ریشم اور سونے کے شامیانے،عالیشان دعوتیں اور کھیل تماشے: مغل اور عثمانی حکمران عید کیسے مناتے تھے؟

بی بی سی اردو  |  Apr 24, 2023

Getty Images

’چاندی کا تخت گرد کٹہرا، پشت پر تکیہ، آگے تین سیڑھیاں، نیچے پایوں میں خوبصورت پھول، اوپر کِرکِری تاش(ایک قسم کا ریشمی کپڑا) کا تخت پوش پڑا ہوا۔‘

’دائیں طرف ملکہ دوراں اپنی مسند پر سر سے پاوں تک سونے، موتی، جواہر میں ڈوبی ہوئیں، ناک میں نتھ جس میں چڑیا کے انڈے برابرموتی ہیں۔ ان کے برابر اور بیویاں اپنی اپنی سوزنیوں(کپڑاجس پر سوئی کا باریک کام کیا ہو) پر گہنا پاتا (زیور)، ناک میں نتھیں پہنے بیٹھی ہیں۔ بائیں طرف شاہ زادیاں بناؤ سنگار کیے، سر سے پاوں تک گہنے میں لدی ہوئی بیٹھی ہیں۔

’سامنے حبشنیاں، ترکنیاں، قلماقنیاں (پہرے دارعورتیں)، اردابیگنیاں (حکم احکام پہنچانے والی ہتھیار بند عورتیں)، جسولنیاں (وہ عورتیں جو شاہی محل میں خبر پہنچاتی ہیں)، خواجہ سرا جریبیں (چاندی کا خول چڑھی لکڑی) پکڑے مودب کھڑے ہیں۔‘

یہ منظر ہے جشن کے روز مغل محل کا جہاں ابھی بادشاہ کو آنا ہے۔ یہ جشن کسی بھی تیوہار کا ہو سکتا ہے مگر آج یہاں عیدالفطر ہے۔

اپنی کتاب ’بزمِ آخر‘ میں محل کا یہ منظر بیان کیا ہے منشی فیض الدین نے جنھوں نے آخری دو مغل بادشاہوں کے دور میں اپنی زندگی کا زیادہ حصہ قلعہ معلےٰ میں گزارا تھا۔

گزریشام عیدالفطر کے چاند کا اعلان نقار خانے کے دروازے کے سامنے حوض پر پچیس توپیں چلا کر کیا گیا تھا۔

منشی فیض بتاتے ہیں ’رات کو توپیں، ڈیرے خیمے، فرش فروش عیدگاہ روانہ ہوا۔ سواری کا حکم ہوا۔ ہاتھی رنگے گئے‘۔

Getty Images

آج عید کا دن ہے۔ یہ کیسا گزرتا ہے، منشی فیض بتاتے ہیں کہ ’صبح کو بادشاہ نے حمام کیا۔ پوشاک بدلی، جواہر لگایا۔خاصے والیوں(بادشاہ کا کھانا پروسنے والی عورتیں) نے جلدی سے دسترخوان، سویاں دودھ، اولے، بتاشے، چھوارے، خشکا، کھڑی مسورکی دال اس پر لگا دی۔ بادشاہ نے نیاز دی۔ ذرا ذرا سا چکھ کر کلی کی۔‘

’باہربرآمد ہوئے۔ جسولنی نے خبرداری بولی۔ باہر ترئی (صفائی اور چھڑکاو) ہوئی۔ سب جلوس قاعدے سے کھڑا ہو گیا۔فوجدارخان (مہاوت) نے ہاتھی بٹھا دیا۔ کہاروں نے ہوادار(بادشاہ کی سواری) تلووں کے برابر لگا دیا۔ بادشاہ ہودے میں سوارہوئے۔ دیوان ِعاممیں سواری آئی۔ قلعے کے دروازے پر پلٹنوں نے سلامی اتاری۔ اکیس توپیں چلیں۔ عیدگاہ کے دروازے پرسواری پہنچی۔ جلوس دوطرفہ کھڑا ہو گیا۔ سلامی اتاری۔ توپیں سلامی کی چلنے لگیں۔

