹم اور متعدد احتجاجی ریلیوں اور جلوسوں کے باوجود پاکستان آج بھی ایک سال قبل پیدا ہونے والے سوال کا جواب دینے سے قاصر نظر آتا ہے۔
ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کہتے ہیں ’جو چیز اس موجودہ صورتحال کو بے مثال بناتی ہے وہ دیگر سنگین بحرانوں کی موجودگی ہے۔‘
’پاکستان کے پاس یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہے کہ یہ سیاسی بحران ایک خلفشار ہے، اور آخر کار صورتحال نارمل ہو جائے گی اور ہم وہاں پہنچ جائیں گے جہاں ہمیں ہونے کی ضرورت ہے۔‘
پاکستان کی معیشت مشکلات کا شکار ہے۔ اس کے زرمبادلہ کے ذخائر، جو ایندھن سمیت دیگر درآمدات کی ادائیگی کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، کئی دہائیوں میں سب سے کم سطح پر گر چکے ہیں۔ اس سال کے شروع میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، آئی ایم ایف، کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کے نتیجے میں 1.1 ارب ڈالرز کی قسط ملنے کا معاہدہ ہونا ابھی باقی ہے۔
جبکہ دوسری جانب عسکریت پسند سکیورٹی فورسز پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی مسلح افواج نے حال ہی میں کہا ہے کہ رواں برس کے دوران اب تک 436 دہشت گرد حملے ہو چکے ہیں۔ اس نوعیت کے حملوں کے بعد عسکریت پسند گروپ باقاعدگی سے انفوگرافکس جاری کرتے ہیں جن میں ان حملوں کی تعداد، سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو ہلاک یا زخمی کرنے اور ملک بھر میں کارروائی کے دوران اسلحہ قبضے میں لینے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔
اور ایسے میں سونے ہر سہاگہ ملک میں اشیا خردو نوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان اب تک گذشتہ برس آنے والے تباہ کن سیلاب کے اثرات سے نہیں نکل سکا ہے اور اس سال پھر سے بے موسمی بارشوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ ایسے میں سیاستدانوں سے پوچھے جانے والے سوالات کی کوئی کمی نہیں ہے۔
صحافی و سیاسی تجزیہ کار مہمل سرفراز کہتی ہیں کہ ’سیاسی عدم استحکام ایسے میں صورتحال اور نظام کو مزید خراب کر رہا ہے۔ پاکستان کا نظام تباہ ہو رہا ہے اور اگر ایسا ہوا تو یہ پاکستان کی عوام یا سیاستدانوں کسی کے لیے فائدہ مند نہیں ہو گا۔‘
سیاسی ڈیڈلاک کیوں ہے؟Reuters
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال کا آغاز گذشتہ برس اپریل میں عمران خان کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کےذریعے ختم کیے جانے کے بعد سے ہوا۔
کوگل مین کہتے ہیں کہ ’عمران خان نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور ایسے میں یہ واضح تھا کہ موجودہ حکومت عمران خان کی تحریک اور غصے کو بھی نظر انداز نہیں کرے گی۔‘
عمران خان نے اس کا جواب ملک بھر میں ریلیاں نکال کر اور اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کر کے دیا۔
عمران خان کے خلاف حکومت کی جانب سے قائم کردہ عدالتی مقدمات کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ عمران خان کے خلاف توہین عدالت، کرپشن اور دہشتگردی کے دفعات کے تحت ایک سو سے زیادہ مقدمات بنائے گئے ہیں۔
لیکن سابق وزیر اعظم نے حکومت کے ان مقدمات کا جواب اپنی سیاسی مہم کے ذریعے دیا ہے اور حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے ’ملک میں جنگل کا قانون بنا رکھا ہے۔‘
جبکہ حکومتی وزرا اس کے جواب میں عمران خان پر ’انا‘ اور ’خود پسندی‘ سے کام لینے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
عمران خان کی جانب سے عدالت میں متعدد مرتبہ پیش نہ ہونے پر اسلام آباد پولیس دو مرتبہ انھیں لاہور میں ان کی رہائشگاہ سے گرفتار کرنے کے لیے پہنچی تھی۔
عمران خان نے بھی حکومت کو عدالت میں گھسیٹا ہے۔ ان کی پارٹی نے دو صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر کے ملک میں عام انتخابات کروانے کی کوشش کی ہے اور جب اس میں انھیں ناکامی ہوئی تو انھوں نے اس بارے میں ملک کی سپریم کورٹ میں مقدمہ کر دیا جو اس وقت زیر سماعت ہے۔
Reuters
