پاکستان میں ٹی وی چینلز کے مارننگ شوز اور رمضان ٹرانسمیشن اکثر تنازعات کا شکار رہتے ہیں۔ کبھی خواتین کے معاشرتی حقوق اور ہراسانی جیسے موضوعات تو کبھی مذہبی عقائد اور نظریات پر مباحثے ان نشریات اور پروگرامز کو متنازع بناتے ہیں۔
حال ہی میں ایسا ایک معاملہ پاکستان کے نجی ٹی وی چینل بول ٹی وی کی رمضان نشریات کے ساتھ بھی پیش آیا ہے جب چودھویں رمضان کو بول ٹی وی کے پروگرام ’عالم کے بول‘ کی نشریات کے دوران پروگرام کے اینکر فیصل قریشی نے توہین مذہب کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف سخت لہجے اپناتے ہوئے انھیں عوامی سطح پر دکھانے اور ان کی شناخت ظاہر کرنے کی بات کی۔ اور اس پروگرام کے چند کلپس سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے جس کے بعد فیصل قریشی پر نفرت انگیز تقریر کرنے اور لوگوں کو بھڑکانے کا الزام عائد کیا گیا اور پاکستان میں میڈیا کے نگران ادارے پیمرا سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ان پر اور بول ٹی وی پر پابندی لگائے۔
https://twitter.com/ManalFaheemKhan/status/1644867402440536070
بول ٹی کے اس پروگرام کا موضوع یونیورسٹی کلچر اور دین اسلام تھا، جس میں بحث سے قبل فیصل قریشی نے اسلام آباد کی کامسیٹس یونیورسٹی میں بیچلر آف انجنیئرنگ کے انگریزی مضمون کے کلاس کوئز میں بہن بھائی کے درمیان جنسی تعلق سے متعلق سوال نامے کا بھی ذکر کیا تھا۔
سوشل میڈیا پر فیصل قریشی پر نہ صرف لوگوں کو مذہبی بنیاد پر اشتعال دلانے بلکہ ایسے افراد کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈالنے پر تنقید کی جا رہی ہے۔
بی بی سی نے اس معاملے پر فیصل قریشی سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ پروگرام یونیورسٹی کے کلچر کے موضوع پر تھا۔ توہین مذہب کی بات اتفاقیہ ہو گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ پروگرام میں شریک مفتی نوید عباسی چونکہ ناموس رسالت کے حوالے سے ایک پریس کانفرنس سے آرہے تھے، ایسے میں جب میں نے مفتی نوید عباسی سے اس بارے میں بات کی تو وہ تھوڑا جذباتی ہو گئے اور کچھ بات کے بعد ہم پروگرام میں بریک پر چلے گئے۔‘
فیصل قریشی کہتے ہیں کہ بریک کے دوران مفتی نوید عباسی نے مجھ سے پوچھا کہ مسئلہ کیا ہے اس موضوع پر کیوں بحث کر رہے ہیں۔
فیصل قریشی کہتے ہیں کہ ’بریک کے دوران مجھے ایک مخصوص گروہ کی کچھ تصاویر اور ویڈیوز دکھائی گئیں جس میں مبینہ طور پر توہین مذہب کی گئی تھی اور یہ تصاویر میرے لیے ناقابل برداشت تھیں، اگرچہ میں اتنا اچھا مسلمان نہیں ہوں لیکن یہ میرے لیے بھی ناقابل برداشت تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے جب پروگرام میں یہ کہا کہ لوگوں کو بتائیں یہ کیا کر رہے ہیں تو ہم ایک محضوص گروہ کی بات کر رہے تھے اس کا مطلب ہرگز سب سے نہیں تھا۔‘
فیصل قریشی نے واضح کیا کہ ’جب ان کے منھ سے سخت الفاظ نکلے پروگرام میں شریک مفتی صاحب نے کہا نہیں ہم ہرگز ایسا نہیں چاہتے، کچھ لوگ پکڑے بھی گئے ہیں ان کو میڈیا کے سامنے نہیں لے کر آ رہے۔‘
فیصل قریشی نے ایک بار پھر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ’اس پروگرام کا مقصد بچوں میں آگاہی پھیلانا تھا کہ وہ موبائل یا انٹرنیٹ پر کسی بھی ایسے لنک پر کلک نہ کریں جس سے ان کے کسی برے کام یا مشکل میں پھنسنے کا خدشہ ہو۔
’ہمارا پورا پروگرام بنیادی طور پر اسی پر تھا اب کسی نے اس پروگرام کو کاٹ کر ایک بات نکال لی اور کچھ باتیں ہٹا دیں تو یہ بہت زیادتی ہوئی۔‘
https://twitter.com/maheenghani_/status/1645034201371013120
https://twitter.com/_amina_anas/status/1645001687931801600
جہاں ایک جانب فیصل قریشی پر سوشل میڈیا صارفین تنقید کر رہے ہیں وہیں ان کے اس پروگرام کا موازنہ ماضی میں عامر لیاقت حسین کے ایک پروگرام کے ساتھ کیا جا رہا ہے جس میں انھوں نے توہین مذہب کے موضوع پر بات کی تھی جس کے بعد نوابشاہ اور میرپور خاص میں اقلیتوں کے ساتھ ناخوشگوار واقعات پیش آئے تھے۔
