سوال: آپ چاہتے تھے وزیر اعلیٰ بننا؟
جواب: چیف منسٹر کی پوسٹ تو ایسی ہے، اگر بندہ کچھ بدل سکتا ہے تو سی ایم آفس میں ہو۔
سوال: فواد چوہدری، حماد اظہر، شاہ محمود قریشی کو ایم پی اے کا ٹکٹ نہیں ملا؟
جواب: نہیں ملا۔
سوال: خیر ہے؟
جواب: اچھا تو نہیں لگا، ملنا تو چاہیے تھا لیکن خان صاحب کہتے ہیں نہیں ملا تو نہیں ملا، اب کیا کہہ سکتے ہیں۔
سوال: شہباز گل کو بھی ٹکٹ نہیں ملا؟
جواب: نہیں ملا۔
سوال: بزدار صاحب دوبارہ سی ایم بن سکتے ہیں؟
جواب: میرے خیال میں تو بن سکتے ہیں۔
سوال: کیا عمران خان انتخابی مہم کا آغاز کسی جلسے میں اس بات سے کر سکتے ہیں کہ پنجاب میں وزیراعلیٰ کا امیدوار عثمان بزدار ہے؟
جواب: میں تو یہ ایڈوائز نہیں کروں گا۔
یہ دلچسپ گفتگو تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری اور نجی ٹی وی چینل ’اے آر وائی‘ کے اینکر کاشف عباسی کے درمیان ہوئی۔ موضوع گفتگو تھا تحریک انصاف کی جانب سے پنجاب میں صوبائی اسمبلیوں کے لیے جاری ہونے والے ٹکٹ اور اس کے اثرات و مضمرات۔
فواد چوہدری اس معاملے پر پارٹی کے موقف کا نہیں بلکہ اپنے ذاتی خیالات کا اظہار کر رہے تھے، لیکن یہ مختصر سی گفتگو ان آرا کو بھی ظاہر کرتی ہے جو پارٹی کے بہت سے رہنماؤں اور ٹکٹ سے محروم رہ جانے والے کارکن کے ذہنوں میں ہے۔ واضح رہے کہ فواد چوہدری نے 2018 کے انتخابات میں بھی پنجاب کی وزارت اعلیٰ حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
اگرچہ اس وقت پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ پر ایک سوالیہ نشان موجود ہے اور ن لیگ نے اپنے امیدواروں کو ٹکٹ تک نہیں دیے، تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے پنجاب میں بروقت ٹکٹ دیے جانے کے عمل نے ایک دلچسپ بحث کو جنم دیا ہے۔
جیسا کہ گفتگو کے متن سے واضح ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے اس عمل نے، جس کے دوران چیئرمین عمران خان نے ذاتی طور پر امیدواروں کے انٹرویو لیے، کئی لوگوں کے خواب چکنا چور کیے۔ تاہم دوسری جانب کئی ایسے امیدوار بھی سامنے آئے جن کے لیے یہ الیکشن پارلیمانی سیاست کا دروازہ کھول سکتا ہے۔
شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری جیسے کچھ بڑے نام خواہش کے باوجود اس فہرست سے حیران کن طور پر غائب ہیں تو وہیں تحریک انصاف میں شامل ہونے والے سابق سپیکر اور وزیر اعلی پنجاب پرویز الہی اور ان کے بیٹے مونس الہی شامل ہیں، شہباز گل جیسے متحرک لوگوں کا نام دکھائی نہیں دیتا تو وہیں ایسے نوجوان پی ٹی آئی کارکنوں کو بھی ٹکٹ دیے گئے جن کے ناموں سے عوام کچھ خاص شناسا نہیں۔
ایسے میں جہاں عمران خان کی پنجاب اسمبلی کے الیکشن میں فتح کی صورت میں پنجاب کے ممکنہ وزیر اعلی کے نام پر چہ مگویاں ہو رہی ہیں، وہیں یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ کیا پی ٹی آئی نے اس بار الیکٹیبلز کو ٹھکرایا یا نہیں؟ ساتھ ہی ساتھ ایک طبقہ اس حوالے سے بھی بات کر رہا ہے کہ پی ٹی آئی نے عمران خان کے دعوؤں کے تحت کتنے نئے چہروں کو سامنے آنے کا موقع فراہم کیا۔
اگر پنجاب میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کی فہرست کو دیکھا جائے تو ایک ملا جلا رجحان سامنے آتا ہے جس میں پرانے چہروں سمیت پارٹی سے وابستہ متحرک نوجوانوں اور سیاسی خاندانوں سے وابستہ افراد سمیت مہر ستار جیسے کچھ ’غیرمتوقع‘ نئے چہرے بھی نظر آتے ہیں جسے بقول ایک سیاسی مبصر عمران خان کے نئے سیاسی بیانیے کو پارلیمانی طرز سیاست میں بدلنے کی کوشش بھی کہا جا سکتا ہے۔
