’میری بیٹی کو کھوپڑی کے بغیر بچہ پیدا کرنے پر مجبور کیا گیا، میں لڑ رہی ہوں تاکہ ایسا کسی اور کے ساتھ نہ ہو‘

بی بی سی اردو  |  Apr 13, 2023

BBC

ڈیلمی کی بیٹی بیٹریز 18 سال کی تھیں جب جان میں لیوپس ایک جلدی بیماری کی تشخیص ہوئی تھی۔ اور پھر اس آٹوامیون بیماری نے 21 سال کی عمر میں ان کے پہلے حمل کو پیچیدہ بنا دیا اور ان کا بچہ قبل از وقت پیدائش کے دوران مرتے مرتے بچا۔

وہ ایک سال بعد فروری 2013 میں بھی اپنی بیٹی ان کے ہمراہ تھیں جب ڈاکٹروں نے دریافت کیا کہ ان کے ہونے والے دوسرے بچے کا دماغ یا کھوپڑی نہیں بنی۔ یہ ان کا دوسرا حمل تھا جس سے ان کی صحت کو مزید خطرات لاحق ہوئے۔

ڈیلمی اس دن بھی بیٹریز کے ساتھ تھیں جس دن انھیں ہسپتال میں پالنا ملا تھا، یہ ’تحفہ‘ نامعلوم افراد کی طرف سے بھیجا گیا تھا جس میں ایل سلواڈور کے آئینی چیمبر کے اسقاط حمل سے انکار کرنے کے فیصلے کی تعریف کی گئی تھی، اس حقیقت کے باوجود کہ یہ دوسرا حمل پیچیدگیوں سے بھرپور تھا۔ اگرچہ 15 ماہرین کی ایک میڈیکل کمیٹی نے ایل سلواڈور کی اس نوجوان خاتون کی جان بچانے کی سفارش کی تھی، جس کی عمر اس وقت صرف 22 سال تھی۔

اس فیصلے کے دس سال بعد، ڈیلمی نے بین امریکی عدالت برائے انسانی حقوق کورٹ کی 23 مارچ 2023 کو سان ہوزے، کوسٹا ریکا میں منعقد ہونے والی پہلی عوامی سماعت میں شرکت کی۔ اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ آیا ریاست سلواڈور کا مرد بیٹریز کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے اور اس کے اسقاط حمل سے منع کر کے اسے ظالمانہ اور ذلت آمیز سلوک کا نشانہ بنانے کا ذمہ دار ہے۔

بیٹریز ایل سلواڈور میں ایک علامت بن گئی ہیں۔ اس ملک میں انسداد اسقاط حمل کے دنیا میں سب سے زیادہ سخت قوانین ہیں جو ہر حال میں اسقاطِ حمل کی مذمت کرتے ہیں۔ عورت پر سنگین نوعیت کے قتل کا الزامات کے تحت30 سے 50 سال کے درمیان سزا ہوسکتی ہے۔

اس کا مقدمہ اسقاط حمل سے انکار کا پہلا مقدمہ ہے جو انٹر امیریکن کورٹ میں چلایا گیا ہے۔ یہ حکم اسقاط حمل کے حق پر خطے کے باقی ممالک کے لیے ایک مثال قائم کرے گا جنھوں نے انسانی حقوق کے امریکی کنونشن پر دستخط کیے ہیں۔

اس مقدمے میں دی جانے والے بیان میں ڈیلمی نے پچھلی ایک دہائی کے دوران اپنے خاندان کے تجربات بیان کیے ہیں جن میں حمل کے برسوں بعد پیش آنے والے حادثے کی وجہ سے بیٹریز کی موت کا ذکر بھی شامل ہے۔

