Getty Images
وہ سات اگست 2021 کی ایگ گرم دوپہر تھی جب لاہور کے علاقے مغلپورہ میں واقع صحافی اور یوٹیوبر عمران شفقت کی رہائش گاہ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔
ایک خاتون نے دروازہ کھلنے پر سوال کیا کہ ’کیا یہ عمران شفقت کا گھر ہے‘ اور اس کے ساتھ ہی اس خاتون کے عقب سے ایک شخص نے گھر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔
عمران کے مطابق اس شور شرابے میں جب وہ کمرے سے باہر نکلے تو سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے مجھے پکڑا اور گھر سے نکال کر باہر مرکزی سڑک تک لے آئے۔
عمران شفقت کو اس طرح سے جبراً حراست میں لینے والی ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے اہلکار تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’مجھے ایسے پکڑا گیا جیسے کسی دہشتگرد کو پکڑا جاتا ہے۔ اس وقت کچھ سمجھ نہیں آیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور میرے گمان میں بھی نہیں تھا کہ میرے خلاف کوئی مقدمہ ہے‘۔
عمران کے مطابق انھیں گلبرگ میں سائبر کرائم ونگ کے تھانے لے جایا گیا اور راستے میں بتایا گیا کہ ان کے خلاف اعلیٰ عدلیہ کے ججوں، پاکستان کی فوج اور خواتین خصوصاً وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ سے متعلق تضحیک آمیز رویے کی شکایات ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ تھانے پہنچے تو کچھ دیر بعد ایف آئی اے کے انسپیکٹر نے مجھ سے کہا ’ہمیں آپ سے کوئی مسئلہ نہیں، آپ کی صحافت پر کچھ اعتراضات ہیں اور ریاست آپ کے خلاف مدعی ہے‘۔
اس دن عمران شفقت کے ساتھ ایک اور صحافی کو بھیپکڑ کر ایف آئی اے کے دفتر لایا گیا تھا۔ وہ عامر میر تھے جو آج پنجاب کی نگران کابینہ میں وزیر اطلاعات ہیں۔
عمران شفقت کے مطابق ایف آئی اے کے حکام نے انھیں اور عامر میر سے کہا کہ ’آپ ہمیں تحریری طور پر لکھ کر دیں کہ آئندہ یہ کام نہیں کریں گے تو ہم نے سوال کیا کہ کیا کام نہیں کریں گے؟ تو وہ بولے خبریں نہیں دیں گے‘۔
ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انھیں کہا گیا کہ آپ معافی مانگ لیں اور لکھ کر دیں کہ آئندہ ایسا نہیں کریں گے تو ہم نے کہا کہ ’آپ کارروائی کریں ہم نے کچھ غلط نہیں کیا اور ہم معافی نہیں مانگیں گے‘۔
عمران شفقت کے مطابق جبری حراست اور تفتیش کا یہ عمل چار گھنٹے تک چلا تاہم اس دوران انھیں کوئی ایف آئی آر نہیں دی گئی اور پھر انھیں سینیئر صحافی سہیل وڑائچ کی شخصی ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
عمران کا کہنا ہے کہ اس دن سے لے کر آج تک ان کے خلاف اس مقدمے کی کارروائی عمل میں نہیں آئی۔
’ہم کسی عدالت میں پیش ہوئے نہ ہی ضمانت کی درخواست دی لیکن میری اطلاعات کے مطابق وہ مقدمہ آج بھی ایف آئی اے کے ریکارڈ میں موجود ہے‘۔
عمران شفقت کے خلاف جب یہ کارروائی ہوئی تو ملک میں تحریک انصاف کی حکومت تھی اور عمران خان وزیراعظم کی کرسی پر براجمان تھے۔
اگلا منظر اس واقعے کے ڈیڑھ برس بعد یعنی مارچ 2023 کا ہے۔ عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوئے ایک برس ہونے کو ہے اور ملک میں شہباز شریف کی سربراہی میں پی ڈی ایم کی حکومت ہے۔
23 مارچ کی دوپہر جب سوشل میڈیا کے لیے عمران خان کے فوکل پرسن اظہر مشوانی گھر سے زمان پارک جانے کے لیے نکلے تو ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ وہ اپنی منزل تک نہیں پہنچ پائیں گے اور پھر ایک ہفتے تک ان کی تلاش کا عمل جاری رہے گا۔
