’غیر مقبول‘ وزیراعظم سے مقبول اپوزیشن لیڈر تک: ’عمران خان کے بیانیے کی مقبولیت میں کلیدی کردار پی ڈی ایم کا رہا‘

بی بی سی اردو  |  Apr 13, 2023

’اگر ایک وجہ بتانی ہو تو وہ مہنگائی ہے۔ پہلے میرا گھر کم پیسوں میں بھی چل جاتا تھا مگر گذشتہ ایک سال کے دوران ہمارے بہت بُرے حالات ہو گئے ہیں۔ ہم کب تک بھوکے پیٹ نعرے لگاتے رہیں گے‘؟

لاہور میں زمان پارک کے باہر موجود اکرم مسیح کے مطابق ان کا خاندان گذشتہ دو دہائیوں سے مسلم لیگ کا حامی تھا مگر بڑھتی ہوئی مہنگائی اور روزمرہ کی بنیادی ضروریات پوری نہ ہونے کے باعث انھوں نے اپنی سیاسی وابستگی پر نظر ثانی کی اور اب وہ چند ماہ سے پی ٹی آئی کی حمایت کر رہے ہیں۔

دروغہ والا سے تعلق رکھنے والے اکرم مسیح سے جب میں نے پوچھا کہ اگر عمران خان دوبارہ برسرِاقتدار آتے ہیں اور مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام رہتے ہیں تو کیا ہو گا؟ اس پر اکرم کا سادہ سا جواب تھا ’مجھے لگتا ہے کہ عمران خان مجھے ناامید نہیں کریں گے‘۔

ایک برس قبل تحریکِ عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ایک ایسے وقت میں ہوا تھا جب ملک میں مہنگائی کی وجہ سے ہی ان کی عوامی مقبولیت کا گراف انتہائی نچلے درجے پر تھا اور اس وقت پی ڈی ایم کے رہنماؤں کی جانب سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ اب عمران خان، ان کی پارٹی اور اُن کی سیاست قصہ پارینہ بن جائے گی۔

تاہم آج اگر گذشتہ 12 ماہ کے دوران ملک کی صورتحال پر نظر دوڑائی جائے تو یہی لگتا ہے کہ پی ڈی ایم کے رہنماؤں کے اندازے غلط ثابت ہوئے ہیں۔

عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد گذشتہ ایک سال کے دوران ملک میں مجموعی طور پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی 37 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے جن میں سے 28 نشستوں پر تحریک انصاف کامیاب رہی۔

اور وہ مہنگائی جس کی وجہ سے عمران خان کی مقبولیت میں گذشتہ برس کے اوائل تک کمی دیکھی گئی تھی وہ پی ڈی ایم کے دور میں تقریباً 23 فیصد بڑھی ہے۔

ادارہ شماریات پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مارچ 2022 کے اختتام پر پاکستان میں مہنگائی کی شرح 12.7 فیصد تھی جو مارچ 2023 کے اختتام پر بڑھ کر 35.4 فیصد تک جا پہنچی ہے اور مہنگائی کی اسی شدید لہر نے عوام کی بڑی تعداد کو موجودہ حکومت سے بظاہر متنفر کر دیا ہے۔

اس صورتحال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین ایک ’غیر مقبول‘ وزیرِ اعظم سے حزب اختلاف کے ایک ’مقبول‘ رہنما بن کر کیسے سامنے آئے اور یہ کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) عمران خان کے پیش کردہ بیانیے کو چیلنج کرنے میں ناکام کیوں نظر آتی ہے؟

عمران خان کا ’بیرونی سازش‘ کا بیانیہ ہو یا سازش کے مرکزی کرداروں کے حوالے سے ہر چند ماہ بعد بدلتے کرداروں کا ذکر، ان تمام تر دعوؤں اور بدلتے بیانات کا بظاہر ان کی مقبولیت پر کوئی اثر ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔

سیاسی مبصرین کے مطابق حکومت ہاتھ سے جانے کے بعد عمران خان کی جانب سے مختلف شخصیات اور اداروں پر لگائے گئے الزامات میں جہاں عوام کی بڑھتی ہوئی دلچسپی دیکھنے کو ملی، وہیں عمران خان نے ’سازش‘ کے بیانیے کو کامیابی سے اپنی ڈھال بنا لیا اور اسی دورانیے میں ’اسٹیبلیشمنٹ مخالف بیانیہ‘ جو کبھی مسلم لیگ کے قائد نواز شریف کا خاصہ سمجھا جاتا تھا عمران خان نے بظاہر اسے بھی کامیابی سے اپنایا۔