’دروازے پر سے بادشاہ ہوادار میں اور ولی عہد نالکی میں اور سب پیدل عیدگاہ کے اندر آئے، چبوترے پر سے اتر کر خیمے میں اپنے مصلّوں پر کھڑے ہو گئے۔ دو رکعت پڑھ کر سلام پھیرا۔ سب کھڑے ہو گئے۔ بادشاہ، ولی عہد، شہزادے اپنے مصلّوں پر بیٹھے رہے۔ امام جی کو خطبے کا حکم ہوا۔ قورخانے(اسلحہ خانے ) کے داروغہ نے امام جی کے گلے میں کلابتونی پرتَلہ اور تلوار ڈالی۔ امام جی نے منبر پر کھڑے ہو کر تلوار کے قبضے پر ہاتھ رکھ کرخطبہ پڑھا۔جب بادشاہ کا نام آیا تو توشہ خانے (جہاں بادشاہ کا لباس اور زیور رکھا جاتا ہے) کے داروغہ نے امام جی کو خلعت پہنایا۔ دعا مانگی۔ ‘

’اب دھوپ چڑھ گئی تھی۔ بادشاہ نگڈمبر (بادشاہ کے بیٹھنے کے لیے ہاتھی پر لگادو برجیوں والا ہود) میں سوار ہوئے۔ دیوان خاص میں آئے۔ تخت پر بیٹھ کر دربار کیا۔ نذریں لیں۔ پھولوں کے طرے اور ہار سب کو مرحمت ہوئے (دیے گئے) اور محل میں داخل ہوئے۔‘

آئیے پھر سے پہلے منظر میں چلتے ہیں۔ منظر نگار تو آپ کو یاد ہی ہے کہ منشی فیض ہیں۔

وہ بتاتے ہیں’ بادشاہ محل میں داخل ہوئے۔ جسولنی نے آواز دی۔ ’خبردارہو!‘ سب بیگمات سرو قد کھڑی ہو گئیں۔ مجرا (سلام ، کورنش) کیا۔ تخت پر سے تخت پوش خوجوں نے اٹھایا۔ کہاریوں نے ہوادارتخت کے برابر لگا دیا۔ بادشاہ تخت پر بیٹھے۔ خواجہ سرا مورچھل لے کر تخت کے برابر کھڑے ہو گئے۔ چاندی کے تخت پر بیٹھ کر محل کی نذریں لیں۔‘

’خاصے والیوں نے پہلے ایک سات گز لمبا، تین گز چکلا (چوڑا) چمڑا بچھایا، اوپر سفید دسترخوان بچھایا۔ب یچوں بیچ دو گز لمبی، ڈیڑھ گز چکلی، چھگرہ اونچی چوکی لگا، اس پر بھی پہلے چمڑا پھر دسترخوانبچھا، خاص خوراک کے خوان مہر لگے ہوئے چوکی پر لگا، خاصے کی داروغہ سامنے ہو بیٹھی۔۔۔ لو اب کھانا چُنا جاتا ہے۔‘

منشی فیض نے جتنی تفصیل خاصے کی لکھی ہے، یہاں بتایا تو بات بہت لمبی ہو جائے گی۔ اس لیے اس کتاب کے مرتب کامل قریشی کی زبانی مختصر طور پر سن لیں کہ یہ خاصہ کیا ہے۔ انھوں نے دیباچے میں لکھا:

’چھبیس طرح کی روٹیاں، چوبیس قسم کے پلاؤ، پھر سویاں، من و سلویٰ، فرنی کے علاوہ کئی قسم کی کھیریں، طرح طرح کے قورمے، رنگ برنگ کے کباب، بھرتے، حلوے، مربے، اچار، نقل، مٹھائی کے رنگترے، شریفے، امرود، جامنیں، انار وغیرہ۔ علاوہ ازیں کئی قسم کےحلوا سوہن، لوزاتیں اور لاتعداد قسم کی مٹھائیاں مختلف رکابیوں، پلیٹوں اور طشتریوں میںسجی۔‘

منشی فیض بادشاہ کے بارے میں آگے بتاتے ہیں کہ ’خاصہ کھایا، سکھ(آرام) کیا۔‘

Getty Imagesشہنشاہ جہانگیر نے 1605 سے 1627 تک حکومت کی۔ 1613 میں عید الفطر کے موقع پر دعوت میں مختلف قسم کے پکوان، بھنا ہوا میمنا، بھرے تیتر اور مٹھائیاں تھے

مغل سلطنت کے بانی ظہیرالدین بابر اور ان کے بیٹے ہمایوں بھی عید کا روزکم و بیش ایسے ہی گزارتے ہوں گے۔

شہزادی گل بدن بیگم کی یادداشتوں کے مطابق شہنشاہ عید کے موقع پر درباریوں اور نوکروں میں تحائف بھی تقسیم کرتے تھے۔