23 مارچ کو لاپتہ ہونے والے مشوانی نے 31 مارچ کو ٹوئٹر پر اپنی بخیریت واپسی کا اعلان کچھ یوں کیا ’الحمدللہ میں ابھی بخیر و عافیت گھر واپس پہنچ چکا ہوں۔۔۔ میری دعا ہے کہ ہمارے دیگر اسیر کارکنان بھی جلد اپنے اہلخانہ کے ساتھ افطاری کریں‘۔
اظہر مشوانی نے واپسی کے بعد لاہور ہائیکورٹ میں اپنے اغوا سے متعلق جمع کرائے گئے بیان میں کہاکہ انھیں ٹاؤن شپ کے علاقے اکبر چوک کے قریب ’پنجاب پولیس کی وردی اور سادہ کپڑوں میں ملبوس نامعلوم افراد‘ نے حراست میں لیا تھا۔
بیان کے مطابق ان کی آنکھوں پر پٹی باندھنے کے بعد سر پر کپڑا ڈال کر انھیں لے جایا گیا اور ان کا موبائل فون ضبط کر لیا گیا۔
انھوں نے عدالت کو دیے گئے بیان میں کہا کہ ’دورانِ حراست انھیں روزے کی حالت میں چھ سے آٹھ گھنٹے تک ایک لکڑی کی کرسی پر زنجیروں والی ہتھکڑی سے باندھ کر سوالات کیے گئے‘ اور ان سے تحریکِ انصاف کے سوشل میڈیا اور زمان پارک میں ہونے والی سرگرمیوں کے بارے میں پوچھا جاتا رہا۔
بیان کے مطابق دوران حراست اظہر مشوانی کا تین بار پولی گراف ٹیسٹ کیا گیا جس میں بار بار چند مخصوص ٹوئٹر ہینڈلز اور اکاؤنٹ چلانے کے بارے میں پوچھا گیا۔
انھوں نے اپنے بیان میں الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ انھیں لے جانے والوں کا کہنا تھا کہ انھیں ’ڈی جی ایف آئی اے اور وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے احکامات پر اٹھایا گیا اور جب تک وہ نہیں چاہیں گے مجھے مغوی رکھا جائے گا‘۔
عمران شفقت اور اظہر مشوانی کے ساتھ یہ سلوک مختلف سیاسی جماعتوں کے ادوار میں ہوا مگر اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان ادوار میں چہرے تو بدلے لیکن اظہار رائے پر پابندی کی پالیسیاں وہی رہیں۔
2018 میں ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی عمران خان کی اس حکومت کوچار برس سے زیادہ کا وقت ملا اور اس دوران اس پر متواتر آزادی اظہارِ رائے پر قدغنیں لگانے، صحافیوں کو دباؤ میں لانے اور ان کے خلاف کارروائیوں کے الزامات لگتے رہے۔
سنہ 2022 میں عدم اعتماد کے نتیجے میں تحریکِ انصاف کی حکومت کے خاتمے اور شہباز شریف کی سربراہی میں ایک اتحادی حکومت کے قیام کے بعد خیال یہی تھا کہ یہ حکومت اظہارِ آزادی رائے اور حکومت مخالف بیانیہ رکھنے والے صحافیوں، ویلاگرز اور یو ٹیوبرز سے وہ رویہ روا نہیں رکھے گی جس کی وہ گذشتہ چار برس سے کھل کر مخالفت کرتی آئی ہے۔
تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگانے کی پالیسی ہی گذشتہ حکومت کی وہ واحد پالیسی ہے جو پی ڈی ایم کی موجودہ حکومت نے زور و شور سے جاری رکھی ہوئی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے دور میں پابندیوں کا سامنا کرنے والے صحافی اور اینکر پرسن حامد میر کا کہنا ہے کہ صحافیوں اور سوشل میڈیا پر حکومت اور ریاستی اداروں کے خلاف آواز اٹھانے والوں پر پابندیاں عائد کرنے میں حکومت وقت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں۔
’پہلے پی ٹی آئی اور ملٹری اسٹیلشمنٹ ایک پیج پر تھی اب اسی پیج پر پی ڈی ایم نے پی ٹی آئی کی جگہ لے لی ہے۔‘
