Getty Imagesمارلن سوانت
فرض کریں آپ ایک ٹی وی پر ہونے والے انعامی مقابلے میں شریک ہیں۔
آپ کے پاس ایک نئی کار جیتنے کا موقع ہے لیکن اسے پانے کے لیے آپ کو تین میں سے ایک دروازے کا انتخاب کرنا ہے۔ ایک دروازے کے پیچھے گاڑی کی چابی موجود ہے۔
ان تین میں سے دو دروازوں کے پیچھے ایک ایسا انعام ہے جسے پا کر شاید کوئی بھی خوش نہیں ہو گا۔ یہ انعام ایک بکری ہے۔
فرض کریں آپ نے دو نمبر دروازے کا انتخاب کیا جو درمیان میں ہے۔ اب میزبان مقابلے میں سنسنی پیدا کرنے کے لیے آپ کی مدد کرنے کا فیصلہ کرتا ہے اور دروازہ نمبر تین کھول دیتا ہے جہاں ایک بکری بندھی ہوئی ہے۔
میزبان آپ کو ایک پیشکش کرتا ہے۔ کیا آپ اپنے پہلے انتخاب یعنی دو نمبر دروازے پر ہی قائم رہیں گے یا آپ پہلا دروازہ کھولنے کو ترجیح دیں گے؟
اگر آپ کچھ سوچ بچار کریں تو آپ کے پاس دو ہی راستے ہیں اور آپ کے پاس کار جیتنے کا 50 فیصد موقع ہے جبکہ 50 فیصد امکان اس بات کا ہے کہ آپ گاڑی کے بجائے ایک بکری گھر لے کر جا رہے ہوں گے۔
لیکن اگر آپ تھوڑا اور سوچیں، جیسا مارلن سوانت نے کیا، تو آپ کے پاس گاڑی جیتنے کا دو تہائی امکان ہے یعنی 66 فیصد۔
اور یہ کچھ زیادہ پیچیدہ بات نہیں ہے بلکہ ایک سادہ سا تجزیہ ہے۔
ذہانت کی مثال
مارلن سوانت اب 76 سال کی ہیں۔ ایک عرصے تک وہ امریکی اخبار میں ’آسک مارلن‘ یعنی مارلن سے سوال کریں کے عنوان سے کالم لکھتی رہی ہیں جن میں وہ سوالات کے جواب دیتی رہیں اور پیچیدہ پہیلیاں حل کرتی رہی ہیں۔
وہ مصنف بھی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ سرمایہ کاری بھی کرتی رہی ہیں۔ لیکن بچپن سے ان کو ایک اور ٹائٹل میں دلچسپی تھی۔
ذہانت کا امتحان جسے ’انٹیلیجنس کوشینٹ‘ کہتے ہیں، میں انھوں نے 228 کا سکور حاصل کیا تھا۔ یہ اوسط سکور سے دگنا ہے۔
گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ نے 1985 سے 1989 تک ذہانت کے ٹیسٹ میں سب سے زیادہ سکور کرنے والی خاتون کے طور پر اُن کا نام درج کیا۔ اسی لیے ان کو دنیا کی سب سے ذہین خاتون کے طور پر جانا جاتا ہے۔
BBC
ان کے والدین یورپ سے امریکہ آئے اور مسوری کے شہر میں سکونت اختیار کی جہاں 1946 میں مارلن پیدا ہوئیں۔
ان کے خیال میں بچے کو ماں اور باپ دونوں کا نام اپنے نام کے ساتھ شامل کرنا چاہیے۔ اسی لیے انھوں نے اپنی والدہ کا نام سوانت اپنے نام میں شامل کیا جس کا فرانسیسی زبان میں مطلب ہے ’عقل مند انسان۔‘
سکول میں انھوں نے حساب اور سائنس کے مضامین میں ہمیشہ اچھی کارکردگی دکھائی۔ اپنی 10ویں سالگرہ پر انھوں نے دو مختلف آئی کیو ٹیسٹ دیے۔ ان میں سے ’ہویفلن میگا آئی کیو ٹیسٹ‘ میں ان کا سکور 228 آیا اور اسی بنا پر ان کا نام گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا گیا۔
اس کے بعد سے ان کو شہرت ملی لیکن ان کی زندگی میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔ نوجوانی میں وہ اپنے والدین کے سٹور میں ان کی مدد کرتی تھیں۔ ان کو کتابیں پڑھنا بہت پسند تھا۔
امریکہ کی کسی بڑی یونیورسٹی کے بجائے انھوں نے واشنگٹن یونیورسٹی میں فلسفہ پڑھنے کو ترجیح دی جو ان کے اپنے ہی شہر میں واقع تھی۔ تاہم انھوں نے پڑھائی ترک کرنے اور خاندان کے سرمایہ کاری کاروبار پر دھیان دینے کا فیصلہ کیا۔
تاہم ان کی ذہانت کی شہرت ان کا پیچھا کرتی رہی۔
Getty Images
1970 میں انھوں نے مصنف بننے کی خواہش کی تکمیل کرنے کا ارادہ کیا اور کئی ذہانت کے ٹیسٹوں میں شرکت کی۔ بعد میں وہ نیو یارک منتقل ہو گئیں جہاں وہ ڈیوڈ لیٹر مین اور جو فرینکلن کے مشہور شو میں بھی نظر آئیں۔
ان سے ایک سوال حو بار بار کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ذہانت کیا ہے؟
