آئی ڈی اے: سینکڑوں پاکستانیوں کو چکمہ دے کر کروڑوں روپے لے کر غائب ہونے والی ایپ

بی بی سی اردو  |  Apr 12, 2023

گذشتہ جمعے کی شام وسطی پنجاب کے چند شہروں سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد کی نظریں ایک واٹس ایپ گروپ پر ٹکی ہوئی تھیں جہاں طویل وائس نوٹس کے ذریعے انھیں ’سب اچھا‘ کی رپورٹ دی جا رہی تھی۔

یہ گروپ آئی ڈی اے نامی ایپ استعمال کرنے والے صارفین پر مبنی تھا اور یہ وائس نوٹس اس گروپ کو چلانے والے سینیئر مینیجرز کی جانب سے ’ایپ میں تکنیکی خرابی‘ کے سبب بھیجے جا رہے تھے۔

ان کی آوازوں میں اطمینان تھا اور وہ تفصیل سے صورتحال سمجھا رہے تھے۔ اس ایپ میں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے والے صارفین کے پاس ان پر اعتبار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔

اس صورتحال کی مثال ڈوبتے ٹائٹینک پر وائلن بجانے والوں جیسی تھی کیونکہ اگلے چند گھنٹوں میں آئی ڈے اے نامی ایپ پاکستانیوں کی کروڑوں کی جمع پونجی سمیٹ کر غائب ہونے والی تھی۔

مارچ کے مہینے کے اواخر تک سیالکوٹ میں ایک کمپنی میں کام کرنے والے چند نوجوان اس ایپ کو اپنے کریئرز میں ایک گیم چینجر کے طور پر دیکھ رہے تھے۔

ان میں سے ایک خاتون علیشبہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان کی بگڑتی معاشی صورتحال اور مہنگائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت سب یہی چاہتے ہیں کہ جہاں سے اضافی آمدن آ رہی ہے وہ کسی بھی طرح آ جائے کیونکہ آپ کو پتا ہے پاکستان کے کس طرح کے حالات ہیں۔‘

علیشبہ اس ایپ کے ذریعے تین مرتبہ رقم نکلوا بھی چکی تھیں لیکن حالیہ دنوں میں ایپ میں ایک منافع بخش سکیم لانچ ہونے پر انھوں نے سب کچھ داؤ پر لگا دیا اور اب ان کے مطابق ’جتنے لگائے تھے اس سے زیادہ نکل گئے۔‘

علیشبہ کے اپنے لگ بھگ چھ لاکھ جبکہ ان کے پورے خاندان کے 15 لاکھ روپے آئی ڈے اے فراڈ نگل چکا ہے۔

گوجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات اور وزیرِ آباد سمیت کئی شہروں کے سینکڑوں باسیوں کی صورتحال علیشبہ جیسی ہے۔

فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کی ترجمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’تاحال ان کے پاس اس سلسلے میں کوئی شکایات موصول نہیں ہوئی ہیں۔‘

اس لیے اس فراڈ میں ایپ صارفین کو ہونے والے نقصان کا درست تخمینہ فی الحال نہیں لگایا جا سکتا تاہم متاثرین سے بات کرنے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ رقم کروڑوں روپے ہو سکتی ہے۔

آئی ڈی اے ایپ کے ذریعے لوگوں کو ’منافع‘ کیسے ملتا تھا؟

یہ تمام افراد گذشتہ کئی ماہ سے ایک ایسی موبائل ایپلیکیشن میں پیسے لگا رہے تھے جسے کرپٹو کرنسی انٹیلیجنٹ ڈیٹا اینالٹکس کارپوریشن آئی ڈی اے کہا جاتا تھا۔

کرپٹوکرنسی اور ٹریڈنگ سے منسلک کئی ایپس اور ویب سائٹس ایسی ہیں جن کا استعمال پاکستان میں ممنوع ہونے کے باوجود بھی کیا جا رہا لیکن اس ایپ میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ اس نے سینکڑوں افراد کی دن دیہاڑے جیب کاٹ لی۔

