وہ برطانوی افسر جس نے بیواؤں کو شوہر کے ساتھ زندہ جلانے کی رسم ستی کو غیر قانونی قرار دیا

بی بی سی اردو  |  Apr 24, 2023

Getty Images

انڈیا پر برطانیہ کی حکمرانیکے دور کے پہلے گورنر جنرل لارڈ ولیم بینٹنک نے دسمبر 1829 میں ہندوؤں کی قدیم مذہبی رسم ستی پر پابندی عائد کی تھی۔

لارڈ بینٹک نے 49 اعلیٰ فوجی افسران اورپانچ ججوں سے اس معاملے پر رائے طلب کی اور اپنے اس یقین کا اظہار کیا کہ ’برطانوی حکمرانی کے دوران اب ایک گندے داغ کو دھونے کا وقت آ گیا ہے۔‘

ان کے پیش کیے گئے ضابطے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’ستی انسانی فطرت کے جذبات سے بغاوت ہے۔‘

ستی کے عمل کوغیر قانونی اور ظالمانہ قرار دیے جانے کے لارڈ بیٹنک کے اس بیان نے بہت سے ہندوؤں کو چونکا کر رکھ دیا۔

واضح رہے کہ ستی کی رسم میںقدیم ہندو رواجکے مطابق شوہر کے مر جانے پر اس کی بیوہ اپنے شوہر کی آخری رسومات کے دوران چتا پر خود کو جلا دیتی ہے۔

لارڈ بینٹک کے ضابطے میں کہا گیا تھا کہ ’بیوہ کو جلانے میں مدد گار اور اس کی حوصلہ افزائی میں مرتکب افراد کو مجرمقرار دیا جائے گا، چاہے یہ عمل رضاکارانہ ہو یاجبر کے ساتھ کیا گیا ہو، ایسے افراد اقدامقتل کے مرتکب قرار دیے جائیں گے۔‘

انھوں نے عدالتوں کو یہ اختیار دیا کہ ’طاقت کا استعمال کر کے ایک بیوہ خاتون کو زندہ جلانے میں مدد کے مرتکب افراد کو سزائے موت دی جا سکے گی جو اس عمل کے لیے خاتون کو کسی نشہ آور محلول کے زیر اثر بھی لے آتے ہیں جس سے اس خاتون کی اپنی آزاد مرضی کا استعمال بھی ظاہر نہیں ہوتا۔‘

لارڈ بینٹنک کےپیش کیے گئے ضابطوں پر جب قانون سازی عمل میں آ گئی تو راجہ رام موہن رائے کی قیادت میں300 سے زائدنامور ہندوؤں نے ان کا شکریہ ادا کیا کہ ’اس قانون نے ہمیں ہمیشہ کے لیے اس سنگین بدنامی سے نجات دلا دی، جس میں ہمارا کردار عورتوں کے جان بوجھ کر قتل کیے کے طور پر جڑا ہوا تھا۔‘

تاہم قدامت پسند ہندوؤں نے لارڈبینٹک کے اس اقدام کو چیلینج کرتے ہوئے کہا کہ ستی کی رسم مذہب کے تحت لازمییا فرض نہیں‘ تاہم لارڈبیٹنک اپنے مؤقف سے نہیں ہٹے۔

درخواست گزار برطانوی کالونیز کے تحت آخری حربے کے طور پر پریوی کونسل کے پاس اپنی پٹیشن لے گئے تاہم 1832 میں کونسل نے اس ضابطے کو برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ ستی معاشرے کے خلاف برملا اور واضح جرمہے۔‘

انڈیا میں ذات پات کے نظام سے متعلق قانونی تاریخ کا جائزہ لینے والی کتاب کاسٹ پرائیڈ کے مصنف منوج میتا نے لکھا ہے کہ ’ 1829 کے ضابطے کی یہ غیر معمولی جنگشاید نوآبادیاتی دور کے 190 سال میں واحد مثال تھی جہاںسماجی قانون سازی کے دورانمذہنی روایات کے تناظر میں کوئی رعایت نہیں دی گئی۔‘

