Getty Images
انتباہ: اس تحریر میں کچھ تفصیلات بعض قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں
ریسکیو ورکر خلیل الرحمن گذشتہ روز جب سوات کے علاقے کبل میں پولیس کے محکمہ انسدادِ دہشتگردی (سی ٹی ڈے) کے تھانے میں دھماکے کی اطلاع پر جائے وقوعہ پر پہنچے تو عمارت میں ایک جگہ آگ لگی تھی اور دوسری جانب عمارت گری ہوئی تھی۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’وہاں افراتفری کا عالم تھا۔ کئی زخمی کراہ رہے تھے۔ میں نے سب سے پہلے جس زخمی کو اٹھایا اس کے ہاتھ اور پاؤں کا کچھ پتا نہیں تھا۔ ہمارے اٹھاتے اور گاڑی تک پہنچاتے ہوئے وہ دم توڑ گیا۔‘
خلیل الرحمن اس دھماکے کے بعد سب سے پہلے اپنے تین ساتھیوں کے ہمراہ پہنچنے والے امدادی کارکن تھے۔ ان کا ریسیکو سٹیشن کبل پولیس لائن اور سی ٹی ڈی دفاتر کے قریب ہی واقع ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ہم لوگوں نے شدید دھماکے کی آواز خود بھی سن لی تھی۔
’دھماکے کے چند سیکنڈ کے اندر ہمیں کال بھی مل چکی تھی۔ جس پر میں اپنے تین ساتھیوں کے ہمراہ فوراً ہی جائے وقوعہ پر پہنچ گیا۔‘
گذشتہ کئی ماہ سے ہی سوات میں امن عامہ کی صورتحال کے حوالے سے مقامی عمائدین اور عوامی رہنماؤں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا تھا اور گذشتہ روز کبل میں ہونے والے دھماکے کے باعث علاقے میں ایک بار پھر خوف کی لہر دوڑ گئی ہے۔
تاحال دھماکے کی نوعیت کے حوالے سے تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ آیا یہ حملہ دہشتگردی کے باعث ہوا یا ایسا سی ٹی ڈی کے دفتر میں موجود اسلحے میں دھماکوں سے ہوا۔ اب تک اس دھماکے میں کم سے کم 17 افراد ہلاک جبکہ 50 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔
سوات پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں پولیس اہلکاروں کے علاوہ عام شہری بھی شامل ہیں۔
آئی جی پولیس خیبر پختونخوا اخترحیات نے کہا ہے کہ ’تفتیشی ادارے کھلے ذہن سے تفتیش کر رہے ہیں کہ آیا اتنا نقصان مال خانے میں موجود بارودی مواد پھٹنے یا پھر دہشتگردی کی وجہ سے ہوا لیکن فی الحال شارٹ سرکٹ سے وجہ سامنے آرہی ہے۔‘
ریسکیو اور سویلین ادارے گذشتہ رات دو بجے تک امدادی کارروائیوں میں مصروف رہے تھے تاہم اس کے بعد جائے وقوعہ پر مزید نقصاں دہ اسلحہ موجود ہونے کے خطرے کے پیشِ نظر پاکستانی فوج نے آپریشن شروع کر دیا تھا۔
’ہمارا مسئلہ یہ تھا کہ کس کو اٹھائیں اور کس کو چھوڑیں‘
موقع پر پہنچنے والے خلیل بتاتے ہیں کہ جس جگہ پر چھت گری ہوئی تھی وہاں پر ہمیں واضح طور پر دبے ہوئے لوگوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔
’کئی لاشیں پڑی ہوئی تھیں اور کئی زخمی انتہائی نازک حالت میں تھے جبکہ کئی زخمی بھاگ رہے تھے کہ خطرہ تھا کہ مزید چھت اور دیواریں نہ گر جائیں۔ ہمارا مسئلہ یہ تھا کہ کس کو اٹھائیں اور کس کو چھوڑیں کیونکہ زخمیوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔‘
یہاں خلیل اور ان کے ساتھیوں کو فیصلہ کرنا تھا کہ وہ کس طرح زیادہ سے زیادہ افراد کی جان بچا سکتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’ہم نے اپنی تربیت کے مطابق فیصلہ کیا کہ ہم صرف زخمیوں کو ہی ہسپتال تک پہنچائیں گے، جو لوگ دم توڑ چکے ہیں ان کو نہیں چھیڑا جائے گا۔‘