ٹکٹوں کی تقسیم پر تنقید
ٹکٹوں کی تقسیم تقریباً تمام ہی جماعتوں میں تنقید کا باعث بنتی ہے اور یہی کچھ پی ٹی آئی کے ساتھ ہوا۔
فواد چوہدری نے ٹی وی پر شکوہ کیا تو شہباز گل نے بھی ٹؤٹر کا سہارا لیتے ہوئے کہا کہ ’فواد چوہدری صاحب، حماد اظہر صاحب کچھ اور سینیئر ممبران اور میں نے صوبائی اسمبلی کے لیے کاغذات جمع کروائے لیکن چیئرمین عمران خان صاحب نے ہم سب کوٹکٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا۔‘
شہباز گل نے لکھا کہ ’خان صاحب کا فیصلہ دل و جان سے قبول ہے۔ نہ ٹکٹ کے لیے خان کے ساتھ ہوں اور نہ عہدے کے لیے، یہ نظریے کا ساتھ ہے۔‘
https://twitter.com/SHABAZGIL/status/1649264471842643968
ایسے بیانات کے بعد تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم کے رکن اظہر مشوانی نے کہا کہ ’پاکستان تحریک انصاف کے کئی سابقہ وفاقی وزرا اور ممبران قومی اسمبلی صوبائی اور قومی اسمبلی کے الیکشن الگ الگ ہونے کی وجہ سے پنجاب اسمبلی کی نشستوں پر بھی الیکشن لڑنے کےخواہاں تھے۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’الیکشن پینلز کو سامنے رکھتےہوئے چئیرمین PTI نے پارلیمانی بورڈ کے لیے پالیسی وضع کی کہ وفاقی ٹیم وفاق میں ہی رہے گی۔‘
https://twitter.com/MashwaniAzhar/status/1649174088579969024
یہ حکمت عملی اپنی جگہ، لیکن پی ٹی آئی کے کارکنوں نے بھی سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہوئے گلہ کیا کہ ٹکٹوں کی تقسیم میں تمام فیصلے درست نہیں ہوئے۔
ایک صارف رانا تنویر اختر نے لکھا کہ پی ٹی آئی نے وفاقی وزرا کے خاندانوں کو ٹکٹ دیے اور جنوبی پنجاب میں انٹرویو کیے بنا ٹکٹ دیے جس پر اظہر مشوانی نے جواب دیا کہ ٹکٹوں میں پانچ فیصد کوٹہ خواتین کا بھی رکھا گیا۔
صحافی ماجد نظامی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ٹکٹوں کی تقسیم میں مسائل ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’خان صاحب نے اعلان کیا تھا کہ وہ 297 حلقوں کے انٹرویو خود کریں گے، لیکن ہوا یہ کہ تقریبا ایک سو سے ڈیڑھ سو انٹرویو انھوں نے کیے۔ اس کے بعد انھوں نے کہا کہ وقت کم ہے تو انھوں نے تجاویز پر عمل کیا۔‘
’ان کا دعوی کہ ہر انٹرویو میں خود لوں گا، غلط ثابت ہوا۔‘
صحافی احمد اعجاز کا کہنا ہے کہ ’سیاسی صورتحال کے تناظر میں تحریک انصاف میں بھی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پنجاب اسمبلی کا الیکشن نہیں ہو گا اور شاید ٹکٹوں کی تقسیم میں بعد میں ردوبدل ہو۔‘
صحافی احمد اعجاز کا کہنا ہے کہ ’پی ٹی آئی نے ہر جگہ اس بات کا خیال نہیں کیا کہ کون ایم این اے کا ٹکٹ لینا چاہتا ہے۔ کئی لوگ جو ایم این کا ٹکٹ لینا چاہتے ہیں، انھوں نے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ لیا ہے۔‘
انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’اوکاڑہ سے گلزار حسنین نے ایم این اے کا الیکشن لڑنا تھا لیکن اب صوبائی اسمبلی سے الیکشن کا ٹکٹ حاصل کیا ہے۔ اسی طرح ننکانہ صاحب سے سابق ن لیگی ایم پی اے طارق محمود باجوہ، جو طاہر برجیس کے خلاف ایم این اے کے امیدوار تھے، کو صوبائی الیکشن کا ٹکٹ ملا ہے۔‘