’عید کے دن شہنشاہ درباریوں اور نوکروں میں رقم، کپڑا اور مٹھائی تقسیم کرتے۔ وہ میری ماں اور مجھ سمیت حرم کی عورتوں کو بھی تحفے دیتے۔‘

’خواتین بالوں کی چوٹیاں بناتیں اور انھیں پھولوں یا زیورات سے سجاتی تھیں۔ وہ آرائشی زیور مانگ ٹِکا (ایک پیشانی کا زیور) یا پاسا (ایک طرف کا زیور) بھی پہنتیں۔‘

شہنشاہ اکبر نے 1556 سے 1605 تک حکمرانی کی۔ مؤرخ ابوالفضل کے مطابق اکبر عید کی نماز کے بعد غریبوں میں خیرات تقسیم کرتے۔ اس کے بعد محل میں عظیم الشان دعوت ہوتی۔ مغل شاہی خواتین نئے کپڑے سلواتیں، ہاتھوں پر مہندی لگواتیں اور خود کو زیورات سے آراستہ کرتیں۔

شہنشاہ جہانگیر نے 1605 سے 1627 تک حکومت کی۔ 1613 میں عید الفطر کے موقع پر دعوت میں مختلف قسم کے پکوان، بھنا ہوا میمنا، بھرے تیتر اور مٹھائیاں تھے۔ جہانگیر کے ذہانت اور مزاح کے لیے مشہور درباری مرزا غیاث بیگ نے انھیں ایک انوکھی ڈش پیش کی۔ اس کا نام ’خشک کوفتہ‘ تھا۔ یہ ڈش خشک آموں سے تیار کی گئی تھی اور اس کا مقصد شہنشاہ کی گوشت کے پکوانوں سے محبت پر ایک مذاق تھا تاہم جہانگیر ان کی تخلیقی صلاحیتوں سے بہت متاثر ہوئے اور ان کی ذہانت کی تعریف کی۔

فرانسیسی سیاح ٹیورنیئر نے جہانگیر کے دور میں مغل دربار کا دورہ کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ملکہ نورجہاں ’سفید ساٹن کا لباس پہنے ہوئے تھیں جس پر سونے اور موتیوں سے کڑھائی ہوئی تھی اوراس پر ہیرے جڑے ہوئے تھے۔‘

مؤرخ بداونی کے مطابق ’عید کے دن نور جہاں غریبوں اور ضرورت مندوں میں بڑی مقدار میں رقم، کپڑے، کھانا اور مٹھائیاں تقسیم کرتی تھیں۔‘

Getty Images

شاہ جہاں نے 1628 سے 1658 تک حکومت کی۔ عید الفطر کی شاندار تقریبات کے لیے مشہور تھے۔ مؤرخ محمد صالح کمبوہ کے مطابق محل میں دعوت کئی دن تک جاری رہتی۔

شاہ جہاں عید کے دن اپنے بہترین لباس زیب تن کرتے تھے۔ ملکہ ممتاز محل بھی عید جیسے خاص مواقع پر بہترین ریشم اور سونے کے دھاگے والے لباس پہنتی تھیں۔

مؤرخ عبدالحمید لاہوری بھی لکھتے ہیں کہ شاہ جہاں کے دور میں عید کی تقریبات کے لیے دلی کی سڑکوں کو پھولوں اور روشنیوں سے سجایا جاتا تھا۔ شہنشاہ قیدیوں کی رہائی کا حکم بھی دیتے اور رحم اور شفقت کے اظہار کے طور پر سزائے موت پانے والوں کو معاف کر دیتے۔

لاہوری کے مطابق سنہ 1646 میں شاہ جہاں نے عید کی نماز کے لیے ریشم اور سونے سے بنے ایک عظیم الشان شامیانے کی تعمیر کا حکم دیا۔ شامیانہ مکمل تو ہو گیا مگر شاہ جہاں اس کے ڈیزائن سے مطمئن نہیں ہوئے۔ انھوں نے اسے دوبارہ تعمیر کروایا۔

لاہوری نے لکھا کہ شاہجہاں عید کی تقریبات میں ہاتھیوں کی لڑائی اور دیگر تماشے دیکھ کر لطف اندوز ہوتے تھے۔ عید کے موقع پر کھیلا جانے والا ایک مقبول کھیل چوپڑ یا پچیسی تھا، جو جدید دور کے لڈو جیسا ہی بورڈ گیم ہے۔ یہ اکثر ہاتھی دانت، سونے یا چاندی سے بنے پیادوں کے ساتھ وسیع تختوں پر کھیلا جاتا تھا۔

