انڈیا کی ریاست گجرات کے شہر ودودارا میں سائبر کرائم کی روک تھام کرنے والے اداروں نے موبائل فون سموں کے ذریعے فراڈ کرنے والے ایک گروہ کا سراغ لگایا ہے۔یہ گروہ انڈیا سے خریدی گئی موبائل فون سمیں دیگر ممالک میں بھیجتا ہے جنہیں بعد میں مالی فراڈ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔دی ٹائمز آف انڈیا کے مطابق گروہ سم کارڈز کے ذریعے پہلے انڈیا میں لوگوں کو نشانہ بناتا تھا اور ان سموں کی مدد سے لوگوں کے بینک اکاؤںٹس سے پیسے چوری (فِشنگ) کیے جاتے تھے۔اے سی پی سائبر کرائم ہاردک مکاڈیا کہتے ہیں کہ ’یہ ایک بہت منظم گروہ ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ وہ کبھی ٹریس نہ ہو پائے۔ ہم نے اسے کچھ روز قبل پکڑا، جب ہم نے سائبر فراڈ میں ملوث ایک مشکوک شخص کو گرفتار کیا۔‘’تفتیش سے پتا چلا ہے کہ ملزمان اپنے جاننے والوں کی شناختی دستاویزات یا پھر جعلی آئی ڈی کارڈز کے ذریعے بڑی تعداد میں سم کارڈ خرید رہے تھے۔‘ان کے مطابق ’یہ سم کارڈ گروہ کے بندے دبئی لے جاتے ہیں جہاں انہیں 2000 سے 2500 انڈین روپے میں بیچا جاتا ہے۔‘اے سی پی مکاڈیا کہتے ہیں کہ ’دبئی میں ایک مڈل مین یہ سم کارڈ خریدتا ہے اور انہیں فراڈیوں تک پہنچاتا ہے۔ ہمیں یہ بھی پتا چلا ہے کہ کوئی چینی گینگ آن لائن فراڈ کرنے کے لیے یہ سم کارڈ خریدتا ہے۔‘ان میں سے کئی سمیں دبئی میں چینی گینگ کے پاس جاتی ہیں جو ٹیلی گرام پر مختلف اکاؤںٹس بناتے ہیں اور پھر لوگوں کو میسج کرتے ہیں۔انڈین پولیس کے مطابق ’سم کارڈز گروہ دبئی لے جاتا ہے جہاں انہیں 2000 سے 2500 انڈین روپے میں بیچا جاتا ہے‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)لوگوں کو مختلف سکیموں کا لالچ دیا جاتا ہے اور اس کے بدلے انہیں منافعے دینے کا وعدہ کیا جاتا ہے۔پولیس کے مطابق ’انڈیا سے خریدی گئی سموں کو بینک اکاؤںٹس کھولنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے جس کی مدد سے لوگوں کے بینک اکاؤںٹس سے رقم چرائی جاتی ہے۔‘’اگر ہم اس فراڈ کو ٹریس کر لیں تو تفتیش بالکل ختم ہو جاتی ہے کیونکہ اکاؤنٹ جعلی دستاویزات پر بنا ہوتا ہے اور سم کسی بھی بندے کی ہو سکتی ہے۔‘ودودارا کے سائبر کرائم ماہرین نے حالیہ دنوں میں ایک شخص کو پکڑا ہے جس نے 50 سم کارڈز دبئی میں رہنے والی ایک پاکستانی خاتون تک پہنچائے ہیں۔اس خاتون نے وہ سمیں چینی گینگ کو بیچی ہیں جنہوں نے ان سموں سے ٹیلی گرام اکاؤںٹس کھولے ہیں۔پولیس نے مزید بتایا کہ ’اگر ہم گینگز کو ٹریس کر لیں تو ان کی سی پی لوکیشن تک جانا بہت مشکل ہے اور یہ معاملہ پھر انٹرپول کے پاس جائے گا۔‘