ورلڈ سٹارٹ اپ کنونشن: انڈیا کا کاروباری میلہ جو پہلے ہی دن سکینڈل کا شکار ہو گیا

بی بی سی اردو  |  Apr 12, 2023

مارچ میں، سینکڑوں ابھرتے ہوئے کاروباری افراد تین روزہ کنونشن میں شرکت کے لیے انڈیا کے دارالحکومت دہلی کے نواحی علاقے نوئیڈا میں آئے جسے ’دنیا کا سب سے بڑا فنڈنگ فیسٹیول‘ قرار دیا جا رہا تھا۔

سٹارٹ اپ یا نئے کاروبار شروع کرنے کے شوقین بانیوں نے ورلڈ سٹارٹ اپ کنونشن (ڈبلیو ایس سی) میں کاروباری لیڈروں کے ساتھ کندھےسے کندھا ملانے کے منتظر تھے، اس امید پر کہ ان کی 15 منٹ کی پچ فنڈنگ میں تبدیل ہو جائے گی۔

سنہ 2021اور 2022 کے بیشتر حصے میں، انڈیا کا سٹارٹ اپ ایکو سسٹم فنڈز سے بھرا ہوا تھا کیونکہ کمپنیوں نے ریکارڈ رقم اکٹھی کی اور کئی کاروباریوں کو راتوں رات کروڑ پتی بنا دیا۔ لیکن عالمی سر گرمیوں نے سرمایہ کاروں کو زیادہ محتاط کر دیا تھا، اور سرمائے کی کمی ہو گئی تھی۔

اسی لیے ڈبلیو ایس سی سے توقعات زیادہ تھیں۔ لیکن 24 مارچ کو شروع ہونے والے ایونٹ کے چند گھنٹوں کے اندر ہی معاملات افراتفری کا شکار ہو گئے۔ بہت سے شرکا اور کچھ سپانسرز نے الزام لگایا ہے کہ انھیں جھوٹے وعدوں سے لالچ دیا گیا اور دھوکہ دیا گیا۔ منتظمین اس کی تردید کرتے ہوئے کچھ کاروباری افراد پر کنونشن میں خلل ڈالنے کا الزام لگاتے ہیں۔

ایونٹ کے پہلے دن، سچن چوہان اور ان کی ٹیم پہنچی۔ شمالی ریاست ہریانہ کے ایک کاروباری سچن چوہان نے فروری میں سوشل میڈیا پر ڈبلیو ایس سی کے اشتہارات دیکھنے کے بعد اس تقریب کے لیے پاس خریدے تھے۔

ڈبلیو ایس سی کی ویب سائٹ کے مطابق، وفاقی وزیر ٹرانسپورٹ نتن گڈکری اور وزیر صحت منسکھ منڈاویہ سمیت اعلیٰ انڈین سیاست دان مہمان خصوصی میں شامل تھے۔ دیگر مہمانوں میں ریاست کے وزرائے اعلیٰ اور وزرا شامل تھے، سبھی حکومت کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تھے۔ نتن گڈکری کے ٹوئٹر اور انسٹاگرام صفحات نے پر اس تقریب میں ان کی تقریر کے بارے میں پوسٹ کیا تھا۔

مختصر پرومو ویڈیوز میں انکور واریکو، پرفل بلور، راج شامانی اور مصنف چیتن بھگت جیسے مقبول متاثر کن افراد کو نمایاں کیا گیا تھا۔ تشہیری مواد میں کہا گیا ہے کہ 1,500 وینچر کیپیٹلسٹ، 9,000 سرمایہ کاروں اور 75,000 سٹارٹ اپس کی شرکت متوقع ہے۔ اسے ممکنہ گاہکوں، نیٹ ورک اور سرمایہ کاروں سے براہ راست ملنے کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر بیان کیا گیا تھا۔

سچن چوہان، بائیک سروسنگ اینڈ ریپیئر ایپ ’اپنا مکینک‘ کے شریک بانی ہیں انھوں نے اپنے اور چار ساتھیوں کے لیے ٹکٹ خریدنے کے لیے 20,000 روپے خرچ کیے۔

وہ ممکنہ سرمایہ کاروں کے لیے ایک پریزنٹیشن لے کر پہنچے۔ تاہم، ان کا جوش زیادہ دیر تک قائم نہیں رہا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’گھنٹوں گزر گئے اور ہمیں بمشکل کوئی سرمایہ کار دیکھا۔‘