شاہ جہاں کے بعد اورنگزیب عالمگیر عید کا جشن سادگی سے منانے کے اعلان تک پوری شاہانہ روایت کے ساتھ مناتے رہے۔

ابوبکر شیخ کی تحقیق ہے کہ ’ماثرعالمگیری‘ میں لکھا ہے کہ ’یہ مسرت انگیز دن آتا تو تیاری بڑے اہتمام سے کرتے، نغموں کی آوازوں سے زمین و آسمان گونج اٹھتے، عالمگیر ہاتھی پر عیدگاہ جاتے۔ عیدگاہ سے واپسی کے بعد دربار میں آتے تو عطر اور پان تقسیم کیے جاتے، شہزادے اور امرا نذرانے پیش کرتے، خود عالمگیر بھی ان کو خلعت اور مناصب دیتے۔ خلعت کے ساتھ قیمتی موتی اور روپے ہوتے اور یہ جشن کئی روز تک چلتا رہتا‘۔

عالمگیر کے بعد مغل خاندان کے 10 حاکم تخت پر بیٹھے۔ ’خاندان مغلیہ کے آخری تاجدار کے عہد میں، مغلیہ حکومت برائے نام رہ گئی تھی، اس کی شان و شوکت کو گرہن لگ گیا تھا لیکن پھر بھی اس کی بہت سی روایتیں باقی تھیں، دربار میں جشنِ عید روایتی طور پر منایا جاتا‘۔

دلی کے ایک اخبار (احسن الاخبار) میں بہادر شاہ ظفر کے جشن عید کا حال یوں لکھا ہے کہ ’بادشاہ ہفتے کے دن شوال کی پہلی تاریخ کو قلعے سے باہر تشریف لائے اور عید کی نماز پڑھنے عید گاہ تشریف لے گئے۔ نماز جماعت کے ساتھ ادا کی اور حسبِ معمول نیاز کی تقسیم کے بعد واپس قلعہ معلیٰ میں آئے۔ آتے جاتے وقت حسبِ ضابطہ شاہی انگریزی توپ خانوں سے سلامی کی توپیں چلائی گئیں۔ شام کے وقت تخت ہوادار پر سوار ہوکر باغ میں رونق افروز ہوئے۔ محفلرقص و سرود منعقد ہوئی۔ اس کے بعد محل میں جاکر آرام فرمایا۔ ‘

Getty Imagesدور عثمان میں سونے اور چاندی کی پلیٹوں میں عید کی خصوصی مٹھائیاں ریاستی اہلکاروں کو پیش کی جاتیںعثمانی دور میں عید

عثمانی حکمران عید سرکاری طور پر اور شاندار طریقے سے مناتے۔ اسے رمضان بیرامی (رمضان کا تیوہار) یا سیکر بیرامی ( میٹھی عید) کہا جاتا۔

احمد اونال کی تحقیق ہے کہ انتقریبات کو بیعت کی تجدید اور مبارکباد کے تبادلے کا ذریعہ جانا جاتا۔

’لوگوں کی شرکت زیادہ سے زیادہ یقینی بنائی جاتی۔ امرا صرف اس صورت میں تقریبات سے مستثنیٰہوتے کہ وہ شدید بیمار ہوں یا ریاستی امور نمٹا رہے ہوں۔ صوبوں کے حکامسلطان کو بذریعہ ڈاک اور بعد میں ٹیلی گراف عید کی مبارکباد بھیجتے تھے۔ قانونمیں درج تھا کہ سلطان کو عید کی مبارکباد کون اور کیسے بھیجے گا اور سلطان کیسے جواب دیں گے۔ بیعت اور مبارکباد کی تقریب خاصی طویل ہوتی۔‘

’چاند نظر آنے پر دو مختلف مقامات پر تین توپوں کی سلامی دی گئی۔ عید کے دن صبح کی نماز کے بعد استنبول کے مختلف مقامات سے اور محل کے دروازوں کے ساتھ ساتھ دیگر شہروں میں توپوں کی سلامی دی جاتی۔ عید کی رات محل کو مشعلوں سے روشن کیا جاتا۔‘

