انڈین ریاست اتر پردیش کے سابق رکن پارلیمان (ایم پی) عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف پولیس کی حراست میں میڈیکل چیک اپ کے لیے پریاگ راج (الہ آباد) کے ایک ہسپتال جا رہے تھے۔
وہ صحافیوں کے سوالوں کے جواب دے رہے تھے جب ان کا لائیو کیمرے پر بات کرتے ہوئے قتل ہوا۔ تین حملہ آوروں نے دونوں بھائیوں پر گولیاں برسائیں، ان کے نیچے گرنے کے بعد بھی وہ فائرنگ کرتے رہے۔ پھر پولیس کے سامنے خود کو سرینڈر کر دیا۔
اہم بات یہ ہے کہ قریب دو ہفتے قبل عتیق احمد نے سپریم کورٹ میں دائر کردہ ایک درخواست میں اترپردیش پولیس کی اضافی سکیورٹی کا مطالبہ کیا تھا جسے مسترد کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ اگر عتیق کی جان خطرے میں ہوئی تو اترپردیش حکومت اور اس کے وسائل ان کی حفاظت کریں گے۔
پوسٹ مارٹم کے بعد اتوار کو عتیق اور اشرف کی میتوں کو پولیس کی سخت سکیورٹی میں ایک مقامی قبرستان میں دفن کیا گیا۔
قتل کے اس ہولناک واقعے کو ٹی وی کیمروں نے ویڈیو بنا کر محفوظ کر لیا جبکہ حکام نے ریاست میں دفعہ 144 نافذ کر کے ہائی الرٹ جاری کر رکھا ہے۔
تینوں حملہ آوروں نے اپنی پستولیں پھینک کر خود کو پولیس کے حوالے کیا جس کے بعد ایک مقامی عدالت نے انھیں 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔
حزب اختلاف کے رہنماؤں نے یوگی حکومت پر تنقید کی ہے اور امن و امان کی اس صورتحال پر ان کے سامنے کئی سوال رکھے ہیں۔ اترپردیش حکومت نے معاملے کی تحقیقات کے لیے تین رکنی جوڈیشل کمیشن قائم کیا ہے۔
عتیق اور اشرف کا قتل: سنیچر کو کیا ہوا؟
عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف صحافیوں کے سوالوں کے جواب دے رہے تھے جب ان پر گولیاں برسائی گئیں۔
جیپ سے اترنے کے 10 سیکنڈ کے اندر عتیق اور اشرف کو میڈیا والوں نے گھیر لیا۔ میڈیا والے دونوں بھائیوں سے پوچھ رہے تھے کہ کیا آپ لوگ کچھ کہیں گے۔۔۔ کچھ کہنا چاہیں گے؟
اس پر اشرف نے پوچھا کہ ’کیا کہیں، کس بارے میں کیا کہوں؟‘
ایک میڈیا پرسن نے پوچھا کہ ’آپ آج جنازے میں نہیں گئے، تو اس بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟‘
ان کا مطلب عتیق احمد کے بیٹے کا جنازہ تھا جو اسی دن سخت پولیس سکیورٹی میں انجام پذیر ہوا تھا۔
اس سوال کے جواب میں عتیق احمد نے کہا کہ ’نہیں لے گئے تو نہیں گئے۔‘
اس کے بعد اشرف نے کہا کہ ’(اصل) بات یہ ہے کہ گڈو مسلم۔۔۔‘‘
اشرف نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ کیمرے میں نظر آرہا ہے کہ عتیق احمد کی کنپٹی پر پستول تانی گئی اور گولی چلائی گئی۔
https://twitter.com/BBCWorld/status/1647638632004558849
اس کے بعد عتیق احمد اور ان کے بھائی کو نشانہ بناتے ہوئے کئی گولیاں اور چلیں اور دونوں بھائی موقع پر ہی گر گئے۔
ایک دوسری ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دونوں بھائیوں کو ہتھکڑیاں لگی ہوئی ہیں اور وہ کیمرے کے سامنے میڈیا والوں سے بات کر رہے ہیں۔
جب وہ بات کر رہے ہوتے ہیں تو انھیں گولی مار دی جاتی ہے اور اس ویڈیو میں ایک حملہ آور شرٹ، نیلی جینز اور سفید جوتے پہنے عتیق اور اشرف پر فائرنگ کرتا نظر آ رہا ہے۔
اس کے ساتھ یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ دونوں بھائی خون میں لت پت زمین پر گرے ہوئے ہیں۔
ایک اور ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں نے افراتفری کے درمیان ہتھیار ڈال دیے اور پولیس والوں نے انھیں پکڑ لیا۔ اس ویڈیو میں ایک اور حملہ آور چیک شرٹ اور جینز میں دونوں ہاتھ اٹھائے نظر آ رہا ہے۔