صجافی احمد اعجاز نے ایک ایسی مثال بھی دی جس میں ٹکٹ کی تقسیم میں پارٹی کارکن کو نظر انداز کیا گیا۔
’مظفر گڑھ پی پی 274 سے پی ٹی آئی کارکن عون حمید ڈوگر 2018 میں پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر الیکشن جیتے تھے لیکن اس بار جمشید دستی کو ٹکٹ دیا گیا جو حال ہی میں پارٹی میں شامل ہوئے۔‘
پی ٹی آئی لسٹ کی بنا پر پنجاب میں وزیر اعلیٰ کا مضبوط امیدوار کون؟
اگر تحریک انصاف کی پنجاب میں امیدواروں کی فہرست پر نظر ڈالی جائے تو ان میں سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار، سابق سپیکر اور وزیر اعلی پرویز الہٰی جیسے بڑے نام شامل ہیں۔
دوسری جانب سابق وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد اور سابق صوبائی وزیر میاں اسلم اقبال بھی کمزور امیدوار نہیں ہیں۔
پنجاب میں وزارت اعلی کے امیدوار کی بارے میں بات کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’پرویز الہی ہی سب سے مضبو امیدوار ہیں۔یہ شرط طے تھی کہ وہی چیف منسٹر ہوں گے اور ان کو پارٹی کا صدر بنایا گیا۔‘
صحافی احمد اعجاز کا کہنا ہے کہ ’گجرات میں مقامی سطح پر یہ باتیں ہو رہی ہیں کہ چوہدری پرویز الہی اگلے وزیر اعلیٰ ہوں گے۔‘
تاہم ماجد نظامی کی رائے میں پنجاب میں تحریک انصاف کی جیت کی صورت میں اس سوال کا جواب دینا کہ کون وزیراعلی ہو گا کافی مشکل ہے کیوںکہ عمران خان ایک بار پھر سرپرائز دے سکتے ہیں۔
’ہم یہ امید نہیں کر سکتے کہ جیتنے کی صورت میں کوئی بڑا نام وزیر اعلیٰ بنے گا، عمران خان کی حکمت عملی ابھی تک یہی رہی ہے کہ انھوں نے کمزور امیدوار لگایا۔‘
اپنے جواب کی وضاحت کرتے ہوئے ماجد نے کہا کہ ’اُن کے پاس 2013 میں پرویز خٹک کی ایک مثال ہے جب انھوں نے ایک مضبوط وزیر اعلیٰ لگایا لیکن اس کے بعد انھوں نے فیصلہ کر لیا کہ کوئی طاقتور وزیر اعلیٰ نہیں لگانا۔‘
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا پرویز الہیٰ حالیہ تجربات کی روشنی میں مضبوط امیدوار نہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان نے اس وقت پرویز الہٰی کو مجبوری میں وزارت اعلی دی تھی لیکن اب ان کا وہ اثر و رسوخ نہیں رہا کیوں کہ وہ پارٹی کا حصہ بن چکے ہیں۔‘
کیا پی ٹی آئی نے موروثیت اور الیکٹیبلز کو خیرآباد کہہ دیا؟
اگر تحریک انصاف کی اس فہرست پر نظر دوڑائی جائے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ عمران خان کے موروثیت یا الیکٹیبلز کو مکمل طور پر ٹھکرایا ہے۔
جنوبی پنجاب ہی کی بات کریں تو شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی، سابق وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی ہاشم جواں بخت سمیت ایسے کئی نام اور خاندان نظر آتے ہیں جو تحریک انصاف کا حصہ بننے سے قبل ماضی میں بھی مختلف جماعتوں سے مقامی اور صوبائی سیاست کا حصہ بنتے رہے۔
ملتان سے قریشی فیملی، راجن پور سے حسنین دریشک، محسن لغاری، ڈیرہ غازی خان سے عثمان بزدار، سیف الدین کھوسہ، لیہ سے شہاب الدین سیہڑ، مظفر گڑھ کے بخاری اور جتوئی خاندان کے علاوہ حال ہی میں پی ٹی آئی کا حصہ بننے والے جمشید دستی، رحیم یار خان کے رئیس اور مخدوم گھرانے سیاسی میدان کا ہر دور میں اہم جزو رہے ہیں۔