Getty Imagesایک چھوٹی قمیض

بیٹریز جس جلدی بیماری لیوپس میں مبتلا تھیں اس میں مدافعتی نظام جسم میں صحت مند بافتوں پر حملہ کرتا ہے۔ اس حالت نے پہلے حمل کے دوران ان کی اور بچے کی جان کو خطرے میں ڈال دیا۔ ان کا بیٹا قبل از وقت پیدا ہوا تھا اور اس کا وزن دو کلو سے بھی کم تھا۔

’بیٹریز کے پہلے حمل کے بارے میں سب سے مشکل چیز پری لیمپسیا تھی۔‘

’لیبر میں جانے سے پہلے، انھوں نے اسے خون لگایا۔ میں اسے دیکھنے گئی تو اسے سردی سے کپکپاتے پایا۔ انھوں نے اسے داخل کیا کیونکہ وہ تھکن کے مسئلے کے ساتھ پہنچی تھی، وہ کافی مشکل سے سانس لے رہی تھی۔‘

’بچہ قبل از وقت پیدا ہوا تھا، اس کا وزن بہت کم تھا۔ میرے پاس اب بھی اس کی قمیضجب وہ ہسپتال میں پیدا ہوا تھا۔ وہ اتنی سی ہے ( انھوں نے شہادت کی انگلی اور انگوٹھے سے ایل بنا کر دکھاتے ہوئے کہا) ایک چھوٹی سی قمیض۔‘

جب انھوں نے اسے ہسپتال میں دیا تو یہ میرے ہاتھ میں فٹ ہو گیا۔ میں رو نہیں رہی تھی۔

بیٹریز نے مجھے بتایا کہ جب اس نے اسے دیکھا تو اسے افسوس ہوا کہ انھوں نے اسے چھوٹی ٹیوبز لگائیں۔

ہم نے سوچا کہ وہ زندہ نہیں رہے گا۔

یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنے پہلے حمل کے بعد نس بندی نہیں کروائی، کیونکہ اسے لگتا تھا کہ اس کا بیٹا زندہ نہیں رہے گا۔ اور وہ مزید بچہ پیدا کرنا چاہتی تھی۔

’بیٹریز کبھی بھی دودھ پلانے کے قابل نہیں ہوئی۔ وہ دوا لے رہی تھی (لیوپس کے علاج کے لیے)۔ بچے کی پرورش صرف فارمولا دودھ پر ہوئی تھی۔‘

81 دن ہسپتال میں داخل

اپنے پہلے بچے کی پیدائش کے ڈیڑھ سال بعد بیٹریز کو معلوم ہوا کہ وہ دوسرے بچے کے ساتھ امید سے ہیں۔ وہ انہی پیچیدگیوں سے گزرنے سے ڈرتی تھیں جو ان کی پہلی حمل کے دوران لیوپس کے باعث پیدا کی تھیں۔

ڈاکٹروں نے خبردار کیا کہ جنین، ایک لڑکی، اینینسفلی کا شکار ہے: ایک پیدائشی خرابی جو کھوپڑی اور دماغ کی نشوونما میں رکاوٹ بنتی ہے، وہ عضو جو جسم کے افعال کو کنٹرول کرتا ہے۔

یہ دیکھتے ہوئے کہ بچہ زندہ نہیں رہے گا، بیٹریز نے سلواڈور ریاست سے اسے اسقاط حمل کی اجازت دینے کو کہا۔ لیکن انھیں اس کی اجازت نہیں ملی۔

’ایک دن بیٹریز اپنے چہرے پر چکن پاکس جیسے زخموں کے ساتھ بیدار ہوئیں۔ کچھ پھوڑے نمودار ہوئے، جب وہ پھٹ گئے تو پیپ اور خون نکل آیا۔ پھر وقت گزرتا گیا اور یہ ان کے پورے جسم میں پھیل گیا۔ ان کے ہاتھ پاؤں بھرے ہوئے تھے۔‘

’ میں نے ان پر کپڑا ڈال دیا تاکہ وہ اسے انگلیوں سے پکڑ کر اپنے جسم کو ڈھانپ سکے۔ یہ ناقابل برداشت درد تھا جو انھوں نے محسوس کیا۔‘