فرینکلن کے شو میں انھوں نے کہا کہ ’ذہانت اپنے تجربے سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت کا نام ہے اور آئی کیو ٹیسٹ زیادہ سے زیادہ اس ذہانت کے استعمال کی صلاحیت کو ناپ سکتا ہے۔‘
یہی وہ وقت تھا جب انھوں نے آسک مارلن کے نام سے کالم کا آغاز کیا۔
سنہ 1989 میں ان سے انعام کے لیے دروازے سے متعلق سوال کیا گیا۔ ان کے جواب نے سائنس دانوں اور ریاضی دانوں کو حیران کر دیا۔
پہیلی کا جواب
جس تصور پر کار اور بکری والی پہیلی تشکیل دی گئی وہ نیا نہیں تھا۔
اس سے قبل امریکی ٹی وی پروگرام ’لیٹس میک اے ڈیل‘ میں ایسی ہی صورتحال پیش کی جا چکی تھی اور اسے ’مونٹی ہال پرابلم‘ کہا جاتا تھا۔
سنہ 1975 میں سٹیو سیلون نامی ریاضی دان نے اس پہیلی کا حل پیش کیا تھا لیکن مارلن کا جواب زیادہ مشہور ہوا۔
BBC
انھوں نے جواب دیا کہ ’آپ کو اپنے انتخاب بدل لینا چاہیے۔ پہلے دروازے میں جیت کا امکان ایک تہائی ہے لیکن دوسرے دروازے میں دو تہائی جیت کا امکان ہے۔ فرض کریں کہ دس لاکھ دروازے ہیں اور آپ پہلے دروازے کو چنتے ہیں۔ پھر میزبان، جو جانتا ہے کہ دروازوں کے پیچھے کیا ہے اور اس دروازے کو نہیں کھولے گا جس کے پیچھے انعام چھپا ہے، ایک کے علاوہ سب دروازے کھول دیتا ہے پھر آپ اپنا انتخاب بدل دیں گے ناں؟‘
ان کے جواب پر ردعمل کی بوچھاڑ ہو گئی۔ ان کے مطابق ان کو 10 ہزار خطوط موصول ہوئے جن میں سے ایک ہزار ریاضی دانوں کی جانب سے تھے۔
جارج میسن یونیورسٹی کے رابرٹ ساچس نے لکھا کہ ’ایک ماہر ریاضی دان کے طور پر عوام کی کمزور ریاضی میرے لیے باعث تشویش ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ اپنی غلطی تسلیم کریں گی اور مستقبل میں احتیاط سے کام لیں گی۔‘
تنقید کے باوجود کافی عرصے تک مارلن نے اپنے جواب کا دفاع کیا۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے ریاضی دان ای رے بوبو نے لکھا کہ ’آپ غلط ہیں۔ کتنے ریاضی دان برہم ہوں گے کہ آپ اپنا ذہن بدلنے پر مجبور ہو جائیں؟‘
کیا میں درست ہوں؟
مارلن کا جواب درست مانا جائے گا لیکن اس وقت تک جبکہ میزبان یہ بتا دے کہ دروازے کے پیچھے کیا ہے اور انتخاب بدلنے کا موقع دے۔ اسی لیے یہ مسئلہ امکانات کا مسئلہ ہے۔
دروازے کا انتخاب کرنے سے آپ مقابلے کا آغاز جیت کے ایک تہائی امکان سے کرتے ہیں جبکہ دو تہائی کا کنٹرول میزبان کے پاس ہے۔ ہو سکتا ہے آپ نے درست انتخاب کیا ہو لیکن آپ کی جیت کا امکان 33 فیصد ہے۔
Getty Imagesمونٹی ہال
جب آپ میزبان کی جانب سے ایک دروازہ کھولے جانے پر اپنا انتخاب بدل لیتے ہیں تو آپ نے اپنی جیت کے امکان میں ایک تہائی کا مزید اضافہ کر لیا اور اب آپ کی جیت کا امکان 66 فیصد ہو چکا ہے۔
یہ سوچ غلط ہے کہ آپ کی جیت کا امکان 50 فیصد ہے کیوںکہ ایک دروازہ کھل چکا ہے جس کے نتیجے میں صورت حال بدل چکی ہے۔
دروازے کا انتخاب بدلنے سے آپ کی جیت تو یقینی نہیں ہوتی لیکن امکان بڑھ جاتا ہے کیوںکہ میزبان صرف وہی دروازہ کھولے گا جس کے پیچھے بکری ہے۔
اور یہ بات کئی بار ثابت ہو چکی ہے۔ چند سال قبل بی بی سی ایک ایسے تجربے کا حصہ بنا جس میں کارڈف یونیورسٹی کے طلبا کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک حصیے کو میزبان جبکہ دوسرے حصے کو مقابلے کے شرکا بنایا گیا۔
جن لوگوں نے موقع ملنے پر اپنا انتخاب بدل لیا، ان میں جیت کا امکان بڑھ گیا۔ 30 میں سے 18 نے کار جیت لی یعنی 60 فیصد نے۔ دوسری جانب جن 30 فیصد نے اپنا جواب تبدیل نہیں کیا، ان میں سے صرف 11 کے جواب درست نکلے یعنی 36 فیصد۔
مارلن سے معافی مانگنے والے زیادہ خطوط نہیں لکھے گئے۔ لیکن جارج میسن یونیورسٹی کے رابرٹ ساچس نے ان کو ضرور خط لکھا اور کہا کہ ’میں شرمسار محسوس کر رہا ہوں۔‘