پیاری تاس،
ابھی تمھاری عمر فقط 10 دن ہے لیکن جب تم اسے پڑھ رہی ہوں گی تو شاید تم بہت بڑی ہو چکی ہو گی۔۔۔
میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں۔۔۔
اپنی والدہ لوسی کی ڈائری پہلی بار پڑھتے ہوئے تسنیم کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر چکی تھیں۔ تسنیم کو اس ڈائری کی موجودگی کا علم نہیں تھا، یہ اس آگ میں بچ گئی تھی جس نے اس کی والدہ لوسی کی جان لے لی تھی۔ تسنیم اس وقت ایک چھوٹی سی بچی تھیں۔
تسنیم کے گال پر جلنے کا ہلکا سا نشان اس بھیانک رات کی واحد نشانی ہے۔ جیسے ہی شعلوں نے گھر کو اپنی لپیٹ میں لیا، تسنیم کے والد اسے کمبل میں لپیٹے بچا کر باہر لے گئے اور ایک سیب کے درخت کے نیچے رکھ دیا۔
انھوں نے تسنیم کی جان تو بچائی مگر اس کے والد وہی شخص تھے جنھوں نے گھر پرپیٹرول چھڑک کر آگ لگائی تھی، جس میں تسنیم کی خالہ اور دادی بھی ماری گئی تھیں۔۔
تسنیم ہمیشہ جانتی تھیں کہ اس کے والد ایک سزا یافتہ قاتل ہیں جو عمر قید کی سزا بھگت رہے ہیں۔
لیکن یہ ڈائری 18 سال تک پولیس کے سٹور میں پڑی رہی اور تب منظرِعام پر آئی جب تسنیم نے اپنی ماں کے کیس میں شواہد کی فائلیں دیکھنے کو کہا۔ اس ڈائری میں ایک اور بھیانک انکشاف بھی تھا۔
جیسے جیسے تسنیم نے پڑھنا شروع کیا اس پر یہ انکشاف ہوا کہ اس کے والد نے اس کی والدہ کا ریپ کیا تھا اور تسنیم کی پیدائش اس ریپ کا نتیجہ تھی۔
BBCنوزائیدہ تسنیم اپنی والدہ لوسی کے ہمراہ۔ تسنیم صرف 18 برس کی تھیں جب ان کی والدہ کی وفات ہوئی
اس ڈائری کے صفحات میں تسنیم کی والدہ لوسی کی امیدوں اور مستقبل کے خوابوں سے لے کر اس درد کی تفصیل سے بھی درج ہے جو وہ مرنے سے قبل چُپ چاپ سہتی رہیں۔ تسنیم کے والد کا نام اظہر علی محمود تھا جو کہ ایک ٹیکسی ڈرائیو تھے۔ اظہر عمر میں لوسی سے 10 سال بڑے تھے اور انھوں نے 12 سال کی عمر سے لوسی کی گرومنگ اور ان کا جنسی استحصال شروع کر دیا تھا۔
اپنے والدین کی اس سچائی نے تسنیم کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ اسے ایسا محسوس ہوا وہ دنیا میں واحد لڑکی ہے جو اس تکلیف سے گزر رہی ہے۔ لیکن تحقیق بتاتی ہے کہ وہ اکیلی نہیں۔
برطانیہ میں ریپ اور جنسی استحصال کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد کا درست اندازہ لگانا مشکل ہے، لیکن ڈرہم یونیورسٹی اور سینٹر فار ویمن جسٹس کے اندازوں کے مطابق صرف 2021 میں انگلینڈ اور ویلز میں ریپ کے نتیجے میں حاملہ خواتین کی تعداد 3300 ہو سکتی ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ برطانیہ اور ویلز میں ریپ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو جلد ہی جرائم کے متاثرین کے طور پر تسلیم کیا جائے گا۔وزرا کے مطابق، یہ بل انھیں اضافی مدد کا حقدار بنائے گا اس کے علاوہ انھیں تھیراپی اور مشاورت کے ساتھ ساتھ ان کے کیس کے بارے میں معلومات تک رسائی بھی ہو گی۔ انھیں ہاؤسنگ جیسے دیگر کئی فوائد بھی حاصل ہوں گے۔
