انڈین ریاست اتر پردیش کے سابق رکن پارلیمان عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف احمد کو سنیچر کو یوپی کے پریاگ راج علاقے میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
یہ اس وقت ہوا جب وہ پولیس کی حراست میں تھے اور انہیں معمول کے چیک اپ کے لیے ہسپتال لے جایا جا رہا تھا۔پچھلے ہفتے ان کے بیٹے اسد احمد کو جھانسی شہر میں پولیس نے ’انکاؤنٹر‘ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
عتیق احمد اور ان کے بھائی کا قتل گزشتہ دو دنوں سے انڈیا میں بحثکا ایک بڑا موضوع رہا۔ پولیس حراست میں انتہائی قریب سے ہونے والے اس حملے پر بہت سے لوگ حکومت اور انتظامیہ سے سوال کر رہے ہیں۔
یہ بھی سوال کیا جا رہا ہے کہ حملہ آور پولیس کے حفاظتی حصار کے اتنے قریب کیسے پہنچ گئے۔
گینگسٹر سے سیاستدان بننے والے عتیق احمد کے قتل کو غیر ملکی میڈیا کس نظر سے دیکھ رہا ہے یہ سمجھنے کے لیے ہم نے کچھ امریکی اخبارات اور نیوز ویب سائٹس پر نظر ڈالی۔
’سیاسی فائدے کے لیے تشدد کا استعمال‘
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اس خبر پر ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ اس رپورٹ کا عنوان ہے- ’لائیو ٹی وی پر قتل انڈیا کے ماورائے عدالت تشدد کی طرف بڑھتے ہوئے رجحان کا اشارہ دیتا ہے۔‘
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ یہ قتل انڈیا میں ماورائے عدالت تشدد کی جانب بڑھتا ہوا خطرناک رجحان ہے۔
رپورٹ میں لکھا ہے، ’تین الگ الگ چھاپوں میں، اترپردیش پولیس نے مجرم سے سیاستدان بننے والے عتیق احمد سے منسلک چار لوگوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا، جن میں عتیق احمد کا بیٹا اسد بھی شامل ہے۔‘
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’انکاؤنٹر کے ناقدین اسے انڈیا میں ماورائے عدالت قتل بھی کہتے ہیں، تاہم ریاست کے
وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اس کی تعریف کی ہے، یوگی آدتیہ ناتھ جو ایک کٹر ہندو سنیاسی ہیں اور آنے والے وقت میں ملک کے وزیر اعظم کے عہدے کے دعویدار بھی سمجھے جاتے ہیں۔‘
یوپی کی حکومت اور انتظامیہ پر سوال
اخبار کے مطابق ’یوگی آدتیہ ناتھ کی پارٹی بی جے پی اور حکومت کے وفادار نیوز چینلز نے بھی اس ’انکاؤنٹر‘ کی تعریف کی لیکن ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھایا کہ عتیق احمد جو اس وقت عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں اور جن پر 100 سے زیادہ مقدمات، آخر انہیں سزا سے کیوں بچایا جا رہا ہے؟‘
’یہ واقعہ ہفتے کی رات کو ہوا، عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف کو لائیو ٹی وی پر پوائنٹ بلینک رینج پر اس وقت گولی مار دی گئی جب پولیس انہیں معمول کے چیک اپ کے لیے ہسپتال لے جا رہی تھی۔‘
اخبار مزید لکھتا ہے ’تینوں حملہ آوروں نے عتیق احمد کو پوائنٹ بلینک رینج پر گولی مار دی اور دونوں کے زمین پر گرنے تک فائرنگ کرتے رہے۔‘ یہ 17 پولیس اہلکاروں کے گھیرے میں ہوا اور اس سب کے بعد پولیس نے حملہ آوروں کو قابو کرنے کے لیے کارروائی کی تو انہوں نے جئے شری رام کے نعرے لگائے۔ یوپی کے دو وزراء نے اس قتل کو ’بھگوان کا انصاف‘ قرار دیا۔‘
