60 نئی بیماریوں کی دریافت کے بعد نشو و نما کی شدید خرابی کے شکار ہزاروں بچوں کی تشخیص

بی بی سی اردو  |  Apr 16, 2023

ایک تحقیق کے دوران 60 نئی بیماریوں کا پتہ چلنے کے بعد نشو و نما کی شدید خرابی کے شکار ہزاروں بچوں کی تشخیص ہو گئی ہے۔

اس تحقیق میں بچوں کی موجودہ کیفیت کی وجوہات کا پتا چلانے کے لیے بچوں اور ان کے والدین کے جینیاتی کوڈ یا ڈی این اے کا تجزیہ کیا گیا۔

انسانوں میں ہزاروں مختلف جینیاتی امراض پائے جاتے ہیں۔

تشخیص جاننے سے بہتر دیکھ بھال ہوسکتی ہے، والدین کو یہ فیصلہ کرنے میں مدد مل سکتی ہے کہ آیا زیادہ بچے پیدا کریں، یا ان کے بچے جس خرابی کا شکار ہیں اس کی وجہ کیا ہے۔

انفرادی طور پر دیکھا جائے تو یہ بیماریاں شاذ و نادر ہی ہوتی ہیں، لیکن مجموعی طور پر وہ برطانیہ میں ہر 17 میں سے ایک شخص کو متاثر کرتی ہیں۔

برطانیہ اور آئرلینڈ میں 10 سال سے زائد عرصے تک کی جانے والی یہ تحقیق نیشنل ہیلتھ سروسز، یونیورسٹیوں اور سنگر انسٹی ٹیوٹ کے اشتراک سے کی گئی جو ڈی این اے کا تجزیہ کرنے میں مہارت رکھتا ہے۔

نتائج میں، محققین نے ٹرنپینی-فرائی سنڈروم دریافت کیا۔ یہ ہمارے ڈی این اے کے اندر جینیاتی ہدایات میں غلطیوں کی وجہ سے ہوتا ہے اور سیکھنے میں مشکلات کا باعث بنتا ہے۔ یہ نشوونما کو بھی متاثر کرتا ہے، جس کے نتیجے میں پیشانی بڑی اور بال چھِدرے ہو جاتے ہیں۔

جیسکا فشر کے بیٹے منگو میں، جنھوں نے اس تحقیق میں حصہ لیا تھا، اسی سنڈروم کی تشخیص ہوئی۔

اس وقت، وہ دنیا کے صرف دو افراد میں سے ایک تھے جن میں اس کی تشخیص ہوئی تھی۔ دوسرا بچہ آسٹریلیا میں تھا، لیکن جیسیکا کہتی ہیں کہ منگو کے ساتھ آسٹریلوی بچے کی جسمانی مماثلت اتنی زیادہ تھی کہ وہ ’اس کا بھائی لگتا تھا‘۔

جیسیکا نے بعد میں ایک آن لائن سپورٹ گروپ شروع کیا، جس میں امریکہ، برازیل، کروشیا اور انڈونیشیا سمیت دنیا بھر کے 36 خاندان شامل ہیں۔

جیسیکا کا کہنا ہے کہ ’یہ جاننا تباہ کن ہے کہ آپ کے بچے کو ایک کمیاب جینیاتی عارضہ ہے، لیکن تشخیص ہو جانے سے ہم ایک ہو گئے ہیں۔‘

اس مطالعے میں غیر واضح بیماریوں میں مبتلا 13500 خاندانوں کے جینیاتی کوڈ کا تجزیہ کیا گیا۔ ان میں سے 5500 کی تشخیص ہو گئی۔

نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہونے والے نتائج میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ان میں سے 60 عارضے نئے تھے۔ زیادہ تر غلطیاں ایسی تھیں جو وراثت میں ملنے کے بجائے حمل کے وقت خود بخود رونما ہوئی تھیں۔

یونیورسٹی آف ایکسیٹر کی پروفیسر کیرولین رائٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم نئی جینیاتی حالتیں تلاش کرنے میں کامیاب رہے جس کا مطلب ہے کہ نہ صرف مطالعے میں شامل افراد کو فائدہ ہوا بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی یہ تحقیق مفید ثابت ہوگی۔

’جینیاتی تشخیص حاصل کرنا خاندانوں کے لیے بہت اہم ہے۔ یہ انھیں اسی کیفیت سے دو چار دوسرے خاندانوں سے بات کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔¬

مطالعے میں شامل تقریباً ایک چوتھائی بچوں کو واضح تشخیص کے بعد ان کا علاج تبدیل کر دیا گیا تھا۔

برطانیہ میں علاج معالجے کی سہولت فراہم کرنے والے قومی ادارے نیشنل ہیلتھ سروسز کی نگرانی میں اس طرح کا جینیاتی تجزیہ زیادہ معمول بنتا جارہا ہے۔

ٹرنپینی فرائی سنڈروم کی دریافت کا مطلب یہ ہوا کہ داشا بروگڈن کی بیٹی سوفیا کی تشخیص اس وقت ہوئی جب وہ صرف ایک ماہ کی تھی۔

اس کی تشخیص سے پتا چل گیا کہ اسے دل کے عارضے کا خدشہ ہے، اور سکین کے بعد صرف دو ماہ کی سوفیا کے دل کا آپریشن کر دیا گیا۔ اب اس کی عمر تین سال ہے۔

داشا کا کہنا تھا کہ ’تشخیص سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ ہمیں کیا توقع رکھنی چاہیے۔ اس طرح ہم ان خاندانوں کے مقابلے میں خوش قسمت رہے جو اس حالت کی سرکاری تشخیص سے پہلے آئے تھے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More