’پیسے تو نہیں آئے، بیٹی کی لاش گھر آ گئی‘: کیا پاکستان کی معاشی صورتحال فلاحی اداروں کی کمر توڑ رہی ہے؟

بی بی سی اردو  |  Apr 26, 2023

BBCندا فقط دو ہزار کی امداد حاصل کرنے کی کوشش میں اپنی بیٹی کی ہلاکت پر انتہائی رنجیدہ ہیں

’نہ پیسے آئے، نہ عید منائی، بس بچی کی لاش گھر میں آ گئی۔ گھر میں غربت ہے تو دوسری جانب شوہر کو کام نہیں مل رہا تھا، اسی وجہ سے میری بیٹی چاہ رہی تھی کہ نئے کپڑے بن جائیں اور اس کے والد کو کوئی ٹینشن نہ ہو۔ یہ مہنگائی اور بیروزگاری نہ ہوتی تو کیوں وہ اِن دو ہزار کے پیچھے جاتی۔‘

کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن کی رہائشی ندا نے اپنی بیٹی امہ ہانی کو یاد کرتے ہوئے بتایا۔ امہ ہانی گذشتہ ماہ کراچی کے سائیٹ ایریا میں ایک فلاحی تنظیم کی جانب سے زکوٰۃ کی تقسیم کے دوران مچنے والی بھگڈر کے نتیجے میں کچل کر چل بسی تھیں۔

ندا ایک کمرے کے گھر میں کرائے پر رہتی ہیں، ان کی پانچ بیٹیاں ہیں جبکہ شوہر عارضہ قلب میں مبتلا ہیں اور کچھ عرصہ قبل انھیں سٹنٹ ڈلا تھا۔ ندا کے مطابق ان کے شوہر پہلے تعمیرات کےشعبے میں بطور مستری کام کرتے تھے لیکن بیماری کی وجہ سے اب انھوں نے یہ کام چھوڑ دیا ہے۔

ندا اپنی سات سالہ بیٹی امہ ہانی کے ہمراہ 30 مارچ زکوٰۃ لینے گئی تھیں جب یہ واقعہ پیش آیا۔

ندا فقط دو ہزار کی امداد حاصل کرنے کی کوشش میں اپنی بیٹی کی ہلاکت پر انتہائی رنجیدہ ہیں۔

BBC’بچے ڈیمانڈ کرتے ہیں کہ انھیں فلاں فلاں چیز دلوائی جائے، مگر میں انھیں کچھ بھی نہیں دلا سکتی، بس صبر کر کے بیٹھ جاتے ہیں‘

ندا ہی سے ملتی جلتی کہانی کراچی ہی کی رہائشی سدرہ کی ہے۔

شام کا وقت تھا اور سدرہ کراچی کے علاقے نمائش پر قائم فلاحی ادارے ’سیلانی ویلفیئر‘ کے باہراپنے دو بچوں کے ساتھ ایک طویل قطار میں موجود تھیں۔ ان کے آگے اور پیچھے ان ہی جیسی سینکڑوں خواتین بھی موجود تھیں۔ اس قطار میں موجود بیشتر خواتین نے حجاب لے رکھا تھا مگر اُن کے ظاہری حلیے سے اُن کی مالی حیثیت کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔

ندا کی کہانی کے برعکس سدرہ کی باری آنے پر اُن کے بچوں کو ایک خیراتی ادارے کی جانب سے عید کے دو جوڑے دیے گئے اور کچھ راشن بھی۔

یہ کا ایک منظر تھا جہاں مستحقین خواتین زکوات اور راشن لینے کے لیے آتی ہیں۔

سدرہ لیاقت آباد میں کرائے کے گھر میں رہتی ہیں ان کے پانچ اور سات سال کے دو بچے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی اپنے شوہر سے علیحدگی ہو چکی ہے۔ سدرہ ملازمت کرتی ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ ملازمت سے بھی گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے جبکہ رشتہ دار بھی اس قابل نہیں کہ ان کی مدد کر پائیں، اسی لیے وہ گزر بسر کے لیے فلاحی اداروں سے ملنے والی امداد پر انحصار کرتی ہیں۔

’بچے ڈیمانڈ کرتے ہیں کہ انھیں فلاں فلاں چیز دلوائی جائے، مگر میں انھیں کچھ بھی نہیں دلا سکتی، بس صبر کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔ کیا کریں، کہاں سے لائیں، جس سے مانگو منع کر دیتا ہے، اسی لیے یہاں سیلانی والوں کے پاس آتے ہیں۔‘

کچھ ایسی ہی کہانی 50 سالہ شازیہ کی ہے۔ ایک فلاحی ادارے سے صدقے کی رقم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کے والدین حیات نہیں جبکہ بھائی یا کوئی کفیل بھی نہیں اور وہ دو غیر شادی شدہ بہنیں ہیں۔