عثمانی سلطان محل کے مرکزی دروازے سے جلوس کے ساتھ نماز کے لیے مسجد کی طرف روانہ ہوتے۔ سلطان عموماً حاجیہ صوفیہ یا نیلی مسجد میں سے کسی ایک مسجد کا انتخاب کرتے۔ استنبول کے باسی جلوس کو دیکھنے کے لیے اپنی اپنی جگہیں لے لیتے۔ محافظ قطار میں کھڑے جلوس کی واپسی کا انتظار کرتے۔ سلطان کے مسجد سے نکلنے کے بعد وہ جلوس کے ساتھ محل میں واپس آجاتے۔

عثمانی مؤرخ مصطفیٰ علی سلطان سلیمان کے دور حکومت میں عید کی تقریبات کا بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’سلطان اپنے حکام اور رعایا سے مبارکباد وصول کرتے اور غریبوں میں تحائف اور خیرات تقسیم کرتے۔‘

یہ بھی پڑھیے

حوریم سلطان: یوکرین کی روکسیلانا جو سلطنت عثمانیہ کی حوریم سلطان بنیں

اکبر اعظم: ہندوستان پر 50 سال بادشاہت کرنے والے مغل بادشاہ جن کا انجام کچھ اچھا نہ ہوا

شاہ جہاں: تاج محل کے معمار جن کی سلطنت امیر ترین اور رعایا غریب ترین تھی

مؤرخ احمد بن مصطفٰی کے مطابق خواتین پیچیدہ نمونوں میں مہندی لگواتیں جسے مکمل ہونے میں کئی گھنٹے لگتے۔

ملکہ حوریم سلطان کو عمدہ لباس اور زیورات سے محبت تھی ۔ مؤرخ جان فریلی کے مطابق ’عید کے دن، حوریم سلطان بہترین لباس پہنتیں اور زمرد اور یاقوت جڑا سونے کا تاج پہنتیں۔‘

مؤرخ لیسلی پیرس کے مطابق عید کے دن، حوریم سلطان غریبوں میں کھانا اور کپڑے تقسیم کرتیں۔

محل پہنچ کر سلطان تخت پر بیٹھ جاتے اور حرم میں رہنے والے اور شہزادے انھیں مبارکباد دیتے۔ سونے اور چاندی کی پلیٹوں میں عید کی خصوصی مٹھائیاں ریاستی اہلکاروں کو پیش کی جاتیں۔

کھانے کے بعد، سلطان ساحلی محل چلےجاتے۔ برچھا پھینکنے، کشتی، رائفل شوٹنگ اور تیر اندازی میں مہارت رکھنے والے سلطان کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے۔

عثمانی حکمران بعض اوقات عیدوں پر بڑے تیوہاروں کا اہتمام کرتے۔ ان میں سلطان اور ریاستی اہلکاروں کے لیے شہر کے مخصوص حصوں میں پویلین اور مارکیز بنائے جاتے اور جالیوں والے پویلین بنائے جاتے تھے تاکہ محل کی خواتین دیکھ سکیں۔ جلوسہوتے، نانبائی تندوروں میں روٹی پکاتے، جادوگر قلابازیاںلگاتے، جلد ساز کتابیںتیار کرتے۔عوام کے لیے جھولے بھی ہوتے۔ سب کو جلوس کے بعد سلطان سے عیدی ملتی۔

استنبول میں غیر ملکی بھی اس میلے کو دیکھنے آتے۔ مثال کے طور پر سلیمان شوائگر کے مطابق، جو 1578 اور 1581 کے درمیان استنبول میں تھے، سڑکوں کے اطراف سہارے بنا کر ان پر جھولے لگائے جاتے، قالینوں سے ایک قسم کی چھتری بنائی جاتی اور اس کے ارد گرد پھل، رومال اور پتوں والی شاخیں لٹکائی جاتیں۔ لوگ ہوا میں اڑتے ہوئے خوشی سے جھومتے۔ پانچ جھولوں کے لیے ایک اکچا (سکہ) لیے جاتے۔ کچھ بااثر لوگ اپنے گھروں میں ایسی ہی تفریح فراہم کرتے اور سلطان بھی اس طرح کی تفریح سے لطف اندوز ہوتے۔ موسیقی بجتی رہتی۔ ہر کوئی، جوان اور بوڑھا، نئے کپڑے، یا کم از کم جوتوں کا ایک نیا جوڑا پہنتا۔

Getty Imagesآخری عثمانی خلیفہ عبدالحمید دوم کے دور حکومت میں تھیٹر پرفارمنس بھی عید کے تیوہار کا حصہ بنی

