منگل کے روز انڈیا کی سپریم کورٹ ہم جنس شادی کو قانونی حیثیت دیے جانے کی حمایت کرنے والی متعدد درخواستوں پر حتمی دلائل کی سماعت شروع کرے گی۔ عدالت نے کہا ہے کہ سماعت 'عوامی مفاد میں لائیو سٹریم' یعنی براہ راست نشر کی جائے گی۔
اس موقعے پر ہم جنس جوڑے اور ایل جی بی ٹی کیو پلس کے کارکنان اپنے حق میں فیصلے کی امید کر رہے ہیں اور حکومت اور مذہبی رہنما سیم سیکس یا ہم جنس شادی کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ ایسے میں یہ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ بحث بہت جاندار ہوگی۔
عدالتی کارروائی پر گہری نظر رکھنے والوں میں ڈاکٹر کویتا اروڑہ اور انکیتا کھنہ بھی شامل ہوں گی۔ یہ ہم جنس جوڑا برسوں سے شادی کے بندھن میں بندھنے کا انتظار کر رہا ہے۔
کویتا اور انکیتا کا کہنا ہے کہ ان کی پہلی نظر میں محبت نہیں تھی۔ پہلے یہ خواتین ساتھی کارکن بنیں، پھر دوست، اور پھر ان میں انس پیدا ہوا۔
ان کے خاندانوں اور دوستوں نے ان کے رشتے کو بہ آسانی قبول کر لیا، لیکن ان کی ملاقات کے 17 سال بعد اور ایک ساتھ رہنے کے ایک دہائی سے زیادہ عرصے کے بعد بھی وہ شادی کرنے سے قاصر ہیں اور دماغی صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ان پر اثر انداز ہو سکتا ہے کیونکہ شادی 'ایک ایسی چیز جو زیادہ تر جوڑے کرنا چاہتے ہیں۔'
یہ دونوں ان تقریباً ڈیڑھ درجن جوڑوں میں شامل ہیں جنھوں نے سپریم کورٹ میں ہم جنس شادی کی اجازت دینے کی درخواست کر رکھی ہے۔ کم از کم تین درخواستیں ان جوڑوں کی طرف سے دائر کی گئی ہیں جو ایک ساتھ بچوں کی پرورش کر رہے ہیں۔
Getty Imagesانڈیا میں دسیوں لاکھ ایل جی بی ٹی کیو پلس رجحانات والے لوگ ہیں
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے اسے ایک اہم معاملہ قرار دیا ہے اور اس پر فیصلہ دینے کے لیے پانچ ججوں پر مشتمل آئینی بینچ تشکیل دیا ہے۔
یہ بحث ایک ایسے ملک میں اہم ہے جہاں اندازاً لاکھوں ایل جی بی ٹی کیو پلس لوگ آباد ہیں۔ سنہ 2012 میں حکومت ہند نے ان کی آبادی 25 لاکھ بتائی تھی۔
گذشتہ برسوں کے دوران انڈیا میں بھی ہم جنس پرستی کی قبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ سنہ 2020 میں پیو سروے میں 37 فیصد لوگوں نے کہا کہ اسے قبول کیا جانا چاہئے – جبکہ سنہ 2014 میں یہ 15 فیصد تھا جب یہ سوال پہلی بار پوچھا گیا تھا یعنی آٹھ سال میں 22 فیصد کا اضافہ اہمیت کا حامل ہے۔
لیکن اس تبدیلی کے باوجود، جنس اور جنسیت کے بارے میں رویے بڑے پیمانے پر قدامت پسندانہ ہیں اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ زیادہ تر ایل جی بی ٹی کیو پلس لوگ باہر آنے سے ڈرتے ہیں، یہاں تک کہ اپنے دوستوں اور خاندان والوں تک کو بتانے سے ڈرتے ہیں اور ہم جنس پرست جوڑوں پر حملے مسلسل سرخیاں بنتی ہیں۔
لہذا بہت ساری توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ آنے والے دنوں میں سپریم کورٹ میں کیا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اگر فیصلہ ان کے حق میں آتا ہے تو اس سے انڈیا دنیا کا 35 واں ملک بن جائے گا جہاں ہم جنس شادی کو قانونی حیثیت حاصل ہوگی اور اس سے معاشرے میں اہم تبدیلیاں شروع ہو سکتی ہیں۔ اور پھر اس کے بعد گود لینے، طلاق اور وراثت کو کنٹرول کرنے والے بہت سے قوانین میں بھی ردوبدل کی جائے گی۔