’بیٹریز میرے ساتھ نہیں رہتی تھیں، وہ اپنے ساتھی کے ساتھ تھیں۔ لیکن جب یہ مسئلہ سامنے آیا تو وہ میرے پاس آئی تاکہ میں اسے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں۔‘

’جب انھوں نے یہ دیکھنے کے لیے ٹیسٹ کیا کہ کیا مسئلہ ہے، تو انھیں پتہ چلا کہ وہ حاملہ ہے۔ میرے لیے یہ ایک بہت سخت دھچکا تھا کیونکہ میں جانتی تھی کہ اگر وہ دوبارہ حاملہ ہو گئی تو اسے پہلے حمل کے مقابلے میں زیادہ سخت عمل سے گزرنا پڑے گا، کیونکہ اس کی حالت زیادہ نازک تھی۔‘

’جب انھوں نے ہمیں خبر دی تو ہم اسے روزیلز ہسپتال لے گئے۔ مجھے ہر روز بس میں دو گھنٹے سفر کرنا پڑتا۔ مجھے صبح 6:00 بجے نکلنا پڑتا تاکہ 8:00 پہنچ سکوں۔ یہاں تک کہ وہ مجھے اندر جانے نہیں دیتے تھے۔ مجھے 11:00 یا 12:00 بجے وزٹ کے وقت تک انتظار کرنا پڑا۔‘

’میں نے جلدی جانے کی کوشش کی کیونکہ بیٹریز اس وقت تک کھانا نہیں کھا سکتی تھی جب تک میں ہسپتال نہیں پہنچ جاتی کیونکہ اس کے ہاتھوں پر زخموں سے پٹی بندھی ہوئی تھی۔‘

وہ باتھ روم بھی نہیں جا سکتی تھیں۔ اسے ضبط کرنا پڑا، نرسیں مصروف تھیں۔ اس نے مجھ سے کہا: 'مجھے انھیں کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔‘ وہ میرے پہنچنے تک انتظار کرتی رہتی۔‘

اسے کھانے میں بھی دقت ہوتی تھی۔ ایک، کیونکہ اس کے گلے میں درد تھا۔ اور دوسرا، کیونکہ ہسپتال کا کھانا خوفناک تھا۔

اور اسی طرح ہر روز ہوتا۔ ہسپتال میں بیٹریز اپنے درد کی وجہ سے رو پڑی۔

وہ 81 دن تک ہسپتال میں داخل تھیں۔

انھوں نے اسے ایک کمرے میں رکھا جہاں نرسیں تھیں، ایک بہت چھوٹے کمرے میں، اس کا چھوٹا سا بستر بمشکل فٹ ہوتا تھا۔ وہ قید محسوس کر رہی تھیں اور اپنے پہلے بچے کو نہیں دیکھ سکتی تھیں۔

چونکہ ان کا ساتھی بچے کی دیکھ بھال کے لیے وقف تھا، اس لیے وہ اس کے ساتھ شاذ و نادر ہی آتا تھا۔

اگرچہ وہ ہسپتال سے باہر نکلنے کے بعد، وہ اس کے پاس واپس چلی گئی اور وہ ساتھ رہے۔

ان کے پاس فون تھا اور انھوں نے ان چیزوں کو محسوس کیا جو اس کے بارے میں کہی جارہی تھیں۔ انھوں نے ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا۔ کہنے لگے کہ اگر وہ بیمار تھی تو ٹانگیں کیوں پھیلائیں؟ اس طرح کی ناگوار چیزیں۔

ایک دن میں ان سے ملنے میٹرنٹی ہسپتال پہنچی اور انھوں نے مجھ سے کہا: ’دیکھو وہ میرے لیے کیا لائے ہیں۔‘ یہ ایک ٹوکری تھی اور اس میں ایک کمبل تھا۔ میں نے اس سے پوچھا وہ کیا چاہتے ہیں؟‘

