پاکستان میں آنکھوں کے عطیے کے منتظر افراد: ’جب پہلا بچہ پیدا ہونا تھا تو سوچتی تھی کہ اسے کیسے پہچانوں گی‘

بی بی سی اردو  |  Apr 18, 2023

BBCسمیرا کی آنکھوں کا علاج کورنیا کا ٹرانسپلانٹ ہے، جس کے لیے وہ کسی عطیے کی منتظر ہیں

’جو بھی رشتہ آتا تھا وہ میری آنکھ کی خرابی کی وجہ سے انکار کر دیتے تھے، اب جہاں منگنی ہوئی ہے وہ بھی انتظار کر رہے ہیں کہ ٹھیک علاج ہو گا تو پھر پیشرفت کریں گے ورنہ نہیں۔‘

یسرہ ظفر کی آنکھ کا چند ماہ قبل کورنیا تبدیل کیا گیا، جس کے بعد ان کی منگنی ہوئی۔ یسرہ ظفر کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن میں رہتی ہیں اور ان کا تعلق متوسط گھرانے سے ہے۔ وہ پولیو کی ٹیموں کے ساتھ کام کرتی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں ان کی نظر کمزور ہے اس لیے وہ کانٹیکٹ لینز استعمال کرتی تھیں۔ ’یہ لینز آن لائن منگوائے تھے شاید ان کا معیار خراب تھا جس کی وجہ سے ری ایکشن ہو گیا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میں ملازمت پر تھی کہ اس وقت آنکھوں میں خارش شروع ہوئی۔ جب میں نے لینز اتارا تو آنکھیں لال ہو چکی تھیں۔ قریبی ڈاکٹر کے پاس گئی تو انھوں نے دوائی دی لیکن اس سے آنکھ ٹھیک نہیں ہوئی بلکہ مزید خارش شروع ہو گئی۔‘

یسرہ کی آنکھ پہلے سفید پھر سرمئی رنگ کی ہو گئی اور پھر انھیں نظر آنا بند ہو گیا۔ دوران علاج اس آنکھ کو ٹانکے لگا کر بند کر دیا گیا اور آٹھ مہینے کے بعد انفیکشن ختم ہوا اور یسرہ کی آنکھ کو کورنیا ٹرانسپلانٹ کیا گیا جو عطیے میں ملا تھا۔

’ایک آنکھ سے تو نظر آتا ہی نہیں تھا دوسری آنکھ پر دباؤ پڑتا تھا جس کی وجہ سے بہت مشکلات ہوتی تھی۔ نیند کی گولیاں لے کر سوتی رہتی۔ اس قدر تکلیف تھی جبکہ آنکھ بدنما بھی لگتی تھی۔ جو بھی دیکھتا تھا تو وہ بار بار اس بارے میں پوچھتا تو دکھ ہوتا۔‘

BBCیسرہ کی آنکھ کو کورنیا ٹرانسپلانٹ کیا گیا جو عطیے میں ملا تھاآنکھ کا کورنیا کیوں خراب ہوتا ہے؟

آنکھوں کے ماہرین کے مطابق صدمہ، انفیکشن، غذائیت کی کمی یا موروثی مسائل بینائی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور اس کی وجہ سے اندھا پن بھی ہو سکتا ہے۔

لیٹن رحمت اللہ بینوولینٹ ٹرسٹ یا ایل آر بی ٹی کے کمیونٹی شعبے کی سربراہ ڈاکٹر مہوش اختر خان کہتی ہیں کہ کورنیا کے مسائل بڑے شہروں اور دیہات دونوں میں دیکھے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ کاشتکاری کے دوران، سبزہ کاٹنے کے وقت جو ذرات آنکھ میں جاتے ہیں، وہ سیدھے کورنیا میں جا کر لگتے ہیں جس کے بعد انفیکشن ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے کافی لوگوں کی آنکھوں کے کورنیا خراب ہو جاتے ہیں۔