اخبار لکھتا ہے کہ اس سارے معاملے میں سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ سیاست دان تشدد کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کر رہے ہیں، وہ بھی ایک ایسے ملک میں جو مذہبی طور پر انتہائی منقسم ہے۔ اس ماحول میں چھوٹے مجرم تیزی سے بڑھتے ہوئے ہندو انتہا پسند ماحول میں ہیرو بن جاتے ہیں۔‘
قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ نے بھی اس قتل کیس کی کوریج کی ہے۔
الجزیرہ کے ایک آن لائن آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ ’سابق انڈین رکن پارلیمان اور اغوا کے مجرم عتیق احمد اور ان کے بھائی کو لائیو ٹی وی پر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا وہ بھی اس وقت جب وہ پولیس کی حراست میں تھے۔ ریاست کی طرز حکمرانی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔‘
الجزیرہ لکھتا ہے کہ ’جن دو افراد کا قتل ہوا وہ مسلمان تھے۔‘
گزشتہ ماہ انڈیا کی اعلیٰ عدالت میں دائر درخواست میں عتیق احمد نے کہا تھا کہ پولیس سے ان کی جان کو خطرہ ہے۔عتیق احمد کے وکیل کا کہنا ہے کہ یہ قتل افسوسناک ہے کیونکہ یہ واضح طور پر ریاستی پولیس کی ناکامی کی نشاندہی کرتا ہے۔
’حالیہ برسوں میں، اتر پردیش میں ’پولیس مقابلوں‘ میں 180 ملزمان مارے گئے ہیں۔ انسانی حقوق کے گروپ اس طرح کے قتل کو ماورائے عدالت قتل قرار دیتے ہیں۔‘
پاکستان کے میڈیا نے کیا شائع کیا
پاکستان سے نکلنے والا اخبار ڈان لکھتا ہے، ’ہلاک ہونے والے یہ دونوں افراد انڈیا کے مسلمان ہیں اور دونوں بھائیوں کا انڈیا کی جرائم کی دنیا میں ایک بڑا نام تھا‘۔عتیق احمد پر 100 سے زیادہ مقدمات تھے اور جن تینوں حملہ آوروں نے انہیں قتل کیا وہ چھوٹے موٹے جرائم کیا کرتے تھے۔‘
ایک اور پاکستانی اخبار ایکسپریس ٹریبیون لکھتا ہے، ’ ریاست اتر پردیش میں اغوا کے ایک مقدمے میں سزا کاٹ والے ایک سابق رکن پارلیمنٹ اور ان کے بھائی کو پولیس کے حفاظتی حصار میں داخل ہونے کے بعد گولی مار دی گئی، حملہ آوروں نے حملے کے بعد ’جے شری رام‘ کے نعرے لگائے۔ 60 سالہ عتیق احمد کو پریاگ راج، یوپی میں قتل کیا گیا، جہاں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی حکومت میں ہے۔‘
عتیق احمد: جرائم سے سیاست تک
عتیق احمد کے خلاف سب سے زیادہ مقدمات الہ آباد ضلع میں درج کیے گئے تھے۔ ان کے خلاف 101 فوجداری مقدمات درج تھے۔ سنگین جرائم میں ملوث عتیق احمد سیاست میں بھی کامیابی کی سیڑھی چڑھتے گئے۔ پہلی بار، انہوں نے سال 1989 میں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی۔
ان کے علاقے میں یہ عام بات ہے کہ وہ اپنی شبیہ کی وجہ سے الہ آباد سٹی (مغربی) کی سیٹ پانچ بار جیتے۔عتیق احمد ایک بار الہ آباد کی پھول پور سیٹ سے رکن اسمبلی بھی بنے۔
سابق وزیراعظم جواہر لال نہرو نے ایک بار پھول پور سیٹ کی نمائندگی کی تھی۔
پہلا الیکشن جیتنے کے بعد سماج وادی پارٹی سے ان کی قربتیں بڑھ گئیں اور عتیق احمد پارٹی میں شامل ہو گئے۔ تین سال تک سماج وادی پارٹی میں رہنے کے بعد سنہ 1996 میں وہ ’اپنا دل‘ کے ساتھ شامل ہو گئے۔
سنہ 2002 میں عتیق احمد نے الہ آباد (مغربی) سیٹ سے پانچویں بار اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ تاہم، انہیں لوک سبھا جانا تھا اور اس کے لیے انہوں نے سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ پر 2004 میں پھول پور سے لوک سبھا کا الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی۔