ان کے مطابق وہ کچھ عرصے تک کام کرتی تھیں لیکن پھر ان کے مہروں میں گیپ آ گیا ہے اور ڈاکٹروں نے انھیں کام نہ کرنے کا مشورہ دیا اور اب ان کے پاس گزربسر کا کوئی وسیلہ نہیں، اس لیے وہ فلاحی اداروں کی جانب دیکھتی ہیں۔

Getty Images

پاکستان سینٹر فار فیلنتھراپی (پی سی پی) کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں شہری ہر سال تقریباً 240 ارب روپے چیریٹی (صدقہ، خیرات، زکوٰۃ وغیرہ) کی مد میں مختلف خیراتی اداروں کو دیتے ہیں۔ یہ رقم ملک کے جی ڈی پی کا لگ بھگ ایک فیصد بنتا ہے۔ماہ رمضان میں مذہبی فریضے کے طور پر مسلمان یہ رقوم عطیات کی مد میں دیتے ہیں۔

تاہم پاکستان کے محکمہ شماریات کے مطابق ملک میں مہنگائی اپنی بلند ترین شرح یعنی 40 فیصد تک پہنچ چکی ہے اور ایسی صورتحال میں سفید پوش اور مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد بھی دستیاب وسائل میں گزارا نہیں کر پا رہے۔ اسی صورتحال کے باعث حالیہ دنوں میں جہاں ملک میں فلاحی اداروں سے مدد لینے والوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ دیکھا گیا ہے تو دوسری جانب فلاحی اداروں کے منتظمین کا دعوٰی ہے کہ ان کو ملنے والے عطیات میں کمی دیکھی گئی ہے اور یہ ادارے مالی دباؤ کا شکار نظر آتے ہیں۔

’پاکستان سے عطیات میں کمی آئی ہے‘BBC

سیلانی ویلفیئر کے سربراہ مولانا بشیر فاروقی حالیہ برسوں کو فلاحی کاموں کی ضمن میں ’کڑا وقت‘ قرار دیتے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ہم نے کبھی ایسا نہیں کہا تھا، لیکن پچھلے دنوں ہم نے یہ کہہ دیا کہ ہمارے پاس اب صرف چند دنوں کے پیسے بچے ہیں۔ ظاہر کہ جب آمدن کم ہو جائے مگر اخراجات بڑھ جائیں تو کام پر دباؤ آتا ہے۔ پاکستان سے عطیات میں کمی ہوئی ہے مگر شکر ہے کہ بیرون ممالک سے اس سال ہم نے ریکارڈ عطیات حاصل کیے ہیں جس کی وجہ سے کام درمیانے درجے تک آ گیا ہے۔‘

دوسری جانب ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی بتاتےہیں کہ اُن کے عطیات میں نہ اضافہ ہوا ہے اور نہ کمی، ’لیکن مہنگائی کے باعث قوت خرید آدھی ہو گئی ہے جس سے سروسز متاثر ہوں گی۔ ہر سال ماہ رمضان میں جو کراچی شہر کے لیے 40 لاکھ کا راشن لیتے تھے اب اس کی خریداری80 لاکھ ررپے سے بھی زائد میں ہوتی ہے۔‘

دستر خوان پر مڈل کلاسBBC

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں خیراتی و فلاحی اداروں کے علاوہ کئی مخیر حضرات بھی مستحق لوگوں کو کھانا فراہم کرتے ہیں۔ کراچی میں چھیپا فاونڈیشن کے سربراہ رمضان چھیپا کہتے ہیں کہ ’مہنگائی کی وجہ سے وہ بھی دباؤ کا شکار ہیں۔‘

’مڈل کلاس سفید پوش طبقہ تو ہمیشہ دینے والوں میں سے تھا، مدد کرنے والوں میں سے تھا، مگر ایک سے ڈیڑھ سال میں جو مہنگائی طوفانآیا ہے، اس میں یہ طبقہ پسکر رہ گیا ہے۔ ہمارے دستر خوانوں پر دہاڑی دار مزدور اور کم آمدن والے لوگ آتے تھے، لیکن گزشتہ ایک سال سے پوری پوری فیملیز آ رہی ہیں۔‘

سیلانی فاونڈیشن کے سربراہ بشیر فاروقی کے مطابق ’خوراک حاصل کرنے کے خواہاں مستحقین کی تعداد تیزی بڑھ رہی ہے۔‘ ان کے مطابق چند سال پہلے تک وہ پچاس، ساٹھ ہزار لوگوں کو یومیہ خوراک فراہم کرتے تھے، لیکن اس سال رمضان میں یہ تعداد دو لاکھ سے زائد ہوچکی تھی۔