منوج میتا کے مطابق ’ گاندھی کے برطانوی سلطنت کے خلاف اخلاقی دباؤ ڈالنے سے بہت پہلے ہی لارڈ بینٹنک نے ستیکی رسم میں موجود ذات پات اور صنفی تعصبات کے خلاف بھی یہی طاقتاستعمال کی تھی۔ نوآبادیات کے نظام کو زنگ آلود بنانے والی مقامی رسم کو جواز بنا کر انھوں نے ایک اخلاقی نکتہ اٹھانے کی جرات کی تھی۔‘

تاہم1837 میں لارڈ بینٹنک کے قانون کو ایک اور برطانویتھامس میکالے کی جانب سے کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔

انڈین پینل کوڈ کے مصنف تھامس میکالے کے مطالعے میں کہا گیا کہ ’اگر کوئی اپنے دعویٰمیں یہ ثبوت پیش کرے کہ اس نے بیوہ کے کہنے پر اسے چتاکے ساتھجلایاتو اسے بری کیا جا سکتا ہے۔‘

انھوں نے اپنے ایک مسودہ نوٹ میں یہ بھی کہا کہ ’خود کو جلانے والی خواتین مذہبی فرض اور بعض اوقات غیرت کے مضبوط احساس سے جڑی ہوتی ہیں۔‘

منوج میتاکے مطابق ’ستی کی رسم کے بارے میں میکالے کی ہمدردانہ سوچ نےدہائیوں بعد برطانوی راج کو متاثر کیا۔‘

وہ لکھتے ہیں ’یہ مسودہ 1857 کی بغاوت کے بعدسپرد خاککر دیا گیا جب مقامی ہندو اور مسلمان سپاہیوں نے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف اس خدشے پر بغاوت کی کہ بندوق کے کارتوسوں پرجانوروں کی چربیچڑھائی گئی تھی جو ان کے مذاہب کی طرف سے حرام ہے۔‘

’قانون کی کتاب کے ان کمزور ضوابط نے اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کو خوش کرنے کی حکمت عملی میں اہم کردار ادا کیا جس میںنوآبادیاتی دور میں حکمرانوں کے خلاف کی جانے والی بغاوت میں اہم کردار ادا کیا تھا۔‘

1862 کے ضابطے میں کہا گیا تھا کہ ستیکرنے والوں کو مجرمانہ قتل کا مرتکب ٹہراتے ہوئے سزا دی جائے گی اور دوسرا یہ کہ سنگین معاملات میں سزائے موت دی جائے گی۔

اس کا مطلب یہ بھی تھا کہ اب اس میں ملزم کو یہ دعویٰ کرنے کی اجازت دے دی گئی کہ متاثرہ خاتون نے اپنے شوہر کی آخری رسومات میں اپنی زندگی ختم کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی، اس لیے یہ قتل کے بجائے خودکشی کا معاملہ تھا۔

منوج مہتا لکھتے ہیں کہ ’ستیکی رسم کے اصول کو کمزور کرنا ان تمام سماجی قانون سازی کے خلافشکایات کا رد عملتھا، جس میں ستی کو غیر قانونی قرار دینا، ہندوؤں کی خاندانی جائیداد کے وارث ہونے کا اختیار سے متعلق 1850 کا قانون اور تمام بیواؤں کی دوبارہ شادی کی اجازت دینے والا 1856 کا قانون شامل تھا۔

لیکن اس قانونکو کمزور کرنے کا فوری محرک اونچی ذات کے ہندو سپاہیوں کا وہ غم و غصہ بھی بنا، جس میں کارتوسوں میں گائے کی چربی کے استعمال کی اطلاعات تھیں۔

’اگرچہ 1829 کے بعد سےستی کرنے کا رواجنسبتا کم پایا گیا تاہم انڈیاکے بعض حصوں خاص طور پر اونچی ذات کے ہندووں میں یہ رسم فروغ پاتی رہی۔‘