ایل آر بی ٹی کے چیف اوپتھومولوجسٹ ڈاکٹر فواد رضوی کہتے ہیں کہ اگر آنکھ میں زخم ہو جائے تو کچھ عرصے بعد زخم تو بھر جاتا ہے لیکن اگر وہ نشان چھوڑ گیا تو یہ کورنیا کے خراب ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’آج کل آنکھوں میں رنگ برنگے لینز لگائے جا رہے ہیں، نوے فیصد یہ وہ لینز ہوتے ہیں جو ایک دو بار استعمال کرنے والے ہوتے ہیں لیکن نہ بیچنے والا یہ بتاتا ہے اور نہ ہی خریدار کو پتا ہوتا ہے اور آنکھ میں انفیکشن ہوجاتا ہے۔ اسی کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں لہذا اگر ایک بار آنکھ میں سفیدی آ جائے تو پھر یہ دواؤں سے ٹھیک نہیں ہوتی جب تک ٹرانسپلانٹ نہ ہو۔‘

BBCایل آر بی ٹی کے چیف اوپتھومولوجسٹ ڈاکٹر فواد رضوی کہتے ہیں کہ اس بارے میں صرف شعور و آگاہی دینے کی کی ضرورت ہے کہ آپ مرتے دم کسی ایک نہیں بلکہ دو انسانوں کو آنکھوں کی روشنی دے رہے ہیںکورنیا کے عطیے کے منتظر افراد

پاکستان میں آنکھوں کی بیماری سے ہزاروں لوگ بینائی سے محروم ہو رہے ہیں لیکن ان کی اصل تعداد کتنی ہے اس کی تفصیلات دستیاب نہیں تاہم ایل آر بی ٹی میں 1500 کے قریب لوگ رجسٹرڈ ہیں جن کا کورنیا تبدیل ہونا ہے۔

ان میں سمیرا بھی شامل ہیں، جن کی دونوں آنکھوں کی بینائی کمزور ہو چکی ہے۔

سمیرا اپنے ہاتھ کو آنکھ کے چار پانچ انچ قریب لے جا کر ہمیں بتاتی ہیں کہ ہاتھ میں جو بڑی لیکریں ہیں انھیں صرف وہ نظر آرہی ہیں۔

سنہ 2003 سے ان کی بینائی کمزور ہونا شروع ہوئی اور آہستہ آہستہ خارش بڑھ گئی۔ بقول ان کے ڈاکٹر نے کہا کہ ابھی ان ہی آنکھوں سے دیکھیں جب آپ کی شادی ہو جائے بچے بڑے ہو جائیں پھر آپریشن کریں گے لیکن اگلے سات سال میں ان کی بینائی 80 فیصد چلی گئی اور اس عرصے میں ان کی شادی بھی ہو گئی اور دو بچے بھی ہو گئے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جب پہلا بچہ ہونا تھا تو میں سوچتی تھی کہ اس کو پہچانوں گی کیسے۔‘

سمیرا کے آنکھوں کا علاج کورنیا کا ٹرانسپلانٹ ہے، جس کے لیے وہ کسی عطیے کی منتظر ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

انسانی اعضا کا عطیہ: ہندو خاتون جو مرنے سے قبل ایک مسلمان نوجوان کو نئی زندگی بخش گئیں

انسانی اعضا کی پیوند کاری: سہیلی کو گردہ عطیہ کرنے والی خاتون کی کہانی

اعضا کی پیوند کاری: جس شخص کو سؤر کا جینیاتی طور پر تبدیل شدہ دل لگایا گیا تھا ان کی موت واقع ہو گئی

BBCامریکہ اور سری لنکا سے عطیات کی کمی

پاکستان میں بعد از مرگ کورنیا یا جسمانی اعضا عطیات کرنے کا رجحان کم ہے، یہاں امریکہ اور سری لنکا سے کورنیا کے عطیات آتے ہیں لیکن ان میں بھی واضح کمی ہو چکی ہے۔

پاکستان میں کورنیا کی کمی کا مسئلہ کافی زیادہ ہے، آپریشن کرنے والے سرجن و دیگر سہولیات تو موجود ہیں لیکن کورنیا کے عطیات دستیاب نہیں۔

