Getty Images
سوڈان سے فرار حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ایک خاندان کا کہنا ہے کہ وہ مصر کی سرحد پر پھنسے ہوئے ہیں کیونکہ وہاں موجود بس ڈرائیورز ان سے سرحد پار کرنے کے لیے 40 ہزار ڈالر کی رقم کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ صرف بسوں کے ذریعے سپیشل پرمٹس کے حامل افراد کو سرحد پار کرنے کی اجازت ہے۔ پیدل سرحد پار کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
سات افراد پر مشتمل اس خاندان میں 10 سال سے کم عمر کے تین بچے بھی شامل ہیں اور یہ خرطوم میں ہونے والی چھڑپوں سے بچ کر یہاں پہنچے ہیں۔
خاندان کے رکن فادی اتابانی نے بتایا کہ ان کے ساتھ ایک 88 سالہ خاتون بھی موجود ہیں اور اب وہ یہاں پھنس کر رہ گئے ہیں۔
انھوں نے سردی قصبے وادی حلفا سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہاں ہزاروں افراد موجود ہیں۔ رہنے کا کوئی بندوبست نہیں۔ لوگ یا تو سکولوں میں سو رہے ہیں یا اپنے ساتھ لائے ہوئے گدوں پر۔‘
ان کے خاندان کے اکثر افراد کے پاس برطانیہ کی شہریت ہے اور وہ برطانوی حکومت سے مدد کی اپیل کر چکے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’یہاں میں اپنے بچوں کی صحت کے بارے میں پریشان ہوں کیونکہ ہم صحرا کے بیچ میں موجود ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ برطانوی حکومت میری مدد کرے یا ایک بس کا بندوبست کروا دیں تاکہ ہم سرحد پار کر سکیں۔‘
اتابانی نے مقامی بس ڈرائیورز پر الزام عائد کیا کہ وہ اس غیر معمولی صورتحال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’عام دنوں میں یہ لوگ تین ہزار ڈالر کا مطالبہ کرتے ہیں۔ آج کچھ لوگ 40 ہزار ڈالر بھی دے رہے ہیں، اور فاصلہ صرف 30 کلومیٹر طے کرنا ہے۔‘
53 سالہ اتابانی کا کہنا ہے کہ ’اتنے پیسے کس پاس ہوتے ہیں؟ یہاں بینک بند ہیں، اے ٹی ایم میشینیںکام نہیں کر رہیں۔‘
خرطوم کی رہائشی حسنہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی دو بیٹیاں سوڈانی دارالحکومت میں پھنسی ہوئی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ انھیں سرحد تک پہنچنے کے لیے 400 ڈالر کرائے کی مد میں دینا پڑ رہا ہے۔ خرطوم میں لڑائی سے قبل یہ سفر 25 ڈالر میں ہو جاتا تھا۔
حسنہ لڑائی سے قبل مصری شہر اسوان میں موجود تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’میری بیٹیوں نے ہمارے محلے میں ایک آرٹلری شیل گرتے دیکھا ہے۔ میں انھیں یہاں نہیں لا سکی۔ میرا شوہر یا بیٹا نہیں ہے جو ان کی مدد کر سکے۔ میں روزانہ کام کر کے رقم جمع کرتی ہوں۔‘
انھوں نے پیسے بنانے کی کوشش میں ایک چائے کی دکان پر کام کرنا شروع کر دیا جو اسوان کے قریب آج کل پناہ گزینوں کا گڑھ بن چکا ہے۔
حسنہ کا کہنا تھا کہ ’سوڈان مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ وہ لوگوں کو ان کے گھروں میں گھس کر مار رہے ہیں۔
سوڈانی نژاد امریکی اسرا بانی ایک محقق ہیں جو لوگوں کی مدد کے لیے اسوان پہنچی ہیں نے بتایا ہے کہ یہاں بسوں نے کرائے میں ’ہوشربا‘ اضافہ ہوا ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’لوگ یہاں سے فرار ہونے کے لیے اپنے جیب سے رقم فراہم کر رہے ہیں، اس دوران ان کا وقار کھو جاتا ہے۔‘