’مریض کیا مر جائیں‘

کراچی ہی میں واقع فلاحی ادارے ’انڈس ہسپتال‘،گردوں کا ہسپتال ’ایس آئی یو ٹی‘، آنکھوں کا ہسپتال ’ایل آر بی ٹی‘ سمیت صحت کے شعبے سے وابستہ کئی ادارے زکوٰۃ لیتے ہیں، جس کی مدد سے مستحقین کو مفت صحت کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔

انڈس ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر عبدالباری خان بتاتے ہیں اُن کے عطیات میں کمی نہیں آئی کیونکہ زکوٰۃ تو یقیناً لوگ ادا کرتے ہیں تاہم مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، جو لوگ پہلے پرائیوٹ ہسپتالوں سے علاج کرواتے تھے اب وہ بھی یہاں آ رہے ہیں، جبکہ ڈالر کے نرخ میں اضافے کی وجہ سے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔

جعفریہ ڈائلیسز سیل یعنی ’جے ڈی سی فاؤنڈیشن‘ بھی صحت کے شعبے میں کام کر رہی ہے۔ تنظیم کے سربراہ ظفر عباس کہتے ہیں کہ اُن کے جتنے بھی ڈائلیسز سینٹر ہیں وہ فری ہیں مگر جس سینٹر کا پہلے ماہانہ خرچہ چالیس لاکھ روپے تھا تو اب وہ بڑھ کر ایک کروڑ روپے ہو گیا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’پچھلے سالوں کے عطیات کے مقابلے میں اس سال بڑے پیمانے پر کمی ہوئی ہے۔ جس ڈونر کو فون کر رہے ہیں وہ اپنی مشکل بتا رہا ہے۔ کاروباری لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے کنٹینر پھنسے ہوئے ہیں، ہم نے تو اپنے دس ہزار سٹاف کو وقت پر تنخواہ نہیں دی ہے۔ اب اس صورتحال میں میں کس کے پاس مدد کو جاؤں۔‘

پاکستان میں ایدھی فاونڈیشن کا ایمبولینس کا سب سے بڑے نیٹ ورک رہے جو حادثات میں زخمیوں کو ہپستال پہنچانے کے علاوہ ہسپتالوں اور گھروں سے مریضوں کی منتقلی کرتا ہے۔ ادارے کے سربراہ فیصل ایدھی کہتے ہیں کہ تیل کی مسلسل قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے انھیں ستر فیصد نقصان ہو رہا تھا کیونکہ انھوں نے ابتدا میں ایمبولینس کی فیس نہیں بڑھائی تھی مگر جب مجبوری میں کرایہ بڑھایا گیا تو دور دراز سے مریضوں نے ہسپتال آنا چھوڑ دیا، خاص طور پر وہ مریض جو ڈائلیسز کے لیے آتے تھے۔

سیلانی فاؤنڈیشن کے سربراہ بشیر فاروقی کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کی بیشتر آبادی اپنی ضروریات کے لیے ان جیسے فلاحی اداروں کی جانب دیکھ رہے ہوتے ہیں، جیسے کہ عید، تہواروں، شادیوں، بیماری، تعلیم و صحت۔

کیا فلاحی ادارے بچ پائیں گے؟ BBC

ایک جانب جہاں پاکستان میں مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی فلاحی اداروں سے توقعات بڑھ رہی ہیں تو وہیں فلاحی اداروں کو درپیش مسائل کے باعث یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ادارے بچ پائیں گے؟

ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کہتے ہیں کہ ’ہم نے اپنی بچت سے ایک ایمرجنسی فنڈ بنایا ہے، لیکن ہر فلاحی ادارے کے پاس یہ فنڈ نہیں ہوتے۔ چھوٹی سطح پر کام کرنے والے فلاحی ادارے ہمارے ساتھ رابطے میں ہوتے ہیں جن کے پاس اتنی بچت نہیں ہوتی۔ مگر اُن کی مشکلات سن کر خدشہ ہوتا ہے کہ ایسے ادارے اس صورتحال میں مشکل ہی سے بچ پائیں۔‘

پاکستان بھر میں 800 مراکز چلانے والی تنظیم کے سربراہ بشیر فاروقی کہتے ہیں کہ ’ہم نے اپنے شہروں کے مراکز کو کہہ دیا ہے کہ آپ کو اپنی سطح پر کام کرنا ہو گا۔ اس سے پہلے کراچی سب شہروں کو چلا رہا تھا، لیکن اب کراچی کے پاس اتنے وسائل دستیاب نہیں ہیں۔ اب کراچی سے خیبر تک سب ٹرسٹی بورڈ ممبران کو کہہ دیا ہے کہآپ کو اپنے مراکز خود چلانے ہوں گے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More