پاکستان تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ پی ڈی ایم کے دور حکومت میں جماعت کے تین ہزار سے زیادہ کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے، جن میں سے بڑی ان کی ہے جو سوشل میڈیا پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بات کرتے تھے۔
عمران خان کے دور میں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے مخالفین کی آواز کو دبانے کے لیے بغاوت کے قانون کے استعمال کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ پی ڈی ایم کے دور میں بھی جاری رہا ہے اور صحافیوں اور اینکر پرسنز کے خلاف جتنے بھی مقدمات درج ہوئے ان میں اس قانون کی دفعات کو بھی شامل کیا گیا۔
پی ڈی ایم کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنوں اور بالخصوص سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کے خلاف بڑے پیمانے پر پہلی مرتبہ آپریشن اس وقت شروع کیا گیا جب اگست 2022 میں فوجی ہیلی کاپٹر کے حادثے میں سدرن کمان کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل سرفراز خان کی ہلاکت کے بعد مبینہ طور پر سوشل میڈیا پر تحریکِ انصاف کے حامی افراد کی جانب سے مختلف ٹویٹس کے ذریعے اس تاثر کو تقویت دینے کی کوشش کی گئی کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو گرانے کے لیے مبینہ طور پر غیر ملکی سازش میں جن کرداروں نے اہم کردار ادا کیا وہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئے ہیں۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق اس نوعیت کی ٹویٹس کرنے والے چھ افراد کو حراست میں لیا گیا جس کے بعد ان ٹویٹس کو ان کے سوشل میڈیا اکاونٹس سے ڈیلیٹ کردیا گیا۔
ایف آئی اے سائبر ونگ کے حکام کے مطابق اس معاملے میں 30 سے زائد ایسے افراد کو گرفتار بھی کیا گیا، جن کے سوشل میڈیا اکاونٹس اس واقعہ سے متعلق چلائی جانے والی مہم میں استعمال ہو رہے تھے۔ سائبر کرائم ونگ کے حکام کا دعویٰ ہے کہ اس واقعے میں بہت سارے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بیرون ممالک سے بھی چل رہے تھے۔
حکام کے مطابق اس واقعہ میں ملوث جتنے افراد کو گرفتار کیا گیا تھا اگرچہ ان کی ضمانتیں ہو چکی ہیں لیکن اس مقدمے کی کارروائی متعلقہ عدالت میں چل رہی ہےاور اس مقدمے کا چالانعدالت میں پیش کردیا گیا اور اس مقدمے کا جلد فیصلہ متوقع ہے۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق پی ڈی ایم کے حکومت میں آنے کے بعد سے ملک بھر میں سائبر کرائم سے متعلقہ 1469 مقدمات درج کیے گئے تھے جن میں سے تین سو سے زائد مقدمات سوشل میڈیا پرریاستی ادارں کے خلاف نفرت اور جھوٹا مواد پھیلانےسے متعلق ہیں جبکہ رواں سال کے پہلے دو ماہ میں ریاستی اداروں اور ان کے سربراہوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے پر 17 مقدمات درج کیے گئے اور ان میں ملوث 14 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
اس معاملے میں پاکستانی میڈیا پر ایسی ویڈیوز بھی نشر کی گئیں جن میں مختلف افراد کو تحریکِ انصاف سے اپنے تعلق کا اعتراف اور اس مہم میں شامل ہونے پر اظہارِ ندامت کرتے دیکھا جا سکتا تھا۔
Getty Images