Getty Imagesمگر اس ’کامیابی‘ کی وجہ آخر ہے کیا؟

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صحافی اور تجزیہ کار عاصم نصیر نے کہا کہ اگر سادہ الفاظ میں بات کی جائے تو ’عمران خان اس وقت جو چیز بھی بیچ رہے ہیں وہ بِک رہی ہے۔ انھوں نے ایک ایسی سیاسی دکان سجائی ہوئی ہے جس میں عمران خان کے بیانیے کے مقبول ہونے میں کلیدی کردار خود پی ڈی ایم نے نبھایا۔‘

انھوں نے کہا کہ جس طرح سے پی ڈی ایم عمران خان کو ’قابو‘ کرنے کی ’کچی کوششیں‘ کر رہی ہے اس کا تمام تر فائدہ عمران خان کو ہو رہا ہے۔ ’اب وہ زمان پارک میں اُن کے گھر پر پولیس کا دھاوا ہو یا عمران خان کا آنسو گیس کے خالی شیل کے ساتھ بیٹھ کر اپنے کارکنوں سے آن لائن خطاب۔ یہ سب سیاسی طور پر اُن کے لیے کار آمد ثابت ہو رہا ہے۔‘

انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’جب 20 حلقوں کے ضمنی انتخابات تھے تب بھی عمران خان کہیں نظر نہیں آ رہے تھے جبکہ مسلم لیگ نواز کی حالت یہ تھی کہ انھیں پنجاب میں ان کی ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی مار گئی‘۔

انھوں نے کہا کہ ’اس دوران موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں نے بھی اپنا کام دکھایا۔ عین انتخابات کے موقع پر پیٹرول کی بڑھتی قیمتیں، ڈالر کی ہاتھ سے نکلتی قیمتیں، یہ سب وہ عوامل تھے جس کو بنیاد بنا کر عمران خان نے بڑھتی مہنگائی کو بھی اپنے سیاسی بیانیے کا حصہ بنا لیا‘۔

پی ڈی ایم نے عمران خان کو حکومت سے نکالنے میں جلدی تو نہیں کر دی؟

حکومتی جماعت مسلم لیگ نواز کے رکنِ قومی اسمبلی روحیل اصغر اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پاکستان تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا تھا اور اگر ایک سال پہلے ہم عمران خان کو حکومت کا خاتمہ نہ کرتے تو ملک کا بچنا محال ہو جاتا اور انھیں (حکومت سے نہ نکالنا) ایک مجرمانہ اقدام ہوتا‘۔

مگر کیا گذشتہ ایک سال کے دوران عمران خان کے اسٹیبلیشمنٹ مخالف بیانیے کے سامنے مسلم لیگ نواز کا بیانیہ ماند پڑ گیا؟

روحیل اصغر اس سے بھی اتفاق نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ’ایسا نہیں ہے۔ مسلم لیگ کا بیانیہ بالکل مختلف ہے۔ جن کے خلاف مسلم لیگ نے اپنا بیانیہ بنایا تھا اب وہ سب ریٹائر ہو گئے ہیں، گھروں کو چلے گئے، یا وفات پا چکے ہیں‘۔

انھوں نے واضح کیا کہ مسلم لیگ نواز کا بیانیہ آج بھی وہ ہی ہے کہ ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرے اور یہ کوئی غلط بات نہیں۔

یہ بھی پڑھیے

عمران خان کی حکومت کے خاتمے کا ایک سال: سیاسی میدان میں کس نے کیا کھویا اور کیا پایا؟

بھٹو اور کیسنجر: عمران خان نے ذوالفقار بھٹو کے خلاف کس ’بیرونی سازش‘ کا حوالہ دیا؟

عمران خان، فوج اور تحریک عدم اعتماد: ’جب تک اسٹیبلشمنٹ معاملات طے کرتی رہے گی پھر وزیراعظم کوئی بھی ہو، کیا فرق پڑتا ہے‘

Getty Images’اسٹیبلیشمنٹ مخالف بیانیہ‘

واضح رہے کہ عمران خان کی حکومت ختم ہونے سے ایک سال پہلے تک مسلم لیگ نواز کے سربراہ میاں نواز شریف اپنے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کی بنا پر بڑے لیڈر سمجھے جا رہے تھے۔