اس دوران باقی سٹیشنز کو بھی اطلاع دے دی گئی تھی اور وہاں سے بھی امدادی کارکن جائے وقوعہ پر پہنچ چکے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم نے تین زخمیوں کو ایک ساتھ اٹھایا اور انھیں فی الفور کبل سول ہسپتال منتقل کرنے لے گئے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’ایک زخمی سے جب بات ہوئی تو اس نے کہا کہکہ مجھے کچھپتا نہیں چل رہا کہ میرا جسم بے جان ہو رہا ہے۔ درد کا تو پتا ہی نہیں۔‘
’دوسرے کی سانس کی نالی خون کی وجہ سے بند ہو چکی تھی۔ اس کو سانس لینے میں مدد فراہم کی تو اس کی طبیعت بہتر ہوئی جبکہ تیسرے زخمی کی حالت بہتر تھی۔
جب وہ زخمیوں کو لے کر سول ہسپتال کبل پہنچے تو انھیں بتایا گیا کہ اتنے شدید زخمیوں کو فوراً ٹیچنگ ہسپتال سیدو شریف پہنچانا ہو گا۔
Getty Images’ہسپتال میں عملہ الرٹ تھا‘
خلیل الرحمن بتاتے ہیں کہ وہ سیدو ہسپتال پہنچے تو وہاں پر عملے کے علاوہ ایدھی، الخدمت اور دیگر رضا کار بھی موجود تھے۔
’انھوں نے فوراً زخمیوں کو ایمرجنسی میں پہنچا دیا تھا۔ اس دوران مجھے کال آئی کہ اب میری جائے وقوعہ پر دوبارہ واپس آنے کی ضرورت نہیں۔ وہاں پر امدادی کارکنان کافی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔‘
خلیل الرحمن بتاتے ہیں کہ ’رات گئے تک سیدو ہسپتال سے پوسٹ مارٹم کے بعد لاشیں الخدمت کے حوالے کی گئیں۔ جنھوں نے انھیں پولیس لائن پر منتقل کیا۔‘
خلیل الرحمن کے بعد موقع پر پہچنے والی دوسری ریسیکو ٹیم کے جواد احمد جو ایمرجنسی ٹیکنیشن میڈیکل اور ساتھ میں شفٹنگ انچارج بھی ہیں۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم سے چند لمحے پہلے خلیل الرحمن پہنچ چکے تھے۔ میں فوراً اپنے ساتھیوں کے ساتھ تین زخمیوں کو سول ہسپتال کبل پہنچا کر واپس آیا تو صورتحال مختلف تھی۔‘
یہ بھی پڑھیے
’میں اپنی ماں کا بہت لاڈلا ہوں اگر مجھے کچھ ہوا تو میری ماں کا کیا ہو گا؟‘ کانسٹیبل کا دم توڑنے سے قبل سوال
’ہم تین کانسٹیبل بھائی تھے اب میں اکیلا رہ گیا ہوں، میرے بھائیوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا‘
’مجھے ذاتی طور پر اسکے مرنے کا بہت افسوس ہوا کیونکہ میں نے تیس منٹ تک اسکی جان بچانے کی کوشش کی‘
’دوسری چھت بھی گر گئی تھی‘
جب جواد احمد واپس جائے وقوعہ پر پہنچے تو دوسری چھت بھی گر چکی تھی اور اس کے ملبے تلے بھی کافی تعداد میں لوگ دبے ہوئے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم نے رات گئے تک ملبے سے آٹھ لاشوں کو نکالا تھا۔ جائے وقوعہ دو منزلہ ہے۔ نچلی منزل پر کتنے لوگ تھے یہ پتا نہیں چلا سکا جبکہ وہاں پر اب پاک فوج کے دستے آپریشن کر رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ دوبارہ موقع پر پہنچنے پر صورتحال مزید گھمبیر ہو چکی تھی۔ ہم نے مزید چار زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا ان کو راستے میں ابتدائی طبی امداد بھی دی تھی۔ وہ چاروں محفوظ ہیں۔
’اس وقت ان سے بات کرنے کیکوشش کی تو وہ مکمل ٹراما کا شکار تھے۔ وہ یہ بھی نہیں سمجھ پارہے تھے کہوہ انتہائی زخمی ہوچکے ہیں۔‘
جواد احمد کا کہنا تھا کہ ’اس کے بعد ہم نے دو مزید زخمیوں کو اٹھایا تو وہ ٹھیک ٹھاک بات کر رہے تھے اور حوصلے سے لگ رہے تھے مگر ہسپتال پہنچنے تک، دونوں دم توڑ گئے، جس کا مجھے انتہائی دکھ ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ملبے تلے دبے افراد میں سے کچھ زخمی معمولی جلے بھی ہوئے تھے۔ میں نے جو آخری لاش نکالی ہے اس کا صرف ہاتھ ملا تھا باقی دھڑ کا کچھ پتا نہیں تھا۔‘
یاد رہے کہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب سوات پاکستان میں دہشتگردی سے متاثرہ علاقوں میں سرفہرست اور تحریک طالبان کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