عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ انڈیا میں تیار کردہ مضرِ صحت کھانسی کے شربت کی ایک کھیپ مارشل آئی لینڈز اور مائکرونیزیا میں ملی ہے۔
عالمی ادارہِ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق انڈیا میں تیار کردہ کھانسی کے شربت کے جن نمونوں کو تجزیہ کیا گیا ان میں خطرناک حد تک ڈائتھیلین گلائیکول اور ایتھیلین گلائیکول نامی مرکب پائے گئے۔
کھانسی کا یہ شربت انڈیا کی ریاست پنجاب میں واقع کیو پی فارماکیم لمیٹڈ نامی کمپنی تیار کرتی ہے۔
کھانسی کے شربت میں پائے جانے والے یہ دونوں زہریلے کیمیکل انسانوں کے لیے موت کا باعث ہو سکتے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ آیا کھانسی کی اس دوا کی وجہ سے کوئی ہلاکت بھی ہوئی ہے۔
عالمی ادارہِ صحت نے کچھ مہینے قبل بھی گیمبیا اور ازبکستان میں بچوں کی ہلاکت اور انڈیا ہی میں تیار کردہ کھانسی کی دوسری ادویات کے درمیان تعلق کے بارے میں بتایا تھا۔
کیو پی فارماکیم لمیٹڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر سدھیر پاٹھک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کمپنی نے تمام ریگولیٹری مراحل سے گزر کر کھانسی کے اس شربت کی اٹھارہ ہزار تین سو چھیالیس بوتلوں کی ایک کھیپ کمبوڈیا برآمد کی تھی۔ انھوں نے کہا کہ انھیں نہیں معلوم کہ یہ پروڈکٹ ماشل آئی لینڈز اور مائکرونیزیا کیسے پہنچی۔
’ہم نے ان بوتلوں کو پیسیفک ریجن میں نہیں بھیجا تھا اور انھیں وہاں پر استعمال کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ بوتلیں کن حالات میں اور کس طرح مارشل آئی لینڈز اور مائکرونیشیا پہنچیں۔‘
سدھیر پاٹھک نے بتایا کہ ان کی کمپنی نے کھانسی کے شربت کی کھیپ کمبوڈیا برآمد کرنے والی کمپنی کو قانونی نوٹس بھیج دیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے بیان میں کہا گیا ہے کہ کھانسی کے اس شربت کا تجزیہآسٹریلیا کے ڈرگ ریگیولیٹر’تھیراپیوٹک گڈز ایڈمنسٹریشن‘نے کیا تھا۔ یہ دوا سینا جکڑنے اور کھانسی کے علاج کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
کھانسی کے اس شربت کی مارکٹنگ ریاست ہریانہ میں قائم ٹریلیم فارما نامی کمپنی کرتی ہے، بی بی سی کا اس کمپنی سے فون پر رابطہ نہیں ہو سکا ہے۔
انڈیا کی حکومت نے ابھی تک اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے بیان میں مزید کہا گیا ہے ’کھانسی کا یہ شربت تیار کرنے والی کمپنی اور نہ ہی اس کی مارکٹنگ کرنے والی کمپنی نے ڈبلیو ایچ او کو حفاظت اور معیار سے متعلق کوئی گارنٹی مہیا کی ہے۔‘
انڈیا دنیا بھر میں جنیرک ادویات، یعنی بغیر برانڈ والی ادویات، کے بڑے ایکسپورٹرز میں سے ایک ہے جو ترقی پزیر ممالک کی طبی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔
تاہم حالیہ مہینوں میں ان ادویات کے معیار پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ کئی ماہرین نے ادویات کی تیاری کے طریقہ کار پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
گزشتہ برس اکتوبر میں ڈبلیو ایچ او نے انڈیا کی فارماسوٹیکل کمپنی میڈن فارماسوٹیکلز کے تیار کردہ چار مختلف کھانسی کے شربتوں اور افریقی ملک گیمبیا میں 66 بچوں کی ہلاکت کے درمیان تعلق کے بارے میں بتایا تھا اور عالمی سطح پر الرٹ جاری کیا تھا۔
انڈیا کی حکومت اور میڈن فارماسوٹیکلز دونوں ہی نے ان الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔
اس سال مارچ میں انڈیا نے ادویات بنانے والی ایک کمپنی کا لائسنس منسوخ کر دیا تھا کیونکہ اس کمپنی کے کھانسی کے شربت کو ازبکستان میں 18 بچوں کی ہلاکت کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔
اس مہینے کے آغاز میں امریکہ میں ادویات کے نگراں ادارے فیڈرل ڈرگ ایڈمنسٹریشن ایف ڈی اے نے انڈیا میں تیار کردہ آنکھوں کی دوا (آئی ڈراپس) کو امریکہ میں تین افراد کی ہلاکت اور شدید انفیکشنز سے منسلک کیا تھا اور کہا تھا کہ ان ادویات کی تیار میں حفاظتی اصولوں کی شدید خلاف ورزیاں کی گئی تھیں۔