انکیتا اور کویتا کا کہنا ہے کہ انھیں امید ہے کہ ایسا ہو گا، کیونکہ اس سے ان کی شادی ممکن ہو جائے گی۔
انکیتا، ایک معالج ہیں اور کویتا ایک نفسیاتی ماہر ہیںاور دونوں مل کر ایک کلینک چلاتی ہیں جو دماغی صحت کے مسائل اور سیکھنے کی معذوری والے بچوں اور نوجوان بالغوں کے ساتھ کام کرتا ہے۔
23 ستمبر 2020 کو انھوں نے شادی کے لیے درخواست دی۔
انھوں نے کہا: 'ہم اپنے رشتے کے اس مرحلے پر تھے جہاں ہم شادی کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ اس کے علاوہ، جب بھی ہم کچھ کرنا چاہتے تھے تو ہم سسٹم سے لڑتے لڑتے تھک جاتے تھے، جیسے مشترکہ بینک اکاؤنٹ یا ہیلتھ انشورنس پالیسی، ایک ساتھ گھر کا مالک ہونا، یا وصیت نامہ تیار کرنا وغیرہ۔'
ایک واقعہ جس نے 'محرک' کا کام کیا وہ اس وقت سامنے آیا جب انکیتا کی والدہ کو ہنگامی سرجری کی ضرورت تھی لیکن کویتا ان کے ساتھ ہسپتال گئی تھیں اور وہ کہتی ہیں کہ وہ رضامندی کے فارم پر دستخط نہیں کر سکیں 'کیونکہ میں یہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ میں ان کی بیٹی ہوں، اور نہ ہی میں یہ کہہ سکی کہ میں ان کی بہو ہوں۔'
لیکن 30 ستمبر کو جب وہ اپنے علاقے میں مجسٹریٹ کے دفتر میں اپنی شادی کے لیے پہنچے تو انھیں واپس بھیج دیا گیا۔
اس کے بعد جوڑے نے دہلی ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی، جس میں ہم جنس شادی کو قانونی حیثیت دینے کا مطالبہ کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ حکام کو ان کی شادی کو رجسٹر کرنے کی ہدایت دی جائے۔
سپریم کورٹ اور ملک کی تمام ہائی کورٹس میں ہم جنس جوڑوں کی طرف سے اسی طرح کی متعدد درخواستیں دائر کیے جانے کے بعد، جنوری میں عدالت عظمیٰ نے انھیں اکٹھا کیا اور کہا کہ وہ اس 'اہم' مسئلے پر غور کرے گی۔
سینئر وکیل مینیکا گروسوامی کے ذریعے دائر کردہ اپنی درخواست میں انکیتا اور کویتا کا کہنا ہے کہ 'ہم جس چیز کی تلاش میں ہیں وہ تنہا کر دیے جانے کا حق نہیں ہے، بلکہ برابری کے طور پر تسلیم کیے جانے کا حق ہے۔'
Getty Imagesہم جنس شادی کی بڑے پیمانے پر مخالفت بھی ہے
ان کی درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ آئین ہند تمام شہریوں کو اپنی پسند کے شخص سے شادی کرنے کا حق دیتا ہے اور جنسی رجحان کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی ممانعت کرتا ہے اور یہ کہ ان کی درخواست پر سماعت کی جانی چاہیے کیونکہ 'آئینی اخلاقیات سماجی اخلاقیات سے بالاتر ہے۔'
مز گروسوامی نے بی بی سی کو بتایا: 'میں بہت پر امید ہوں اور مجھے عدلیہ پر بہت اعتماد ہے۔'خیال رہے کہ ان کی ٹیم عدالت میں ہم جنس شادی کے چھ مقدمات کی نمائندگی کر رہی ہے۔
انھیں شادی کی اجازت کی کچھ امیدیں دسمبر سنہ 2018 کے اس فیصلے کو پڑھنے سے پیدا ہوتی ہیں جس میں ہم جنس پرستی کو جرم کے زمرے سے نکال دیا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ 'جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ تھا کہ عدالت نے ساتھی کے انتخاب کے حق پر زور دیا تھا اور اس بات سے میری امید بندھتی ہے۔'
نوآبادیاتی دور کے قانون کو مسترد کرتے ہوئے ججوں نے یہ بھی کہا کہ 'تاریخ کو ایل جی بی ٹی لوگوں اور ان کے خاندانوں سے ان کی بے عزتی اور بے حرمتی کے لیے معافی مانگنی چاہیے ہے۔'