Getty Imagesراجستھان میں ایک قلعے کی دیواروں پر ستی کرنے والی خواتین کی یاد میں ہاتھ بنائے گئے ہیںموتی لال نہرو کی1913 میںستی میں ملوث افراد کے دفاع میں عدالت میں پیشی

انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کر کے برطانوی راج سے آزادی کی مہم میں کلیدی کردار ادا کرنے والے انڈین وکیل اور سیاستدان موتی لال نہروکی 1913 میں عدالت میں پیشی کو بھی ایک دلچسپ موڑ کے طور پر دیکھا جاتا ہے جب وہ اتر پردیش میں ستی کرنے سے متعلق ایک مقدمے میں چھ اعلیٰ ذات کے مردوں کا دفاع کرتے ہوئے پیش ہوئے۔

اس مقدمے کا سامنا کرنے والے مردوں کا بیان تھا کہ ’مرنے والے کی چتا مذہب پسند بیوہ کے اس اقدام سے خود ہیمعجزانہ طور پر بھڑک اٹھی۔‘

ججوں نے اس معجزاتی عمل کے نظریہ کو مسترد کرتے ہوئے اسپر پردہ ڈالنے کیمذمت کی اور مردوں کو اس خاتون کی خودکشی پر اکسانے کا قصوروار ٹھہرایا۔

اس کیس میںملوث دو ملزمان کو چار سال قید کی سزا سنائی گئی۔

یہ بھی پڑھیے:

مندرا بیدی: ہندو عقیدے میں چتا جلانے کی رسم کے دوران خواتین کی موجودگی پر کیا کہا جاتا ہے؟

انڈیا میں توہم پرستی: ریاست مدھیا پردیش میں ’بارش کے لیے رسم‘ میں کم عمر لڑکیوں کی برہنہ پریڈ

ستی پریوینشن ایکٹ: جب تاج برطانیہ نے خاوند کے ساتھ جل مرنے کی رسم ستی کو قابل تعزیر جرم بنا دیا

Getty Imagesموتی لال نہرو نے 1913 میں ستی کرنے سے متعلق ایک مقدمے میں چھ اعلیٰ ذات کے مردوں کا دفاع کیاراجیو گاندھی کے دور حکومتمیں ستیکی حوصلہ افزائی کرنے والوں کے لیے سزائے موت متعارف کروائی گئی

ان واقعات کے 70 سال بعد بیواؤں کو زندہ جلائے جانےکی رسم میں ایک آخری موڑ آیا۔

1987 میں موتی لال نہرو کے پڑ پوتے راجیو گاندھی کی زیرقیادتحکومت نے ایک قانون نافذ کیا جس میںستی کے عمل میں شامل افراد کو پہلی بار باقاعدہمجرم قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ اس عملکو جائز قرار دینے والے، ستی کی حمایت، جوازفراہم کرنے والے یا پروپیگنڈہ کرنے والے تمام افراد کو سات سال کی سزا ہو سکتی ہے۔

راجیو گاندھی کی حکومت میں بنائے جانے والے اس قانون میں ستی کے عمل کو اقدام قتل گردانا گیا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کے لیے سزائے موت متعارف کروائی گئی۔

یہ اقدامانڈیا کی شمالی ریاست راجستھان کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ستیکا واقعہ رپورٹ ہونے کے شدید عوامی رد عمل کے بعد سامنے آئے تھے۔

اس واقعہ میںراجھستان میںایک کم عمر دلہن روپ کنور کواس کے شوہر کے مرنے کے بعد اس کے ساتھ ستی کر دیا گیا تھا اور اس پر عوام میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا تھا۔

منوج میتا لکھتے ہیں کہ ’1947 میں آزادی کے بعد باضابطہ طور پر درجکیا جانے والا ستی کا یہ 41واں مقدمہ تھا۔

منوج میتا کے مطابق راجیو گاندھی کے قانون کی تمہید لارڈ بینٹنک کے ضابطے سےہی مستعار لی گئی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More