لیکن برطانیہ میں ریپ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کے لیے کوئی خیراتی ادارے موجود نہیں ہیں، تسنیم جیسے کئی لوگوں کو کسی ماہر کی مدد کے بغیر پیچیدہ جذبات سے نمٹنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے۔
تسنیم کہتی ہیں کہ ’آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے والدین کے درمیان محبت ہے اور وہ خوشی سے شادی شدہ زندگی گزار رہے ہیں۔‘
’اپنے آپ سے لے کر خاندان تک۔۔۔ ہر چیز کے بارے میں جو کچھ سمجھتے آ رہے تھے وہ جھوٹ نکلتا ہے۔۔۔ کیونکہ میرا تعلق ایک قاتل اور ایک ریپسٹ سے ہے اور مجھے ایسے خوفناک خیالات آتے تھے کہ اگر میں بھی بڑی ہو کر ان جیسی نکلی تو کیا ہو گا؟‘
ڈائری میں درج کچھ تفصیلات تو تسنیم کے لیے بہت تکلیف دہ ہیں۔ مگر اب وہ اس محبت پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کرتی ہے جو لوسی کی ڈائری میں اپنی بیٹی کے لیے بہت واضح نظر آتی ہے۔ ڈائری کے صفحات لوسی کی زندگی کی نظموں اور کہانیوں سے بھرے پڑے ہیں۔
تسنیم کہتی ہیں ’مجھے اپنے بارے میں بُرا نہیں سوچنا چاہیے، کیونکہ وہ (والدہ) ایسا نہیں چاہتی ہوں گی۔‘
BBCنیل جب پہلی مرتبہ اپنی والدہ سے ملے تو انھوں نے سوال کیا کہ کیا میں اس شخص جیسا تو نہیں نظر آتا جس نے ان کا ریپ کیا تھا
ویسٹ یارکشائر کے علاقے ایلکلے میں پرورش پانے والے نیل کا بچپن خوشگوار گزرا، لیکن وہ ہمیشہ اس خاتون کے بارے میں متجسس رہتے تھے جنھوں نے انھیں جنم دیا تھا۔ انھوں نے ایک پریوں کی شہزادی کی تصویر کشی کی اور خواب دیکھا کہ وہ ایک دن دوبارہ مل جائیں گے۔
اب 27 سال کی عمر میں نیل کو اس پرائیویٹ جاسوس کا خط ملا جس کی خدمات انھوں نے اپنی ماں کو ڈھونڈنے کے لیے حاصل کی تھیں۔ لیکن جیسے جیسے وہ اسے پڑھتے ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی کھائی ہے جس میں وہ گرتے جا رہے ہیں۔
نیل کی ماں کو جب وہ نوعمر تھیں، پارک میں ایک اجنبی نے ریپ کیا تھا جس کے نتیجے میں نیل پیدا ہوئے۔
نیل کہتے ہیں کہ ’کوئی بھی چیز آپ کو اس صورتحال کے لیے تیار نہیں کر سکتی۔‘
یہ پتا چلنا کہ آپ ایک پُرتشدد، نفرت انگیز جرم کے نتیجے میں دنیا میں آئے ہیں ’تقریباً ایسا ہی ہے جیسے کسی نے آپ کے سینے میں گھونسا مار کر آپ کے دل کے ٹکڑے کر دیے ہوں۔‘
نیل نے مزید کہا ’آپ کو شرم محسوس ہوتی ہے، آپ کو دکھ ہوتا ہے، آپ کو الجھن محسوس ہوتی ہے۔ آپ کو خود کے بارے میں سب سے تاریک ترین، خوفناک احساسات ہو سکتے ہیں۔ اور میں بھی ٹوٹ گیا۔‘
نیل نے اپنے بارے میں جو کچھ سوچ رکھا تھا، وہ خواب چکنا چور ہو گیا۔
وہ ڈر کے مارے آئینے میں نہیں دیکھتے کہ کہیں اس نامعلوم حملہ آور کی شکل ان کی شبہیہ میں نظر نہ آ جائے۔
پیار کے بجائے ریپ اور تشدد سے پیدا ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اور کیا نیل کی پیدائشی ماں کبھی ان سے ملنے کو تیار ہوں گں؟
جیسے ہی جیل کا بھاری دروازہ بند ہوتا ہے تسنیم کو اپنا دل تیزی سے دھڑکتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ جیل کی دوسری طرف کا بھاری دروازہ کھلتا ہے اور ایک گارڈ انھیں ایک چھوٹے سے ٹھنڈے کمرے میں لے جاتا ہے۔ یہاں ایک میز اور دو کرسیاں لگی ہیں۔