وینیشین نمائندے، اوٹاویو بون، احمد اول کے دورِ حکومت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ عید الفطر کی صبح سویرے محل میں معیدِ عموم (عام لوگوں کی بیعت) ہوتی۔ وہ حاجیہ صوفیہ مسجد تک جانے والے جلوس، دیوان اور ضیافت، سلطان اور لوگوں کے درمیان تحائف کے تبادلے اور خاص طور پر تفریح کی مختلف اقسام کی تفصیلات بھی بیان کرتے ہیں۔

عید کے تین دن، بحریہ ساحل پر تقریبات کا انعقاد کرتی۔ سلطان شہر میں چوبیس گھنٹے تفریح اور کھیلوں کی اجازت دے دیتے۔ تمام گھروں میں جشن منایا جاتا۔ گلیاں سجائی جاتیں۔ جوان اور بوڑھے دونوں کے لیے جھولے لگائے جاتے۔ اچھا وقت گزارنے کے لیے دو یا تینآکچے (سکے)کافی ہوتے۔

سلطان حرم کی عورتوں سے ملتے اور ان کے ساتھ وقت گزارتے۔ دوسرے اوقات کے مقابلے میں زیادہ آرام دہ اور پرسکون ہوتے۔

سلطنت عثمانیہ میں، سلطان اور ان کے حرم میں بکلاوا کا استعمال ہوتا۔ خواتین کے لیے دار چینی، مردوں کے لیے الائچی اور دونوں کے لیے لونگ کےذائقے ساتھ۔

والدین اپنے بچوں کے لیے نئے کپڑے خریدتے جو وہسڑکوں پر چلتے ہوئے فخر سے دکھاتے۔ خواتین اپنے بہترین زیورات اور انتہائی شاندار لباس پہنتی تھیں۔ امیر اور طاقتور اپنے نوکروں، محتاجوں اور غریبوں میں تحائف تقسیم کرتے ہیں۔ مبارکباد کے دوران میں، نوجوان خاندان کے بوڑھے افراد کے دائیں ہاتھ چومتے جو انھیں مٹھائیاں دیتے۔ ایک اہم حصہ دوستی کی بحالی ہوتا۔ نماز ظہر اور ملاقاتوں کے بعد، کچھ لوگ قبرستانوں کے لیے روانہ ہوتے۔

آخری عثمانی خلیفہ عبدالحمید دوم کے دور حکومت میں تھیٹر پرفارمنس بھی عید کے تیوہار کا حصہ بنی۔ سفیروں، نمائندوں اور عہدیداروں کی بیویوں کو بھی محل لایا جاتا اور وہ ضیافت کے بعد حرم کی خواتین کے ساتھ تھیٹر پرفارمنس دیکھتی تھیں۔

سنہ 1924 میں عثمانی سلطنت کے خاتمے پر انھیں ترکی سے معزول کر کےنکال دیا گیا۔ مختلف جگہوں سے ہوتے ہوئے پیرس پہنچے۔

جلاوطنی میں پہلی عید الفطر کے اپنے تجربے کو بیان کرتے ہوئے عبدالحمید دوم اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ ’مجھے جلاوطنی کے بعد پہلی عید الفطر یاد ہے۔ یہ میرے اور میرے خاندان کے لیے ایک مشکل دن تھا کیونکہ ہم اپنے وطن اور اپنے لوگوں سے بہت دور تھے۔ ہم نے عید کی نماز پیرس کی ایک چھوٹی سی مسجد میں عثمانیخلافت کے چند وفادار لوگوں کے ساتھ ادا کی جو ہمارے ساتھ اس موقع کی خوشی بانٹنے آئے تھے۔ ہم نے سادہ سا کھانا بھی اکٹھے کھایا۔ اس سے ہمیں اپنے مشکل حالات میں کچھ سکون ملا۔

عبدالحمید تو لگ بھگ دو دہائیاں اور جیے مگرآخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر معزول ہوئے تو رنگون، برما جہاں انھیں اہلیہ اور خاندان کے کچھ باقی افرادکے ساتھبیل گاڑیوں میں جلاوطن کیا گیا تھا بمشکل تین ہی عیدیں دیکھ پائے ہوں گے کہ وفات پائی۔ خاصہ تو خیر تھا ہی ناممکن، فالج سےحالت یہ تھی کہ چمچے سے شوربا نگلنا بھی مشکل تھا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More