وہ وہ تھے جو (اسقاط حمل) کی مخالفت کرتے ہیں، وہ لوگ جو زندگی کو ہاں کہتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ انھوں نے بیٹریز کو کیا نقصان پہنچایا۔

رات کو وہ مجھے فون کرتی اور کہتی ’میں بے چین محسوس کر رہی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ اب اسے ختم کر دیں۔ اس نے کہا کہ اسے ایسا لگا جیسے وہ مر رہی ہے۔‘

Getty Imagesجنت کی لڑکی

اگرچہ سلواڈور کا قانون کسی بھی حالت میں حمل کو ختم کرنے کی ممانعت کرتا ہے تاہم بیٹریز نے حمل کے 12ویں ہفتے کے دوران اسقاط حمل کی اجازت طلب کی۔

آخر کار، سلواڈور کی عدالت نے 26 ویں ہفتے میں سیزیرین سیکشن کا اختیار دیا، جب بیٹریز کی صحت بہت زیادہ متاثر ہوچکی تھی لیکن یہ قانونی فریم ورک کے اندر تھا جس نے اسقاط حمل کے بجائے قبل از وقت پیدائش کے طریقہ کار کی اجازت دی۔ بچی سیزرین سیکشن کے ذریعے پیدا ہوئی اور 5 گھنٹے بعد اس کی موت ہو گئی۔

’میں ہسپتال میں بیٹریز کے ساتھ تھی جب وہ اسے بتانے آئے کہ ان کا سیزیرین سیکشن ہونے والا ہے۔ انھوں نے اسے کھوپڑی کے بغیر بچہ پیدا کرنے پر مجبور کیا جو پیدائش کے پانچ گھنٹے بعد مر گیا۔‘

میں انتظار میں وہاں ٹھہرا رہی، یہ عمل دو تین گھنٹے جاری رہا۔

سماعت کے دوران (انٹر امریکن کورٹ میں) انھوں نے کہا کہ بیٹریز نے اسے نہیں دیکھا ۔ جس نے دیکھا وہ میں تھی۔

جب وہ اسے نکال ہی چکے تھے تو ڈاکٹر نے مجھ سے کہا ’کیا تم اسے دیکھنا چاہتی ہو؟۔۔۔ لیکن تصویر مت کھینچو، اسے دیکھو۔‘

’میں نے اسے غور سے دیکھا کہ آیا وہ اپنی چھوٹی آنکھیں ہلا سکتا ہے، لیکن نہیں۔ میں نے اسے صرف چند سیکنڈ کے لیے دیکھا۔‘

’بعد میں میں نے ایک نرس کو بتایا کہ میں نے کیا دیکھا تھا، اور اس نے مجھے بتایا کہ ہاں’ وہ بچے ایسے ہی پیدا ہوتے ہیں، کچھ بھی نہیں کر پاتے کیونکہ ان کا دماغ نہیں ہوتا۔‘

بیٹریز نے اسے ایک نام دینا چاہا اور انٹرنیٹ پر تلاش کرنا شروع کر دیا یہاں تک کہ اسے لیلانی نام مل گیا، جس کا (ہوائی زبان میں) مطلب ہے ’جنت کی لڑکی۔‘

ہم نے اس کا نام لیلانی بیٹریز رکھا۔

اس کے بعد، بیٹریز نے خود کو الگ تھلگ کر لیا۔ وہ پیچھے ہٹ گئی۔ وہ مزید غصے میں آ گئی، اب مشکل مسکراتی۔

ہم اسے اچھا محسوس کرانے کے طریقہ تلاشتے۔ بھائیوں نے گانا گایا کیونکہ وہ گانا پسند کرتی تھیں۔ اس نے منع کر دیا کہ ’چپ رہو۔ میں شور نہیں سننا چاہتی۔‘