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے سابق ترجمان افتخار درانی کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کی جانب سے اظہار رائے کی آزادی کو دبانے کے اقدامات کی وجہ سے ان کی جماعت کے ہزاروں کارکن اور ان کے اہلخانہ ’حکمراں اتحاد کا جبر برداشت کر رہے ہیں‘۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے دعویٰ کیاکہ صوبہ سندھ میں پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ونگ کے آٹھ اہم ارکان کو حراست میں لیا گیا جبکہ صوبہ پنجاب سے چھ اور خیبر پختونخوا سے سات افراد کو حراست میں لیا گیا اور ان افراد کے خلاف فوج اور دیگر ریاستی اداروں اور ان کے سربراہوں کے خلاف سوشل میڈیا پر باقاعدہ مہم چلانے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
گذشتہ ایک برس کے دوران جہاں سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کے خلاف ریاست اور اس کے اہم اداروں اور ان کے افسران کے خلاف ’ہرزہ سرائی‘ پر کارروائیاں ہوئیں وہاں صحافی بھی اس سے محفوظ نہیں رہے۔
پی ڈی ایم کی حکومت آنے کے بعد ایسے کئی صحافی ملک سے چلے گئے جو عمران خان کے دورِ حکومت میں مختلف نجی ٹی وی چینلز پر نشر کیے جانے والے ٹاک شوز میں حکومت کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے رہے تھے اور حکومت کی تبدیلی کے بعد پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے بڑے ناقد بن گئے۔
ملک چھوڑ کر جانے والے اہم ناموں میں صابر شاکر اور ارشد شریف جیسے صحافی شامل تھے۔ ارشد شریف تو پاکستان چھوڑنے کے کچھ عرصہ بعد کینیا میں قتل کر دیے گئے اور ان کی ہلاکت کی تحقیقات تاحال جاری ہیں۔ ارشد شریف کے ملک چھوڑنے سے پہلے ان کے خلاف بلوچستان اور سندھ کے مختلف شہروں میں بھی بغاوت پر اکسانے کے مقدمات درج کیے گئے تھے۔
Getty Images ارشد شریف تو پاکستان چھوڑنے کے کچھ عرصہ بعد کینیا میں قتل کر دیے گئے اور ان کی ہلاکت کی تحقیقات تاحال جاری ہیں
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کا کہنا ہے کہ ارشد شریف کے قتل میں فوج کا کوئی کردار نہیں۔ وفاقی حکومت نے ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ اسلام آباد میں درج کر رکھا ہے اور اس مقدمے میں نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کے مالک سلمان اقبال بھی نامزد ہیں۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے صحافی شاہد اسلم بھی اسی سلسلے کی ایک مثال ہیں جنھیں موجودہ حکومت کے دور میں ایف آئی اے نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے اہلخانہ سے متعلق ٹیکس معلومات حاصل کر کے اسے فیکٹ فوکس نامی ویب سائٹ سے منسلک صحافی احمد نورانی کو بھیجنے کے الزام میں گرفتار کیا تاہم بعدازاں انھیں ضمانت پر رہائی مل گئی۔
یہی نہیں بلکہ پی ڈی ایم کے اس ایک سالہ دور میں مین سٹریم صحافت سے ہٹ کر سوشل میڈیا کو اپنے خیالات کی ترویج کے لیے استعمال کرنے والے ایسے یوٹیوبرز کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جو کھل کر تحریکِ انصاف اور عمران خان کے مؤقف کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔
وہ اینکر عمران ریاض خان ہوں یا صدیق جان ان جیسے متعدد افراد کو ’ریاست اور اس کے اہم اداروں کی مخالفت اور ان پر الزام تراشی‘ جیسے الزامات پر ایف آئی اے کی جانب سے طلبی کے نوٹسوں اور مختلف معاملات میں حراست میں لیے جانے کے بعد عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا جہاں سے انھیں ریلیف ملتا رہا۔