یہ بھی پڑھیے
ہم جنس پرست انڈین امریکی جوڑے شادی کے لیے منفرد انداز اپنانے لگے
’لڑکی ہوں اور لڑکی سے شادی کر لی تو کیا قیامت ٹوٹ پڑی؟‘
لیکن حکومت اور مذہبی رہنماؤں کی طرف سے ہم جنس شادی کی مخالفت کو دیکھتے ہوئے، مز گروسوامی کے سامنے سخت لڑائی نظر آتی ہے۔
حکومت ہند نے سپریم کورٹ سے ہم جنس شادی کی درخواستیں مسترد کرنے کی درخواست کی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ شادی صرف ایک مرد اور عورت کے درمیان ہوسکتی ہے یعنی جنس مخالف کی طرف رغبت رکھنا ہی جائز ہے۔
وزارت قانون نے عدالت میں دائر کی گئی دلیل میں کہا کہ 'ساتھیوں کے طور پر ایک ساتھ رہنا اور ہم جنس افراد کے ساتھ جنسی تعلقات۔۔۔ ایک شوہر، بیوی اور بچوں کے انڈین خاندانی یونٹ کے تصور کو پورا نہیں کرتا۔'
اس نے مزید کہا کہ عدالت سے 'ملک کی پوری قانون سازی کی پالیسی کو تبدیل کرنے کے لیے نہیں کہا جا سکتا جو کہ مذہبی اور معاشرتی اصولوں میں گہرائی سے سرایت ہے۔' اور اس معاملے کو پارلیمنٹ میں بحث کے لیے چھوڑ دیا جانا چاہیے۔
اتحاد کے ایک نایاب مظاہرے میں انڈیا کے تمام اہم مذاہب- ہندو، مسلم، جین، سکھ اور عیسائی۔ کے رہنماؤں نے بھی ہم جنس شادی کی مخالفت کی ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ شادی 'بچے پیدا کرنے کے لیے ہے، تفریح کے لیے نہیں۔'
اور پچھلے مہینے ہائی کورٹ کے 21 ریٹائرڈ ججوں نے بھی اس موضوع پر غور کرتے ہوئے اس کے خلاف لکھا۔ انھوں نے ایک کھلے خط میں لکھا کہ ہم جنس شادی کو قانونی حیثیت دینے سے 'بچے، خاندان اور معاشرے پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔'
ججوں نے مزید کہا کہ ہم جنس شادی کی اجازت دینے سے انڈیا میں ایچ آئی وی ایڈز کے واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے اور اس سے 'ہم جنس جوڑوں کی پرورش پانے والے بچوں کی نفسیاتی اور جذباتی نشوونما پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔'
لیکن گذشتہ ہفتے کے آخر میں، درخواست گزاروں کو اس وقت بہت تقویت ملی جب ملک کے سرکردہ ذہنی صحت گروپ انڈین سائیکاٹرک سوسائٹی (آئی پی ایس) نے ان کی حمایت میں ایک بیان جاری کیا۔ یہ تنظیم 7,000 سے زیادہ نفسیاتی ماہرین کی نمائندگی کرتی ہے۔
آئی پی ایس نے ایک بیان میں کہا کہ 'ہم جنس پرستی کوئی بیماری نہیں ہے اور یہ کہ ایل جی بی ٹی کیو پلس لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک 'ان میں ذہنی صحت کے مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔'
آئی پی ایس کے بیان میں کچھ وزن ہے۔ سنہ 2018 میں، تنظیم نے ہم جنس پرستی کو جرم کے زمرے سے نکالنے پر ان کی حمایت کرنے والا ایک ایسا ہی بیان جاری کیا تھا اور سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس کا حوالہ دیا تھا۔
میں نے انکیتا اور کویتا سے پوچھا کہ عدالت میں کیا ہوگا؟
انکیتا کہتی ہیں: ’ہم جانتے ہیں کہ آئین کو مساوات اور تنوع کی اجازت دینے کے لیے بنایا گیا تھا اور عدلیہ اور آئین میں ہمارا اعتماد اٹل ہے۔'
جبکہ کویتا نے مزید کہا: 'ہمیں معلوم تھا کہ مخالفت ہو گی، ہم جانتے تھے کہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہو گا۔ لیکن ہم نے اس سفر کو شروع کرنے کا انتخاب کیا، یہ ہم نے شروع کیا، دیکھتے ہیں کہ یہ ہمیں کہاں لے جاتا ہے۔'