اس ایپ کے پیچیدہ طریقہ کار کے بارے میں جان کر مصنف چارلس کیلب کاٹن کا یہ قول یاد آتا ہے کہ ’کچھ فراڈ اتنے بہترین انداز میں کیے جاتے ہیں کہ ان کی وجہ سے دھوکا نہ کھانا بھی حماقت ہوتی ہے۔‘

علیشبہ کی طرح ان کے دفتر میں کام کرنے والے سمیر کو بھی اس ایپ کی جانب راغب کرنے والے ان کے کولیگ ہی تھے۔ سمیر کو کل چھ لاکھ کا نقصان اٹھانا پڑا۔

اس ایپ کو ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے چند ماہ پہلے تک ایک لنک دیا جاتا تھا جہاں سے اس کی اے پی کی فائل ڈاؤن لوڈ کی جاتی تھی تاہم مارچ کے مہینے میں یہ ایپ گوگل پلے سٹور پر بھی دستیاب تھی۔

ڈاون لوڈ کرنے کے بعد اس ایپ کا ایک پیچیدہ شناخت اور تصدیق کرنے کا عمل تھا، جس میں شناختی کارڈ کے فرنٹ اور بیک یہاں تک کہ ہاتھ میں شناختی کارڈ پکڑ کر تصویر بنوا کر بھجوانی ہوتی تھی۔

سمیر بتاتے ہیں کہ ’کچھ منٹ کی ویریفیکیشن کے بعد آپ کا اکاؤنٹ بن جاتا تھا اور پھر آپ کو شروعات میں لیول وی ون دیا جاتا تھا۔‘

یعنی یہ ایک گیم کی طرح تھا جس میں ہر گزرتے لیول کے ساتھ منافع کی شرح بڑھتی چلی جاتی تھی۔

سمیر اس کی تفصیل بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’شروعات میں اگر آپ 130 ڈالر جمع کرواتے تھے تو ایپ کی طرف سے آپ کو 15 ڈالر کا انعام ملتا تھا۔ یہ رقم آپ بائنانس کے ذریعے آئی ڈے اے میں منتقل کرتے تھے۔‘

بائنانس دراصل کرپٹو سمیت دیگر کرنسیوں کی ٹریڈنگ کی ایک ایپ ہے، جس کی دنیا بھر میں خاصی شہرت ہے۔

سمیر بتاتے ہیں کہ ’اس کے بعد آپ کو روزانہ 30 کلک کرنے ہوتے تھے، ایک کلک کا مطلب 0.2 سے 0.3 ڈالر ہوتا تھا، یوں آپ کے ایک دن میں چار سے پانچ ڈالر بنتے تھے۔

’ایک کلک کرنے کے بعد چار منٹ تک آپ کے ایسٹس زیرو ہو جاتے تھے، اس کی توجیہ یہ پیش کی جاتی تھی کہ یہ رقم دراصل آگے انویسٹ کی جاتی ہے، اس لیے جب یہ واپس آتی ہے تو اس پر لگنے والا منافع آپ کو ملتا ہے۔‘

اس ایپ میں کچھ دلچسپ شرائط بھی تھیں جن میں سے کچھ شرائط اس کی زبردست مارکیٹنگ کی وجہ بنیں۔

سمیر بتاتے ہیں کہ ’وی ون لیول میں وہ آپ کو 90 دن دیتے تھے، ان 90 دنوں میں اگر آپ 300 ڈالر سے زیادہ سرمایہ کاری نہیں کرتے اور اپنے ساتھ دو مزید افراد کو اس ایپ سے متعارف نہیں کرواتے تو آپ اگلے لیول تک نہیں جا سکتے تھے۔

’ایسا کبھی کسی کے ساتھ ہوا نہیں تو اس لیے ہمیں معلوم نہیں کہ یہ سچ بھی تھا یا نہیں۔ خیر اگر آپ ایسا کرتے تو آپ کے منافع کی شرح بڑھ جاتی۔‘

Getty Images’رقم نکلوانے کا وقت طویل ہونے لگا تو احساس ہوا یہ ڈبل شاہ والی گیم ہے‘

اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا کسی فراڈ میں رقم گنوا دینا یقیناً حیران کن ہے لیکن ایسا ظاہر ہے پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔

گوجرانوالہ میں آج سے کئی برس قبل ’ڈبل شاہ‘ کا فراڈ مشہور ہوا تھا جو لوگوں کے پیسے ڈبل کرنے کا وعدہ کرنے کے کچھ عرصے بعد ساری رقم لے اڑا تھا۔ پنجاب کے اکثر شہروں میں نماز میں پیسے اور سونا رکھ کر ڈبل کرنے کا دعویٰ کرنے والے گروہ بھی خاصے مشہور رہے ہیں۔

ایسے میں متاثرہ افراد سے میں نے یہ سوال پوچھا کہ کیا انھیں کبھی یہ شک بھی نہیں ہوا کہ یہ فراڈ ہو سکتا ہے؟

سمیر فوراً بولے کہ ابتدا میں تو بالکل بھی شک نہیں ہوا۔ وہ اس کی توجیہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’شروع میں منافع کم تھا اور رقم نکل بھی رہی تھی اور ایک واٹس ایپ گروپ پر جاننے والے افراد کو رقم موصول بھی ہو رہی تھی تو شروع میں محسوس نہیں ہوا۔

’جب انھوں نے اپریل کے آغاز میں ہی یہ آفر لانچ کی کہ آپ جتنی رقم جمع کروائیں اتنا ہی آپ کو کمپنی کی طرف سے انعام ملے گا، تو پھر جب ہم نے رقم لگائی اور نکلوانے کا وقت طویل ہونے لگا اور احساس ہوا کہ یہ تو ڈبل شاہ والی گیم ہے۔‘

علیشبہ اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’سب نے ہمیں یہی کہا کہ ہم دو سال سے استعمال کر رہے ہیں، اس لیے اس میں کچھ برا نہیں آپ لوگ بھی استعمال کریں اور پھر ہم نے رقم نکلوائی بھی، ایسا نہیں کہ نہیں نکلوائی۔ تو انھوں نے ہمیں رقم دے کر شروع میں ہم سے ہمارا اعتماد خرید لیا۔‘

علیشبہ اور سمیر سمیت جتنے بھی متاثرہ افراد سے بی بی سی نے بات کی ان میں ایک قدر مشترک تھی، وہ یہ کہ یہ سب تعلیم یافتہ نوجوان ہیں تاہم ان سب میں ایک دلچسپ بات یہ بھی نظر آئی کہ ان سب کو اس ایپ میں رقم جمع کروانے کا طریقہ کار زبانی یاد تھا۔

یعنی اس ایپ میں جو 90 روز کے اندر مزید دو افراد کو اس ایپ پر لانے کی شرط تھی، وہ اس کی مارکیٹنگ سٹریٹیجی بھی ثابت ہوئی۔

فراڈ کی مارکیٹنگ کے طریقے

سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے عمار جعفری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عوام کو فراڈ کا نشانہ بنانے والے گروہوں کے بارے میں دلچسپ باتیں بتائیں۔

انھوں نے کہا کہ ’عام طور پر اس قسم کے فراڈ کے لیے کسی پراکسی سرور پر یا بیرونِ ملک ایپ بنائی جاتی ہے اور اس کی مارکیٹنگ ایک پورا نیٹ ورک کرتا ہے۔

’لوگ ایک دوسرے کو بتاتے ہیں کہ ’میرے بھی پیسے دگنے ہو گئے، مجھے تو گھنٹے بعد ہی مل گئے۔‘ آپ یہ بھی نوٹ کریں کہ اس طرح کے فراڈ عام طور پر ایک خاص علاقے میں ہوتے ہیں۔ جیسے آج سے سال ڈیڑھ پہلے جو ایمازون فراڈ ہوا تھا جو جنوبی پنجاب کے علاقے میں بوا تھا۔‘