ایل آر بی ٹی کے چیف اوپتھومولوجسٹ ڈاکٹر فواد رضوی کہتے ہیں کہ اگر وہ دس ٹرانسپلانٹ کر رہے ہیں تو ضرورت ایک ہزار کی ہے۔

ایل آر بی ٹی کے کمیونٹی شعبے کی سربراہ ڈاکٹر مہوش اختر خان کہتی ہیں کہ سنہ 2020 تک دو ڈھائی سو کورنیا آتے تھے لیکن کوویڈ کے بعد ڈونرز کو اس میں مشکلات آ رہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’پاکستان میں کورنیا کے زیادہ تر عطیات امریکہ سے آتے ہیں، کووڈ سے ہونے والی ہلاکتوں میں پہلے یہ جانچ کی جا رہی تھی کہ کیا کووڈ سے متاثرہ افراد کی آنکھیں استعمال ہو سکتی ہیں یا نہیں کیونکہ یہ بھی ایک انفیکشن تھا۔‘

جانچ کے بعد کووڈ متاثرہ شخص کی آنکھوں کے عطیہ کو منع کر دیا گیا اسی طرح وہ لوگ جنھیں ایچ آئی وی کا مرض لاحق ہوتا ہے ان کا کورنیا بھی استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

ڈاکٹر مہوش کہتی ہیں کہ سری لنکا سے آنے والے کورنیا بھی نہیں آ رہے کیونکہ ان کا معیار اتنا اچھا نہیں۔

’امریکہ میں کورنیا عطیہ کرنے اور بعد میں اس کو محفوظ کرنے کا باضاطہ ایک طریقہ کار ہوتا ہے اس میں کافی تکنیکی معاملات ہوتے ہیں جبکہ سری لنکا میں ان پر درست طریقے سے عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔

ایل آر بی ٹی کے چیف اوپتھومولوجسٹ ڈاکٹر فواد رضوی کہتے ہیں کہ ماضی میں ان کے پاس آنے والے کورنیا کے عطیات میں نوے فیصد سری لنکا سے آتے تھے کیونکہ وہاں مرنے کے بعد مذہبی طور پر کورنیا عطیہ کرنا ہوتا ہے۔

BBCڈاکٹر مہوش خان بتاتی ہیں کہ ایران، ترکی اور جدہ میں بھی آنکھ کے عطیے کی اجازت ہےپاکستان کے مقامی عطیات نہ ہونے کے برابر

پاکستان میں چند ہی ایسے لوگ ہیں جنھوں نے اپنے اعضا عطیے کیے ہیں۔ پاکستان کے نامور سماجی کارکن اور ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ عبدالستار ایدھی نے بھی اپنی آنکھیں عطیہ کی تھیں۔

ایل آر بی ٹی کے چیف اوپتھومولوجسٹ ڈاکٹر فواد رضوی کہتے ہیں کہ اس حوالے سے کئی فتوے موجود ہیں لیکن اس بارے میں حکومت نے قانون پاس کیا اور اس حوالے سے ایک سرکاری ادارہ بھی موجود ہے۔

’صرف شعور و آگاہی دینے کی کی ضرورت ہے کہ آپ مرتے مرتے کسی ایک نہیں بلکہ دو انسانوں کو آنکھوں کی روشنی دے رہے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ایک تحریری وصیت نامہ لیا جاتا ہے اور اس کے بعد ذمہ داری ورثا کی ہوتی ہے کہ وہ انتقال کے فوری بعد ہسپتال کو آگاہ کریں، اس وقت رشتے دار صدمے میں ہوتے ہیں لیکن انھیں بتانا ہوتا ہے کہ ہمارے رشتے دار کا کورنیا نکلنا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس میں آنکھ نہیں بلکہ آنکھ کے درمیان کا حصہ یعنی کورنیل بٹن نکالتے ہیں جس سے آنکھ بدنما نہیں لگتی۔

ڈاکٹر مہوش خان بتاتی ہیں کہ ایران، ترکی اور جدہ میں بھی آنکھ کے عطیے کی اجازت ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’پاکستان میں ہر صوبے میں ایک ایک آئی بینک بھی موجود ہے لیکن ضرورت صرف آگاہی کا پروگرام شروع کرنے کی ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More