عاصم نصیر کے مطابق ’زیادہ تر لوگ اس بات پر گرویدہ تھے کہ نواز شریف اب مکمل طور پر لیڈر بن چکے ہیں اور ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ چکے ہیں۔ پھر یوں ہوا کہ ایک سال کے اندر اندر مسلم لیگ نواز ان چند بڑی جماعتوں کا حصہ تھی جنھوں نے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے حکومت بنائی۔‘

’اور پھر ہم نے دیکھا کہ جو باتیں نواز شریف کا پاپولر بیانیہ سمجھی جاتی تھیں وہ اب عمران خان زیادہ شد و مد سے کرنے لگے، جس کے نتیجے میں پاکستان میں غالباً پہلی مرتبہ ڈی جی آئی ایس آئی اور فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہان کو مشترکہ پریس کانفرنس کرکے عمران خان کے لگائے ہوئے الزامات کی تردید کرنی پڑی۔‘

اس پر روحیل اصغر نے کہا کہ ’میاں نواز شریف کا یہی مؤقف تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنا کام کرنا چاہیے لیکن اِن لوگوں (پی ٹی آئی) کی طرح ہم پورے ادارے کو بدنام نہیں کر سکتے۔ پورا ادارہ کبھی بھی خراب نہیں ہوتا بس چند لوگ ہوتے ہیں جن سے اختلاف رہتا ہے۔‘

عمران خان اور نواز شریف کے بیانیے میں فرق کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ درحقیقت عمران خان کا بیانیہ ’جھوٹ پر مبنی‘ ہے۔ ’ہوتا یہی ہے کہ کوئی من گھڑت بات عوام کے سامنے کر دی جاتی ہے اور پھر عوام بھی سادی ہے جو من و عن ان باتوں کو مان لیتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس کی سب سے بڑی مثال سائفر ہے جسے مبینہ طور پر لہراتے ہوئے بڑا دعویٰ کیا گیا تھا۔ پھر اچانک سے خیال آیا کہ امریکہ نے تو کچھ نہیں کیا۔‘

روحیل اصغر نے کہا کہ ’بدقسمتی یہ ہے کہ اس بیانیے کو سچ سمجھنے والے آج بھی شرمندہ نہیں ہوتے۔‘

اب اسی بات سے انتخابات پر ہونے والی بحث جڑی ہے۔ جہاں ایک سوال یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ کیا عمران خان اپنے اسی بیانیے سے آنے والے انتخابات جیتنے کی کوشش کریں گے؟ اور سب سے اہم یہ کہ عمران خان اگر حکومت میں دوبارہ آتے ہیں تو کیا وہ عوامی مسائل جیسے کہ مہنگائی کو قابو کرپائیں گے؟

حکومت سے محرومی کے بعد کسی حد تک عوامی حمایت حاصل کرنے کے بعد اب عمران خان کی انتخابات پر نظریں ہیں مگر دوسری جانب پی ڈی ایم اس کی مخالف ہے۔

جب روحیل اصغر سے یہ سوال کیا کہحکومت کب تک الیکشن سے بھاگے گی؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے اس سوال پر ہنسی آتی ہے۔ سیاسی جماعتیں کبھی الیکشن سے نہیں بھاگتیں کیونکہ اگر الیکشن نہیں ہو گا تو سیاسی جماعت کا مقصد ختم ہو جائے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’سوال یہ ہے کہ کیا اس وقت الیکشن کروانا ملک کے مفاد میں ہے؟ اور سب سے اہم بات یہ کہ کیا دو صوبوں میں ہونے والے الیکشن کو کوئی مانے گا؟ کوئی نہیں مانے گا۔ تو پھر الیکشن کرانے کا فائدہ کیا ہو گا؟ ضرورت یہ ہے کہ ایک ہی وقت میں پورے ملک میں الیکشن کروائے جائیں‘۔

تاہم اس سارے سیاسی جھگڑے کے دوران اگر کوئی مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے تو وہ عام شہری ہیں۔

اس پوری صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک خاتونِ خانہ نے کہا کہ ’نہ پہلے آنے والوں نے کچھ کیا اور نہ بعد میں آنے والوں نے۔ دوبارہ آنے والے کیا کر لیں گے۔ کسی کو بھی پاکستان کے معاشی مستقبل یا موجودہ حالات کی فکر نہیں ہے۔ فکر ہے تو صرف کرسی کی، اپنی طاقت کی‘۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More