عمار جعفری اس طرح کی فراڈ سکیموں کی مارکیٹنگ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ لوگ اتنے شاطر ہوتے ہیں کہ اس کی ان ڈائریکٹ ماریکٹنگ کرتے ہیں، کسی کا انٹرویو چھاپ دیں گے کہ اس کو پیسے مل گئے، پھر ایک دوسرے کی تعریف کرتے ہیں منصوبہ بندی کے تحت۔‘

یہ بھی پڑھیے

فراڈ جو پاکستانیوں کو جمع پونجی سے محروم کر رہا ہے

پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا غیر قانونی لین دین فراڈ کی وجہ بن رہا ہے؟

بینک اشورنس میں ’فراڈ‘ کیا ہے اور صارفین اپنی ڈوبی رقوم کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟

یہ مثال ہمیں آئی ڈے اے فراڈ میں بھی نظر آتی ہے۔ آئی ڈی اے یوٹیوب چینل اور سوشل میڈیا پر ایک ایسی ویڈیو موجود ہے جس میں پاکستانی نوجوان آئی ڈی اے ایپ کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ’اس نے ان کی زندگی کیسے بدلی۔‘

عمار جعفری کہتے ہیں کہ عام طور پر کچھ لوگوں کو پلانٹ بھی کیا جاتا ہے جو لوگوں کو اس فراڈ میں پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں۔

سمیر اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’بالکل ایسا ہو سکتا ہے کیونکہ اس واٹس گروپ میں 900 لوگ تھے جن میں سے اکثر کو ہم نہیں جانتے تھے۔‘

Getty Images’فراڈ کی سب سے بڑی پہچان یہی ہوتی ہے کہ اسے عقل نہیں مانتی‘

عمار جعفری فراڈز سے بچنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’فراڈ کی سب سے بڑی پہچان یہی ہوتی ہے کہ اس کو عقل نہیں مانتی، ڈبل شاہ کی مثال لے لیں، دنیا کا کوئی ایسا کاروبار نہیں جو چیزوں کو دوگنا کر دے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اسی طرح آج کل موبائل فونز پر فارورڈ میسجز کے اندر لنک ہوتے ہیں، وہ صرف آپ کی معلومات حاصل کرنے کے لیے ہوتے ہیں، انھیں بالکل فارورڈ یا ان پر کلک نہیں کرنا چاہیے۔‘

انھوں نے کہا کہ ایف آئی اے کو اس حوالے سے تحقیقات کرنی چاہیے کہ اس ایپ کی آئی پی ایڈرسنگ وغیرہ کیا تھی، اس کے بیک اینڈ پر کون تھا اور اس پر بین الاقوامی مدد بھی حاصل کرنی چاہیے اور ایسے افراد کو پکڑنا چاہیے۔

تاہم عمار جعفری کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایف آئی اے کے پاس تو جب شکایت جاتی ہے تو وہ کارروائی کرتا ہے، اس کے پاس اسی چیز کا اختیار ہے۔

یہی مطالبہ متاثرہ افراد کا بھی ہے جن میں سے ایک عاطف اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ان کے پاکستان میں موجود سہولت کاروں کو تو ضرور پکڑنا چاہیے۔‘

’ہمیں پتا تو چلے کہ ہمارے پیسے کون لے اڑا۔ اس مسئلے میں کوئی ایک مجرم نہیں بلکہ ہم سب ہی مجرم ہیں لیکن جنھیں غیر قانونی فائدہ ہوا ہے انھیں پکڑنا چاہیے۔‘

وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’اب لوگوں کو وڈی لک اور جاوا آئی نامی ایپس کی طرف راغب کیا جا رہا ہے۔‘

علیشبہ ایسی ایپس پر فوری طور پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتی ہیں کیونکہ ’ہمارے تو جتنے پیسے لگے وہ لگے لیکن کئی ایسے افراد بھی ہیں جنھوں نے ساری جمع پونجی اس میں لگا دی۔‘

سمیر کہتے ہیں کہ ’جیسے بندہ کسی کے مرنے کے بعد کہتا ہے کہ اونوں واپس لے آؤ یار، ویسے ہی ہم بھی یہی کہے رہے ہیں کہ کسی طرح ہمارے پیسے واپس لے آؤ۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More