’اس میں ایک خلا رہ گیا تھا‘۔

یہ بھی پڑھیے

سلواڈور: جہاں حادثاتی اسقاط حمل کی سزا بھی عورت کو

ایل سلواڈور: وہ ملک جہاں اسقاط حمل یا حمل گرنے پر خواتین کو قید کر دیا جاتا ہے

Getty Imagesبیٹریز کا کیس ایل سلواڈور میں اسقاط حمل کے حق میں لڑائی کی علامت بن گیا ہے۔’کیا تم نہیں جانتے‘

بیٹریز اکتوبر 2017 میں ایک ٹریفک حادثے میں مر گئیں، اپنی دوسرے بچے کے پیدا ہونے کے چار سال بعد۔

بیٹی کی وفات کے بعد ڈیلمی اپنے نواسے کی پرورش کر رہی ہیں، جو اب 11 سال کا ہے۔

’اس سب کے ساتھ میں بیمار ہو گئی۔ مجھے ہائی بلڈ پریشر شروع ہو گیا۔ میں کھانا نہیں کھانا چاہتی تھی اور میرے ساتھی نے مجھے کہا ’کھاؤ، ورنہ تم بیمار ہو جاؤ گی۔‘

میرے ساتھی کارکنوں نے میرا ساتھ دیا لیکن کئی دوسروں نے اور میرے پڑوسیوں نے مجھ پر تبصرے کیے۔

آج بھی وہ مجھ سے کہتے ہیں ’کیا تم اسقاط حمل کے حق میں ہو؟‘ اور میں ان سے کہتی ہوں ’کیا تم نہیں جانتے‘۔

’وہ کہتے ہیں کہ یہ گناہ ہے، عورتوں کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ اور میں نے ان کے سامنے سوال رکھا کہ ’کیا ہوتا اگر بیٹریز آپ کی بیٹی یا آپ کی بہن ہوتی؟‘ اور پھر وہ مجھ سے اور کچھ نہیں کہتے۔‘

’میرے لیے سب سے مشکل بات یہ تھی کہ انھوں نے بیٹریز کو اس کا حق نہیں دیا جس کا وہ مطالبہ کر رہی تھی۔

’اس سارے عمل کی وجہ سے میں نے سیکھا ہے کہ آپ کو لڑنا ہے تاکہ ایسا کیس دوبارہ نہ ہو۔‘

میرا پوتا 5 سال کا تھا جب بیٹریز کی وفات ہوئی۔ جب وہ تابوت میں تھی تو وہ اسے چھوتا اور کہتا، ’بیلا، اٹھو۔‘ اس نے سوچا کہ وہ سو رہی ہے۔

’جب ہم قبرستان جاتے ہیں تو وہ ہاتھ سے قبر کو ہاتھ ہلاتا ہے۔ یہ ہمارے لیے مشکل ہے۔‘

وہ مجھے ماں کہتا ہے، وہ خالہ کو ماں کہتا ہے، وہ اپنے والد کی پارٹنر کو ماں کہتا ہے، وہ ماں کو پکارتا ہے۔ شاید وہ ان سب کو ماں کہنا چاہتا ہے کیونکہ اسے اپنی ماں کے پیار کی کمی محسوس ہوتی تھی۔

اگرچہ وہ 11 سال کا ہے لیکن وہ اب بھی اچھی طرح بول نہیں سکتا۔ اس کے تلفظ ٹھیک نہیں۔ چوتھی جماعت میں پڑھتا ہے۔

اس کے پاس دیکھ بھال کرنے والے ہیں، لیکن بعض اوقات وہ ناراض ہوتا ہے۔

’میں چاہتی ہوں کہ میرا نواسا ایک صحت مند اور مضبوط آدمی کے طور پر پروان چڑھے، ایک پیشہ ور بن جائے اور، جب وہ بالغ ہو، تو اسے وہ سب بتاؤں جس سے بیٹریز گزری تھیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More