سٹارٹ اپ ریپروک کے بانی بھیرو جین نے انڈیا کی جنوبی ریاست تامل ناڈو سے دلی تک ہزاروں کلومیٹر کا سفر کیا تھا۔

بھیرو جین کا کہنا ہے کہ ’سٹارٹ اپ کے بانیوں کی تو بھیڑ تھی۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ وہاں ایک بھی شخص ایسا تھا جو سرمایہ کار تھا۔‘

دوپہر 1.30 بجے تک، نتن گڈکری کا ایک طے شدہ ورچوئل خطاب منسوخ کر دیا گیا تھا اور شرکا میں بے چینی کی لہر پھیل رہی تھی۔

بہت سے لوگ سٹیج کے گرد جمع ہونا شروع ہو گئے اور وضاحت طلب کرنے لگے۔

سچن چوہان کہتے ہیں، ’لوگوں نے سوال پوچھنا شروع کر دیا کہ سرمایہ کار کہاں ہیں اور یہ افراتفری کا شکار ہو گیا کیونکہ ان کے پاس جوابات نہیں تھے۔‘

دن کے اختتام تک، سچن چوہان اور بھیرو جین سمیت 19 کاروباریوں کے ایک گروپ نے منتظمین پر دھوکہ دہی اور اعتماد کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے پولیس میں شکایت درج کرائی تھی۔

لیوک تلوار اور ارجن چودھری، QFunder Pvt Ltd کے شریک بانی جس نے ڈبلیو ایس سی کا اہتمام کیا، انھوں نے تمام الزامات کی تردید کی۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بی جے پی مخالف ایجنڈے‘ کے ساتھ ایک گروپ نے تقریب میں بد مزگی پیدا کی جس سے وہ پولیس کو بلانے پر مجبور ہوئے۔

اس بارے میں وزرا اور بی جے پی نے کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔

ارجن چودھری کا کہنا ہے کہ نتن گڈکری کا خطاب اس گروپ کی طرف سے ہونے والے ہنگامے کی وجہ سے منسوخ کر دیا گیا تھا، انھوں نے مزید کہا کہ کنونشن کا بقیہ منصوبہ پولیس کے ساتھ سکیورٹی فراہم کرنے کے ساتھ مکمل ہوا۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’سرمایہ کار شاید تعداد میں کم تھے لیکن وہ وہاں موجود تھے۔‘

ان کے مطابق، ان لوگوں میں انڈیا کا سب سے بڑا پرائیویٹ سیکٹر کا بینک آئی سی آئی سی آئی بینک، سرمایہ کاری فرمیونیکورن انڈیا وینچرز، فنانشل سرورز کمپنی بجاج فنسرو اور سافٹ ویئر ٹائیکون عظیم پریم جی کی ملکیت پرائیویٹ ایکویٹی فنڈ پریمجی انویسٹ شامل تھے۔

لیکن سچن چوہان کا کہنا ہے کہ اس تقریب میں زیادہ تر سٹارٹ اپس کے بانی شامل تھے جو سٹیج پر خود کو دوسرے سٹارٹ اپ بانیوں کے سامنے پیش کرتے رہے۔’اس کا کیا فائدہ ہوا؟‘

ناراض شرکا نے سوشل میڈیا پرڈبلیو ایس سیمیں اپنے تجربات کے بارے میں سخت پوسٹس لکھی ہیں اور گوگل پر منفی تاثرات چھوڑے ہیں۔

کئی کمپنیوں نے یہ بھی کہا ہے کہ انھیں ایونٹ کو سپانسر کرنے میں گمراہ کیا گیا تھا۔ انکور واریکو اور راج شمانی، جن کے سوشل میڈیا پر لاکھوں فالورز ہیں، ڈبلیو ایس سی پر الزام لگاتے ہیں کہ ان کی ویڈیوز بغیر اجازت پروموشن کے لیے استعمال کی گئیں، جس کی منتظمین تردید کرتے ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ وہ معاملے کی تفتیش کر رہے ہیں۔ ابھی تک کسی کو گرفتار یا حراست میں نہیں لیا گیا ہے۔

بنگلور میں قائم ایک پیکیجنگ برانڈ بامبریو اس سے بہت مایوس ہے، جس کے بانی کا کہنا ہے کہ اس نے ایونٹ کو سپانسر کرنے کے لیے 45,000 ڈالر خرچ کیے ہیں۔