اس پر ردعمل دیتے ہوئے فیصل قریشی کا کہنا ہے کہ عامر لیاقت کے ساتھ ان کی تصاویر لگانا غلط ہے وہ بالکل الگ مسئلہ تھا،یہ ایک الگ معاملہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اس وقت انھوں نے جو تصاویر دیکھیں تھی تب ایسا لگا کہ زمین پھٹے وہ اس کے اندر چلے جائیں۔‘
توہین مذہب جیسے موضوع کی حساسیت پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’جب مردان میں یونیورسٹی کے نوجوان مشال خان کو توہین مذہب کے الزام میں قتل کیا گیا تو میں نے اس کے لیے پروگرام کیا تھا، میں اس وقت اے آر وائی چینل پر تھا۔‘
وہ کہتے ہیں ’انھوں نے ٹی وی چینل، ذاتی زندگی اور سوشل میڈیا پر لوگوں کے حقوق اور ان کے مسائل کے حل کے لیے بہت بار آواز اٹھائی ہے لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اگر آپ اچھا کرتے ہیں تو وہ سوشل میڈیا پر آتا ہی نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا آجکل سوشل میڈیا پر ذرا سے بات کو پکڑ کر طول دے دی جاتی ہے۔ میں نے تو ایسی باتوں کا جواب دینا ہی چھوڑ دیا کیونکہ اس کا فائدہ ہی نہیں ہے۔ اس کے پیچھے کوئی اور مقصد لگ رہا ہے۔‘
https://twitter.com/jamiazad1/status/1644995242112811009?s=46&t=NK7DTycaZ58UfeeMYdYrew
پاکستان کے فلم ساز و ہدایتکار جامی آزاد نے سوشل میڈیا پر پیمرا اور بول سے مطالبہ کیا کہ فیصل قریشی پر پابندی عائد کی جائے۔
انھوں نے پاکستان کے فلم پروڈیوسرز کے واٹس گروپ میں بھیجے گئے اپنے ایک میسج کا بھی سکرین شاٹ شیئر کیا، جس میں انھوں نے لکھا کہ ’میں بطور فلم ساز فیصل قریشی کے اقدام کی مذمت کرتا ہوں، اگرچہ وہ ہمارے ساتھی پروڈیوسر ہیں لیکن بول ٹی وی پر ان کے پروگرام میں توہین مذہب سے متعلق نعتیں پڑھی جا رہی ہیں، وہ اقلیتیوں کو یا جنھیں وہ توہین مذہب کا مرتکب سمجھتے ہیں، بنا کسی قانون کے سرعام پھانسی دینے کا کہہ رہے ہیں، ہمیں بول ٹی وی سے رابطہ کر کے اس پاگل پن کو بند کرنا چاہیے۔‘
فیصل قریشی نے جامی آزاد کے اس مطالبے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’اللہ انھیں عقل دے میں نے تو نیکی کرنے کی خواہش کی ہے اس بات کو منفی انداز میں گھومایا جا رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے لائیم لائیٹ میں رہنے کا شوق نہیں ہے اتنے لوگ میسیج کر رہے ہیں اگر اس بات کو آگے بڑھانا ہوتا تو میں ان کو جواب دیتا۔ مجھے ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا میں جانتا ہوں اللہ جانتا ہے کہ ہماری نیت کیا تھی۔‘
بول ٹی وی پر تنقید اور اس پر پابندی کے مطالبے پر ردعمل جاننے کے لیے ہم نے بول ٹی وی کے صدر فیصل عزیز سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ فیصل قریشی نے پروگرام میں دانستہ طور پر کسی کی دل آزاری ہوئی کی ہے۔
وہ کہتے ہیں نیوز شو ہو، مارننگ شو یا کوئی ٹاک شو جب کبھی بھی اگر غلطی سے بھی ایسا کچھ ہوتا ہے تو اس کا ازالا کر لیا جاتا ہے۔اس پروگرام میں بھی اگلے روز فیصل قریشی نے وضاحت پیش کردی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ویسے بھی ہر سال جب رمضان ٹرانسمیشن شروع ہوتی ہے تو ٹی وی چینلز کے درمیان ایک مقابلہ ہو جاتا ہے اور پھر کوئی فریق کسی چیز کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ جب عامر لیاقت حسین ہوتے تھے تو اس وقت بھی ایسا ہی ہوتا تھا، غلطی ہو سکتی ہے لیکن اس کو مینج کیا جاتا ہے۔‘
واضح رہے کہ بول ٹی وی اپنے آغاز سے لے کر تنازعات کا شکار رہا ہے اس کے مالک شعیب شیخ دو بار گرفتار ہوچکے ہیں۔
فیصل عزیز کہتے ہیں کہ ’بول کیوں تنازعات کھڑے کرنا چاہے گا وہ تو خود متاثر فریق ہے، وہ درست رخ پیش کرتے ہیں جو میڈیا ہاؤسز کا کام ہے۔‘