اس واقعے کے بعد پولیس نے جائے وقوعہ سے تمام قسم کے شواہد جمع کیے۔ ساتھ ہی حملہ آور کے زیر استعمال پستول بھی برآمد کیں۔ یو پی پولیس نے کہا ہے کہ اس حملے میں ایک کانسٹیبل اور صحافی بھی زخمی ہوا۔
ویڈیوز میں حملہ آوروں کو ’سرینڈر‘ کے ساتھ مذہبی نعرے لگاتے بھی سنا گیا۔
یہ بھی پڑھیے
انڈیا کے سابق ایم پی عتیق احمد: دو دن پہلے بیٹے کا انکاؤنٹر، پھر بھائی سمیت کیمرے کے سامنے قتل
سدھو موسے والا: ’شوٹر نے اے کے 47 سے فائرنگ شروع کی، پھر پانچ مزید شوٹرز نے اندھا دھند فائرنگ کی‘
BBCپولیس کی ٹیم نے جائے وقوعہ سے شواہد جمع کیے’خدا کا انصاف‘ کہنے پر بی جے پی رہنماؤں پر تنقید
واقعے کے بعد سے اترپردیش میں دفعہ 144 نافذ ہے اور ہائی الرٹ جاری کیا گیا ہے۔ بعض علاقوں میں انٹرنیٹ سروس بھی معطل ہے۔
اتوار کو تینوں حملہ آوروں کو عدالت پیش کیا گیا جہاں جج نے انھیں 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔ پولیس کی جانب سے بعض علاقوں میں دیر رات کو فلیگ مارچ کی گئی۔
ادھر یو پی حکومت نے معاملے کی تحقیقات کے لیے تین رکنی جوڈیشل کمیشن قائم کیا ہے جس کی سربراہی الہ آباد ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس اروند کمار ترپاٹھی کریں گے۔
وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اتوار کو اپنی تمام میٹنگز منسوخ کر کے اس معاملے پر اعلیٰ سطحیٰ اجلاس بلایا۔ انھوں نے اعلیٰ افسران کو پریاگ راج جانے کا حکم دیا۔ ادھر پولیس کا کہنا ہے کہ صورتحال قابو میں ہے۔
کانگریس رہنما مہوا موئترا نے کہا ہے کہ بی جے پی حکومت نے ملک کو ’مافیا ریپبلک‘ بنا دیا ہے۔
ایک دوسرے ٹویٹ میں موئترا کہتی ہیں کہ ان کے خیال میں عتیقاحمد کا قتل لوگوں کی توجہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک کے انٹرویو سے ہٹانے کے لیے کیا گیا۔
خیال ہے کہ ستیہ پال ملک نے حال ہی میں سنہ 2019 کے پلوامہ حملے کا ذمہ دار انڈین حکومت کو ٹھہرایا ہے۔
ادھراترپردیش کی سابق وزیر اعلیٰ مایاوتی نے سپریم کورٹ سے اس معاملے پر ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا اور اترپردیش میں امن و امان کی صورتحال پر کئی سوال اٹھائے۔
لوک سبھا کے رکن اسدالدین اویسی نے کہا کہ ’وہ لوگ جو ان کاؤنٹر راج کا جشن منا رہے ہیں، وہی اس قتل کے ذمہ دار ہیں۔‘
اس واقعے پر کئی حلقوں کی جانب سے مذمتی بیانات دیے گئے تاہم بعض بی جے پی رہنماؤں نے اسے ’قدرت کا انصاف‘ قرار دیا۔
یو پی کے خزانہ اور پارلیمانی امور کے وزیر سوریش کمار نے کہا ہے کہ ’یہ آسمانی فیصلہ ہے‘ جبکہ وزیر سواتنتر دیو سنگھ نے کہا کہ یہ ان کے گناہوں کا نتیجہ ہے۔ ٹوئٹر پر پیغام میں انھوں نے لکھا ’پاپ، پُنیے کا حساب اسی جنم میں ہوتا ہے۔‘
سابق وزیر اعلیٰ کمل ناتھ نے معاملے پر تحقیقات کا مطالبہ کیا تو بی جے پی کے ریاستی ترجمان نریندر سلوجا نے کہا کہ ’ناتھ کو عتیق احمد کے جرائم سے متاثرہ ہونے والے سے اظہار یکجہتی کرنا چاہیے۔ عتیق پر سو سے زیادہ کیس تھے۔ یہ شرمناک ہے کہ ناتھ اس شخص کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں جس نے کئی خاندانوں کو تباہ کیا۔ سیاست کی خاطر وہ مافیا کے ساتھ ہیں۔‘
اس طرح کے بیانات کے جواب میں کانگریس رہنما پرینکا گاندھی نے کہا کہ آئین میں ملک کا قانون لکھا ہے۔ جرائم پیشہ افراد کو کڑی سزائیں ملنی چاہیے لیکن قانون کے تحت۔ سیاسی مقاصد کے لیے قانونی عمل کی خلاف ورزی جمہوریت کے منافی ہے۔‘