کمرے کے دوسری طرف کا ایک دروازہ کھلتا ہے اور تسنیم پہلی بار اپنے والد کو دیکھتی ہیں۔ سرمئی جیل کے ٹریک سوٹ میں ملبوس، وہ قد میں تسنیم کے تصور سے چھوٹے نظر آتے ہیں۔
لیکن وہ بہت اچھے سے پیش آتے ہیں۔ وہ اسے گلے لگاتے ہیں۔ انھوں نے اس لمحے کا جشن منانے کے لیے ایک چاکلیٹ کیک خریدا ہے۔
تسنیم ایسا نہیں چاہتی تھیں، وہ چاہتی تھیں کہ وہ (والد) اپنے کیے کے اثرات کو سمجھیں۔
لیکن اب وہ ایک ایسے شخص کو دیکھتی ہے جس نے اس کی ماں کا فائدہ اٹھایا اور اس کی زندگی کو کنٹرول کیا۔
تسنیم جیل سے واپس آ جاتی ہے اور کبھی واپس نہیں جاتیں۔ انھیں وہ سب جوابات مل گئے ہیں جن کی انھیں ضرورت تھی۔
پہلی بار اپنی پیدائشی ماں سے ملنے کے لیے ٹرین سٹیشن کے باہر انتظار کرتے ہوئے نیل کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ انھوں نے اس لمحے کے بارے میں کئی بار سوچا تھا کہ کیا کرنا ہے اور کیا کہنا ہے۔
جیسے ہی وہ سامنے آتی ہیں، نیل انھیں پہچان لیتے ہیں۔
دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے ہیں۔ نیل بہت بے چینی محسوس کرتے ہیں۔
نیل انھیں کہتے ہیں کہ ’اگر میں اس آدمی کی طرح دکھتا ہوں جس نے آپ کے ساتھ ایسا کیا تھا تو میں ابھی یہاں سے چلا جاؤں گا۔‘
اس کی والدہ کہتی ہیں ’نہیں تم ویسے نہیں دکھتے۔ ‘ اور نیل کو لگتا ہے جیسے ان کے کندھوں سے کوئی بہت بڑا بوجھ اُتر گیا ہے۔
ماں اور بیٹا چلتے پھرتے اپنی زندگی کی کہانیاں شییئر کرتے ہیں۔ وہ خاندان کے بارے میں بتاتی ہیں۔۔۔ نیل کو پتا نہیں تھا کہ ان کے سوتیلے بہن بھائی بھی ہیں۔ ان دونوں کے تاثرات اور ہنسی ایک جیسی ہے۔
نیل نے اس رات کے بارے میں بات نہیں کی جس رات ان کی والدہ کا ریپ ہوا تھا۔ وہ اپنی ماں کو اس اذیت سے نہیں گزارنا چاہتے تھے۔ وہ سمجھتے ہیں ان کا کوئی پیدائشی باپ نہیں ہے۔
نیل کی پیدائشی ماں ہیں اور ان کے لیے بس یہی کافی ہے۔
BBCنومولود سیمی اپنی والدہ کے ہمراہ
’ماں کیا میں ریپ بے بی ہوں؟
سیمی مڑ کر اپنے سب سے بڑے بیٹے کو دیکھتی ہیں جو کار میں ان کے ساتھ بیٹھا ہے۔ وہ اسے آگاہی کی اذیت سے بچانا چاہتی ہیں مگر نہیں جانتیں کہ کیسے۔
وہ جواب دیتی ہیں ’نہیں تم میرے بیٹے ہو۔‘
سال ہے 2013 اور سیمی نے حال ہی میں اپنے 12 سالہ بیٹے کو اس بارے میں حقیقت بتائی ہے کہ کیا ہوا تھا اور وہ کیسے حاملہ ہوئیں۔۔۔ ارشد حسین، وہ شخص جسے وہ والد کہتا تھا، نے 14 سال کی عمر سے سیمی کا جنسی استحصال شروع کیا۔
ارشد نے سیمی کو یقین دلایا کہ وہ دنوں رشتے میں بندھے ہیں۔
ارشد حسین جو اس وقت 24 سال کے تھے، انھوں نے بہت سی دوسری لڑکیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا تھا۔
لیکن سیمی بلآخر ان کے شکنجے سے نکل آئی ہیں۔ انھوں نے مدد کی ناکامی کے بارے میں بات کرنا شروع کی ہے کہ کیسے رودرہم، ساؤتھ یارکشائر میں ان جیسے سینکڑوں بچوں کو جنسی استحصال سے نہیں بچایا جا سکا۔