سوڈانی فوج اور نیم فوجی گروہ ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے درمیان جھڑپوں کا آغاز 15 اپریل کو ہوا تھا۔ اس کے بعد سے سینکڑوں افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔
پیر کو دو فریقوں نے تین روزہفائر بندی معاہدہ کیا تھا، جس میں جمعرات کو توسیع کی گئی تھی۔
اس وقت دارالحکومت اور اس کے اطراف میں جھڑپیں شدت اختیار کر چکی ہیں۔ دارالحکومت کی آبادی ایک کروڑ کے قریب تھی، اور اب وہاں خوراک، پانی اور ایندھن کی قلت دیکھنے کو مل رہی ہے۔
اتابانی کا کہنا تھا کہ انھوں نے خرطوم میں اپنا گھر چھوڑتے ہے چند کپڑے پیک کیے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں جب خرطوم سے نکلا تو میری تمام قیمتی اشیا گھر پر ہی موجود تھیں۔ کیا میرا وہاں اب بھی گھر موجود ہوا؟ خدا جانے۔ ہم تو بس وہ سب ساتھ لے آئے جو لا سکتے تھے۔‘
ان کے برطانیہ میں موجود رشتہ دار کہتے ہیں کہ وزراتِ خارجہ سے متعدد مرتبہ مدد مانگنے کی کوشش کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
حکام نے برطانوی شہریوں کو بتایا ہے کہ انھیں وادی سعیدنا ایئرفیلڈ سے ہی فضائی ذریعے سے ملک سے نکالا جا سکتا ہے۔ تاہم یہاں تک پہنچنے کے لیے خرطوم سے دو روز کا بس کا سفر کرنا پڑ سکتا ہے۔
اتابانی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایئرفیلڈ تک پنچنا بہت مشکل ہے۔ ہمیں کہا جاتا ہے کہ ایئرفیلڈ تک جانے کی ذمہ داری اپنی ہو گی، ایسے میں کوئی اپنے خاندان کو خطرے میں کیسے ڈال سکتا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
دو جرنیلوں کی اقتدار پر قبضے کی جنگ جس نے سوڈان کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا
جب ہماری فیکٹری میں گولیاں گرنا شروع ہوئیں تو فیصلہ کیا کہ اب یہاں رُکنا مناسب نہیں
وہ پاکستانی جو جنگ زدہ سوڈان کو چھوڑنے پر تیار نہیں
جمعرات کو ترکی نے بتایا تھا کہ وادی سعیدنا میں ان کی جانب سے بھیجے گئے طیارے پرفائر کیا گیا تھا۔
بی بی سی کو جاری کیے گئے بیان میں وزارتِ خارجہ کا کہنا تھا کہ ’ہم برطانوی شہریوں کے انخلا کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔
’سوڈان میں برطانوی شہری ہماری ترجیح ہیں اور ہم ملک چھوڑنے کی خواہش رکھنے والے افراد سے درخواست درخواست کریں گے کہ وہ جلد از جلد برطانوی انخلا سینٹر تک پہنچیں۔ تاحال ہم ایئرفیلڈ تک ٹرانسپورٹ فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے۔‘
وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ جمعرات کی شام وادی سعیدنا ایئر فیلڈ سے طیاروں کے ذریعے 897 لوگوں کا انخلا ممکن بنایا گیا ہے۔
تاہم بی بی سی نے برطانوی نژاد سوڈانی ڈاکٹر سے بات کی ہے جنھیں آر اے ایف بحیرا احمر کے مشرق میں موجود شہر سے نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم فی الحال سوڈان میں ایسے درجنوں ایسے برطانوی نژاد سوڈانی شہری موجود ہیں جنھیں سوڈان کی بندرگاہ سے نکانے کی کوشش کی جا رہی ہے، تاہم تاحال انخلا کے لیے کوئی پرواز میسر نہیں ہے۔
اضافی رپورٹنگ: مصر کے شہر اسوان سے بی بی سی کے نمائندے ٹام بیٹمین۔