صحافی سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی ٹکٹوں کی تقسیم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ’کارکنوں کو شہروں میں ٹکٹ دیے گئے اور الیکٹیبلز کو مضافات میں۔ لاہور میں تجربہ کیا ہے نوآموز لوگوں کا۔‘
’یعنی کہا جا سکتا ہے کہ مضافات میں پرانا فورمولا ہی رکھا گیا۔‘
سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’اگر فواد چوہدری کو نہیں دیا تو ان کے کزن کو دے دیا، شاہ محمود قریشی کی مرضی سے ٹکٹ دیے گئے ہیں، چوہدری پرویز الہی اور مونس یعنی باپ بیٹے کو دیا گیا اور ایسے ہی افضل ساہی اور علی افضل ساہی باپ بیٹا ہیں اور جھنگ میں بھی ماں بیٹی کو ٹکٹ ملا۔‘
ماجد نظامی بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’زیادہ تر ٹکٹ الیکٹیبلز اور موروثی سیاست کو ہی ملے ہیں۔ جن خواتین کو ٹکٹ دیا گیا ان میں سے بھی 90 فیصد کا تعلق موروثی سیاسی خاندانوں سے ہے۔‘
صحافی احمد اعجاز نے دعویٰ کیا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق کئی علاقوں میں الیکٹیبلز ٹکٹوں کی تقسیم پر اثر انداز ہوئے۔
’خانیوال میں صوبائی سطح پر ٹکٹوں کی تقسیم میں فخر امام واضح طور پر اثر انداز ہوئے۔ یہاں پر ایک طرح سے ان کی مرضی سے ٹکٹ دیے گئے ہیں۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ریاض فتیانہ اثر انداز ہوئے اور ان کی اہلیہ کو ٹکٹ دیا گیا۔‘
’جھنگ میں غلام بی بی بھروانہ، جو الیکٹیبل تصور کی جاتی ہیں، ان کو ہی ٹکٹ دیا گیا۔ فیصل آباد میں علی افضل ساہی اور ان کے والد دونوں کو ٹکٹ دیا گیا۔‘
تاہم ان کا کہنا ہے کہ کچھ نئے چہرے سامنے آئے ہیں۔
’بہاولنگر کی سیٹ پی پی 237 پر سلمان خان گدوہوکا کو ٹکٹ دیا گیا جو پہلی بار الیکشن لڑ رہے ہیں اور بلکل نوجوان ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
پنجاب میں انتخاب۔۔۔ بوجھیں تو جانیں! عاصمہ شیرازی کا کالم
پاکستان میں ’الیکشن کا سوال‘: کیا سیاسی جماعتوں میں مذاکرات ہی اس بحران کا حل ہے؟
مہر ستار اور نواز شریف
نئے چہرے
تحریک انصاف کی فہرست میں جہاں کئی پرانے چہرے شامل ہیں وہیں دوسری جانب تحریک انصاف نے کئی نئے ناموں کو بھی اس بار اہمیت دی۔
ان میں انصاف سٹوڈنٹ فیڈریشن کے صدر ارسلان حفیظ، انصاف یوتھ ونگ کے جنرل سیکریٹری احسان طور، آئی ایس ایف کے کنوینئر ایڈووکیٹ حیدر مجید، عمار بشیر، یاسر گیلانی جیسے نوجوان شامل ہیں۔
تاہم ماجد نظامی کا کہنا ہے کہ ’یہ 10 سے 15 ٹکٹیں ہیں۔ یہ اتنا بڑا نمبر نہیں ہے جس کی بنیاد پر کہا جائے کہ نئے چہروں کو زیادہ موقع دیا گیا۔ 297 میں سے 10-15 تو کچھ نہیں ہے۔‘
ان ناموں میں ایک اہم نام مہر عبدالستار کا بھی ہے جن کو اوکاڑہ سے ٹکٹ دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ انجمنِ مزارعینِ پنجاب کے جنرل سیکریٹری مہر عبدالستار کو اوکاڑہ ملٹری فارم کی ملکیت کے تنازع میں مقامی مزارعین کی جانب سے تحریک کی سربراہی کرنے کی وجہ سے شہرت ملی۔
BBCمہر ستار
ان پر پاکستان کی فوج پر الزامات عائد کرنے، غیر ملکی ایجنسیوں سے روابط رکھنے اور ملک کو بدنام کرنے کی سازش میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت سنہ 2001 سے لے کر 2016 تک 36 مقدمات درج ہوئے۔
سنہ 2016 میں ان کو گرفتار کیا گیا جس کے بعد دہشت گردی کے مقدمے میں ان کو 10 سال قید کی سزا بھی ہوئی جو چار سال بعد 2020 میں ختم کی گَئی۔