پولیس حسین سے تفتیش کر رہی ہے اور سیمی کے بیٹے کا ڈی این اے ان کے خلاف شواہد کا حصہ ہے۔
لیکن سیمی دیکھ سکتی ہیں کہ ان کا بیٹا کتنی مشکل میں ہے۔ وہ ہر چیز کے بارے میں سوال کر رہا ہے - کیا اس کے والدین اسے پیدا کرنا چاہتے تھے، کیا اسے پیار کرتے تھے؟
یہ معاملہ قومی خبروں میں بہت زیادہ چل رہا ہے۔ سب کچھ اتنا پبلک ہے کہ وہ خود کو بہت اکیلا محسوس کرتے ہیں۔
سیمی نے اچھی ماں بننے کی پوری کوشش کی ہیں مگر وہ سمجھتی ہیں کہ یہ سب ان کی غلطی کا نتیجہ ہے۔
وہ کچن کے فرش پر گر کر رو رہی ہیں۔ وہ اپنے بیٹے سے بہت پیار کرتی ہیں، لیکن انھیں لگتا ہے کہ وہ ان کے بغیر بہتر زنگی گزارےگا۔
تسنیم اور نیل کی طرح، سیمی برسوں تک تنہا جدوجہد کرتی رہی ہیں، کسی کو ان کے جذبات کا علم نہیں۔
سنہ 2021 میں وہ ایک اور ماں مینڈی سے ملتی ہیں اور آخر کار کھل کر بات کرنے کے قابل ہوتی ہیں کیونکہ وہ صحیح معنوں میں انھیں سمجھ سکتی ہیں۔
حسین جیل میں 35 سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
سیمی ہیلی فیکس میں مینڈی کے کچن میں کرسی پر بیٹھی ہے، مینڈی کا کتا ٹافی اس کی کرسی کے نیچے جھکا ہوا ہے۔ مینڈی سیمی کو اپنی کہانی سناتی ہے۔ 30 سال گزرنے کے بعد بھی یہ تکلیف دہ ہے۔
BBCسیمی کی حالیہ تصویر
مینڈی کے ساتھ پہلی بار جنسی استحصال تب ہوا جب وہ 11 سال کی تھیں۔ ان کے والد، جو کمیونٹی میں ایک پولیس سپیشل کانسٹیبل اور سالویشن آرمی کے رکن کے طور پر قابل احترام ہیں، اپنے کپڑے اتار کر اس کے ساتھ نہانے آ گئے تھے۔
اس کے بعد ایسا ہر دوسری رات ہوتا رہا۔ وہ اس کے بیڈ روم میں آ جاتے۔ مینڈی نے کسی کو بتانے کی ہمت نہیں کی۔ وہ خوفناک تھے اور مینڈی نے خود کو ان کے چنگل میں پھنسا ہوا محسوس ہوا۔
پھر ایک دن اسے احساس ہوا کہ وہ حاملہ ہے۔
وہ سیمی کو بتاتی ہیں ’یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے کسی نے آپ کے جسم میں زہر ڈال دیا ہو۔ میرے والد نے میرے ساتھ ایسا ہی کیا، انھوں نے ہمارے جینز کو مجھ میں ڈالا۔‘
وہ سیمی کو بتاتی ہیں کہ وہ نہیں جانتی تھیں کہ اب کیا کرے۔
لیکن جب اس کے والد کو پتہ چلا، مینڈی کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا۔ اسے یہ بچہ پیدا کرنا ہو گا جو انھیں ڈیڈی بلائے گا۔
جب انھوں نے بچے کو جنم دیا تو اس کے والد ڈیلیوری روم میں موجود تھے۔ دائیوں نے مینڈی کے نوزائیدہ بیٹے کو ان کے حوالے کیا۔
مینڈی کہتی ہیں اس چیز نے مجھے تباہ کر دیا۔ انھوں نے میرے پہلے بچے کو پکڑا ہوا تھا اور میں سوچ رہی تھی کہ اس سے ہاتھ ہٹاؤ، دور رہو اس سے۔‘
‘وہ میرا بچہ تھا، وہ میرے لیے قیمتی تھا۔ میں ہمیشہ اس کی حفاظت کرنے والی تھی۔’
لہذا جب مینڈی نے موقع دیکھا، تو اس نے پرام میں چند نیپیاں اور بچے کا دودھ ڈالا اور باہر نکل گئیں اور پھر کبھی واپس گھر نہیں گئیں۔
یہ بھی پڑھیے
سیالکوٹ میں بیٹی کا باپ پر ریپ کا الزام
تیسری جماعت کی طالبہ جنھوں نے ریپ کے بعد ’اپنے ہی بھائی‘ کی بیٹی کو جنم دیا
’ہم اب بھی اس تلاش میں رہتے ہیں کہ کیسے متاثرہ خاتون کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے‘