اس عدالتی رسہ کشی نے عدلیہ کو بھی تقسیم کر دیا ہے۔ حکومت کا الزام ہےکہ عدلیہ کے چند ججز عمران خان کی حمایت میں ہیں اور اس تقسیم اور سخت اختلاف سے ملک میں ایک آئینی بحران پیدا ہو گیا ہے۔
پلڈاٹ کے سربراہ اور سیاسی تجزیہ کار احمد بلال کا کہنا ہے کہ ’عمران خان حکومت کو آرام سے بیٹھنے نہیں دیں گے جبکہ دوسری طرف اس حکومت کی تمام توجہ اپنی حکومت بچانے پر رہی ہے۔‘
ان کا خیال ہے کہ اس محاذ آرائی کا تعلق عمران خان کی ذات سے ہے کیونکہ ’وہ کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔‘
احمد بلال کا کہنا ہے کہ عمران خان کی طرف سے سمجھوتہ نہ کرنا بے سود ہے اور طویل المدت میں انھیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔
جبکہ مہمل سرفراز کہتی ہے کہ اس ڈیڈ لاک سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ پاکستان کے ادارے ناکام ہو رہے ہیں۔ ’کوئی ایسا فریق، ادارہ یا گروہ نہیں بچا جو ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہو، ملکی اسٹیبلشمنٹ بھی ساکھ کھو چکی ہے۔‘
پاکستان کی فوج اور انٹیلیجنس ایجنسی کے لیے اکثر اسٹیبلشمنٹ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔پاکستان کی فوج نے ہمیشہ ملکی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ کبھی فوجی بغاوت کر کے ملک کے اقتدار پر قبضہ کیا تو کبھی پس پردہ بیٹھ کر ڈوریں ہلائیں۔
بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سنہ 2018 کے انتخابات میں عمران خان کی الیکشن میں کامیابی فوج کی مدد سے ممکن ہوئی تھی۔ اب جبکہ وہ حزب اختلاف میں ہیں تو وہ کُھل کر فوج کے ناقد ہے اور اس سے فوج کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔
مائیکل کوگل مین کہتے ہیں کہ ’اس بات کے واضح اشارے ہیں کہ فوج میں مستقبل کے لائحہ عمل سے متعلق کوئی معاہدہ نہیں ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’میرا خیال ہے کہ فوج کی اعلیٰ ترین قیادت خود کو سیاست میں مزید شامل نہ کر کے خوش ہو گی، جبکہ فوج کے نچلے اور درمیانے رینکس کے بہت سے عناصر، عمران خان کے بڑے حامی ہیں۔ انھوں نے عوام اور فوج میں بھی تقسیم پیدا کی ہے۔جسے ختم کرنا ایک مشکل کام ہے۔‘
آگے کیا ہو گا؟
احمد بلال کا کہنا ہے کہ ملک میں عام انتخابات بھی اسی برس ہونے ہیں لیکن خدشہ ہے کہ انھیں بھی ملک کی سکیورٹی صورتحال اور ناکافی فنڈز کا بہانہ بنا کر تاخیر کا شکار کیا جا سکتا ہے۔ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بہت نقصاندہ ہو گا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں یہ بہت بدقسمتی ہو گی اور یہ ملک میں جمہوری عمل کو نقصان پہنچائے گا، جس کی شاید تلافی نہ ہو سکے کیونکہ ہم نے اس سے قبل کبھی عام انتخابات میں تاخیر ہوتے نہیں دیکھی۔‘
حکومت اور پی ٹی آئی میں الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے پہلے ہی مذاکرات ہو چکے ہیں جن میں ملک میں صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات ایک ہی دن کروانے پر اتفاق ہے لیکن اس پر اتفاق نہیں کہ یہ کب کروانے ہیں۔
مہمل سرفراز کا کہنا ہے لیکن اب صرف انتخابات کی تاریخ پر اتفاق کافی نہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اگر اب انتخابات ہو بھی جائیں تو بھی ایک تنازع اس وقت تک رہے گا جب تک کہ سیاسی جماعتیں یہ فیصلہ نہ کر لیں کہ اُن کی حد کیا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ اگر دونوں فریقین یعنی حکومت اور پی ٹی آئی نے یہ طے نہ کیا کہ وہ کیسے الیکشن کے عمل کو شفاف اور غیر جانبدار رکھ سکتے ہیں تو نتائج متنازع ہوں گے اور ملک میں مزید سیاسی تقسیم ہو گی۔
اس کا دارومدار سیاستدانوں پر ہے کہ کیا وہ سیاسی طور پر منقسم ملک میں کسی معاہدے پر پہنچ سکتے ہیں، بظاہر یہ ایک مشکل کام ہے۔
مہمل سرفراز کا کہنا ہے کہ ’سیاستدانوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ وہ سیاسی مخالفین ہیں ذاتی دشمن نہیں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم معاملات کو آگے لے کر بڑھیں اور ایک دوسرے سے مذاکرات اور بات چیت کریں اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے اور یہ پورا نظام ہی تباہ ہو جائے۔‘