کمپنی کے بانی ویبھو اننت کہتے ہیں، ’ہم اس جال میں پھنس گئے اور نہ صرف سپانسر بننے میں بلکہ لوگوں میں تقسیم کرنے کے لیے ایک سیٹ اپ اور نمونے بنانے میں بھی بہت زیادہ سرمایہ کاری کی۔‘

سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ پلیٹ فارمBuilder.ai، ایک اور سپانسر ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ ڈبلیو ایس سیمیں ہونے والے واقعات سے ’انتہائی مایوس‘ ہیں۔

کمپنی کے ترجمان نے کہا، ’ہم نے منتظمین سے وضاحت کے ساتھ ساتھ رقم کی واپسی کی درخواست کی، اور اس ایونٹ اور ان کے چینلز سے اپنا نام اور برانڈ ہٹانے کی درخواست کی،‘ تاہم انھیں جواب نہیں دیا گیا۔

اس کمپنی کا نام اور لوگو ڈبلیو ایس سی کی ویب سائٹ پر اب بھی نمایاں ہوتے رہتے ہیں۔

دوسرے سپانسرز نے بھی انھیں خطوط پر ٹویٹ کیا ہے۔

تاہم منتظمین نے احتجاج کرنے والے کاروباری افراد کو سپانسرز اور اثر و رسوخ کے ردعمل کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

ارجن چودھری کہتے ہیں کہ وسیع پیمانے پر میڈیا کوریج نے ’ہماری زندگیوں کو تباہ کر دیا ہے۔‘

کچھ سپانسرز اور شرکا نے کہا کہ وہ اس تاثر میں تھے کہ انڈین وزیر اعظم نریندر مودی، الفابیٹ کے سی ای او سندر پچائی اور ٹویٹر کے سربراہ ایلون مسک جیسے بڑے نام شرکت کریں گے۔ لیکن منتظمین کا کہنا تھا کہ ان کی تصاویر جنوری کے لیے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے لیے استعمال کی گئی تھیں۔

رگھومانیو تنیجا، ایک وکیل جو ڈبلیو ایس سی میں نیٹ ورک کی امید میں تھے اور اب اس گروپ کی نمائندگی کر رہے ہیں جس نے پولیس شکایت درج کرائی تھی، کہتے ہیں کہ اس تقریب پر ان کا اعتماد انکور واریکو جیسے اثرورسوخ کی شمولیت سے ہوا تھا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اب انھیں انڈیا میں توثیق کے قوانین کے تحت جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

انکور واریکو تاہم اس کی تردید کرتے ہیں۔ انھوں نے ایک ٹیکسٹ پیغام میں کہا، ’میں ان تمام لوگوں کو ذاتی طور پر جواب دے رہا ہوں جو لکھ رہے ہیں اور میڈیا کے ساتھ اپنا رسمی ردعمل شیئر کر رہے ہیں۔‘

کاروباریوں کی طرف سے درج کی گئی پولیس شکایت میں منتظمین پر ایک کروڑ 20 لاکھ ڈالر کا گھپلہ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ گروپ کی جانب سے اس رقم کا اندازہ لوگوں اور سٹارٹ اپس کے ایونٹ میں شرکت کی بنیاد پر لگایا گیا ہے۔

لیکن ارجن چودھری کہتے ہیں کہ تقریب سے ڈبلیو ایس سی کی کل آمدنی اس رقم کا ایک حصہ تھی۔

وہ سوال کرتے ہیں کہ ’اگر یہ واقعی ایک سکینڈل تھا، تو ہم ایک تقریب کا انعقاد بھی کیوں کریں گے جہاں لوگوں کو چند گھنٹوں میں اس کے بارے میں پتہ چل جائے؟ کیا مجھے پیسے لے کر بھاگنا نہیں چاہیے تھا؟‘

لیوک تلوار کے مطابق، تقریب میں 4,000 شرکا تھے۔ ڈبلیو ایس سی نے اپنی ویب سائٹ پر سٹارٹ اپس کی جانب سے کی گئی توثیق بی بی سی کو دکھائی۔ تاہم کسی نے بھی اس رقم کا ذکر نہیں کیا جو انھوں نے جمع کروائی تھی۔

شکایت کنندگان کا کہنا ہے کہ وہ واٹس ایپ گروپ پر اپنے اگلے اقدام کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، جبکہ ڈبلیو ایس سی کے منتظمین کا کہنا ہے کہ وہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More