سیمی نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ سمجھتی ہے کہ ریپ کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بچے محبت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کے مقابلے میں مختلف ہیں۔
مینڈی کہتی ہے ’ہاں یہ محبت کا نتیجہ نہیں تھا۔ اسے ایک عفریت نے جنم دیا تھا۔‘
’لیکن خدا کی قسم میں اس سے پیار کرتی ہوں۔‘
مینڈی کے بیٹے کو باقاعدہ طور پر ان کے شوہر پیٹ نے اپنا لیا تھا۔ اب وہ ان کے دوسرے بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی رہتے ہیں۔
اگرچہ مینڈی اپنے والد کی مزید بدسلوکی سے بچ کر نکل گئیں لیکن وہ اس کے نتائج سے نہیں بچ سکیں۔ ان کا بیٹا جینیاتی معذوری کے ساتھ پیدا ہوا تھا۔
تیس سال بعد وہ اب بھی دن کے 24 گھنٹے اس کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ اسے بس اپنے پلے سٹیشن اور ریسلنگ سے لگاؤ ہے۔ اس میں یہ سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ ریپ کے نتیجے سے پیدا ہوا ہے اور مینڈی شکر گزار ہے کہ اسے وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن ان کی پوری زندگی متاثر ہوئی ہے۔
مینڈی نے سیمی کو بتایا کہ میں ہمیشہ کہتی ہوں کہ میں زندہ بچ گئی ہوں لیکن میرا بیٹا ان کے ظلم کا شکار ہو گیا۔ وہ ایسا پیدا نہیں ہونا چاہتا تھا لیکن جو جرم میرے ساتھ ہوا وہ بھی اس کا شکار بنا۔ ‘
جب تک وہ اور سیمی ایک دوسرے سے نہیں ملیں دونوں خود کو اکیلا سمجھتی تھیں۔
سیمی کا کہنا ہے کہ مینڈی نے مجھے سکھایا ہے کہ آپ چاہے جیسے حالات سے گزرے ہوں، آپ آگے بڑھ سکتے ہیں اور خوش رہ سکتے ہیں۔ لوگوں کو اس بارے میں بات کرنے کی ضرورت ہے۔‘
اس بارے میں مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ وہ اس کے متعلق آگاہی پھیلا رہے ہیں۔
BBCمینڈی
اس حوالے سے سامنے آنے والے متاثرین کے بل کو ’ّڈیزی کا قانون‘ کہا گیا ہے، یہ ایسے متاثرہ شخص کے نام پر ہے جو 1970 کی دہائی میں ریپ کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا۔ مہم چلانے والوں کا کہنا ہے اس بل میں حکومت کی تجویز کردہ اصلاحات طویل عرصے سے التوا کا شکار ہیں۔
نیل اور تسنیم کے لیے اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آخر کار ان جیسی آوازیں سنی جا رہی ہیں۔
اور وہ امید کرتے ہیں کہ آواز اٹھانے سے ریپ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دوسرے لوگوں کو بھی بتایا جا سکے گا کہ وہ اکیلے نہیں ہیں۔
تسنیم کہتی ہیں ’اس میں بہت بدنامی ہے، لیکن مجھے بُرا نہیں ماننا چاہیے۔ اس میں آپ کا قصور نہیں کہ آپ کا رشتہ کس سے ہے، میں اپنے لیے کافی ہوں۔ اور یہ میری غلطی نہیں ہے۔ میں صرف اس کا شکار ہوئی ہوں۔
کھل کر بات کرنا ان کی والدہ کی یاد کو زندہ رکھنے کا بھی ایک طریقہ ہے۔
تسنیم کہتی ہیں ’اگر میں اپنی ماں سے بات کر سکتی ہوتی تو میں چاہتی ہوں کہ انھیں بتا سکوں کہ وہکتنی بہادر تھیں۔
اور انھیں تسلی دینے کے لیے کہتی کہ سب ٹھیک ہے۔ میں ٹھیک ہوں۔‘