عمران ریاض کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں ایک درجن سے زائد مقدمات درج ہوئے اور ان مقدمات میں انھیں اٹک اور چکوال پولیس نے گرفتار بھی کیا تاہم بعدازاں انھیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ بی بی سی نے ان معاملات پر عمران ریاض کا مؤقف جاننے کے لیے ان سے بارہا رابطہ کیا لیکن انھوں نے اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔
پاکستان میں صحافیوں کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی ایگزیکٹیو رکن فوزیہ شاہد کا کہنا ہے کہ صحافیوں سے متعلق میڈیا پالیسی گذشتہ کئی دہائیوں سے ایسی ہی چل رہی ہے لیکن کچھ عرصے کے دوران اس میں تبدیلی یہ آئی ہے کہ اظہار رائے کی آزادی پر پابندی عائد کرنے کے لیے صحافیوں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کی حکومت نے اس سلسلے میں سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کی پالیسی کو جاری رکھا ہوا ہے۔
صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کا بھی کہنا ہے کہ صرف چہرے بدلے ہیں قوانین وہی کے وہی ہیں جنھیں ’ڈریکونین لا‘ کہا جا سکتا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگاپنے مخالفین کی آواز کو دبانے کے لیے پیکا کا قانون لائی تو دوسری طرف پی ٹی آئی پیکا آرڈریننس لے کر آ گئی جو کہ پیکا کے قانون سے بھی سخت تھا۔
انھوں نے کہا کہ سابق وفاقی اطلاعات فواد چوہدری کا بیان ابھی بھی ریکارڈ پر ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ نواز پیکا قانون پر عمل درآمد نہیں کروا سکی جبکہ پی ٹی آئی کی حکومت اس قانون پر مکمل طور پر عمل درآمد کروائے گی۔
انھوں نے کہا کہ حکومت مخالف صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کے خلاف جس طرح جمہوری حکومتوں کے ادوار میں بغاوت پر اکسانے کے قانون کا بے دریغ استعمال کیا گیا، اس کی مثال نہیں ملتی۔
’حکومتی ادارے آئین اور قانون کے مطابق کام کر رہے ہیں‘
بی بی سی نے جب پی ڈی ایم کی حکومت کی جانب سے ان اقدامات کے بارے میں وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’ریاست پہلے اور سیاست بعد میں آتی ہے‘۔
انھوں نے کہا کہ اگر سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں کے سربراہوں کی کردارکشی کی جائے گی اور اگر ریاست ایسے معاملات میں خاموشی اختیار کرے تو ایسا عمل اسے کمزور کرنے کے مترداف ہے۔
وزیرِ داخلہ نے کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے ان کے کارکنوں یا ہمدردوں کو کسی ایجنڈے کے تحت نشانہ بنائے جانے کے الزامات درست نہیں۔
ان کے مطابق ’ایف آئی اے اور دیگر اداروں کو یہ واضح ہدایات ہیں کہ صرف ان افراد کے خلاف ہی قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے جو اداروں اور ان سے وابستہ افراد کی کردار کشی میں ملوث ہیں۔
وزیر داخلہ نے دعویٰ کیا کہ جن افراد کے خلاف بھی ایف آئی اے نے کارروائی کی ہے وہ ٹھوس بنیاد اور ناقابل تردید شواہد کی روشنی میں ہوئی ہے۔
رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ’بہت سی ایسی ویڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں جس میں ذمہ داروں نے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ وہ دوبارہ سوشل میڈیا پر ایسی کسی مہم کا حصہ نہیں ہوں گے جو کسی ادارے یا کسی شخصیت کی کردار کشی سے متعلق ہو‘۔