Getty Images
چین اور پاکستان کی شدید مخالفت کے باوجود انڈین حکومت انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں جی 20 ممالک کے مندوبین کی میزبانی کے لیے بڑے پیمانے پر تیاریاں کر رہی ہے جن کے تحت سرینگر کو ہنگامی بنیادوں پر ’سمارٹ سٹی‘ بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
سمارٹ سٹی منصوبے کے تحت وادی کے دارالحکومت سرینگر کے تجارتی مرکز ’لال چوک‘ کی تزئین و آرائش زور و شور سے جاری ہیں۔
یاد رہے کہ انڈیا رواں برس جی 20 ممالک کی سربراہی کر رہا ہے اور فی الحال چین، امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی سمیت دُنیا کے 20 ممالک کے مندوبین اس کانفرنس کی تیاری کے سلسلے میں انڈیا کے دورے پر ہیں جبکہ مئی کے اواخر میں سیاحت سے متعلق ان ہی ممالک کے ایک ورکنگ گروپ کا اجلاس کشمیر میں ہو گا۔
’گھنٹہ گھر‘ کیوں اہم ہے؟
40 برس قبل وادی کے تجارتی مرکز لال چوک میں اُس وقت کے وزیراعلیٰ شیخ محمد عبداللہ نے بازار کے بیچوں بیچ ایک ’گھنٹہ گھر‘ تعمیر کروایا تھا، جس پر چاروں طرف سے دِکھنےوالی بہت بڑی گھڑی نصب کی گئی تھی۔ اس پانچ منزلہ گھڑیال کو سرینگر کی مرکزی علامت کے طور پر پراجیکٹ کیا گیا اور بتدریج یہ ’گھنٹہ گھر‘ لال چوک کی شناخت بن گیا۔
تاریخ دان پیر غلام رسول کہتے ہیں کہ ’شیخ عبداللہ اُن دنوں انڈیا کی تجارتی برادری کے ساتھ مراسم بڑھا رہے تھے۔ انڈیا کی معروف کمپنی بجاج الیکڑیکلز نے گھنٹہ گھر تعمیر کیا اور شروع شروع میں یہ بجاج کمپنی کے اشتہار کے طور پر نظر آتا تھا۔‘
’گھنٹہ گھر‘ کی تعمیر کے چند سال بعد ہی کشمیر میں ہند مخالف مسلح شورش کا آغاز ہوا تو لال چوک کا علاقہ مظاہروں، مسلح تصادموں اور سکیورٹی کارروائیوں کے لیے مشہور ہوا۔ علیحدگی پسند ’گھنٹہ گھر‘ پر پاکستانی پرچم لہرانے لگے تو 1992 میں انڈیا کی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے کئی رہنما مُرلی منوہر جوشی کی قیادت میں کشمیر آئے اور انتہائی سخت سکیورٹی حصار میں ’گھنٹہ گھر‘ پر بھارتی ترنگا لہرا یا گیا۔ پھر بعد کی دہائیوں میں ’گھنٹہ گھر‘ ایک تجارتی علامت نہیں بلکہ ایک سیاسی علامت بن کر رہ گیا۔
سنہ 2019 کے بعد مودی حکومت نے کشمیر میں علیحدگی پسند سیاست کا قلع قمع کر دیا اور تب سے ’گھنٹہ گھر‘ پر صرف ترنگا لہراتا ہے اور انڈیا کی یوم آزادی یا یوم جمہوریہ کے مواقع پر یہاں اہم شخصیات اور حکومت کے حامی کئی نوجوان ترنگا لہرا کر علیحدگی پسندی کی شکست کا جشن مناتے ہیں۔
چونکہ اب جی 20 کانفرنس سے قبل لال چوک کے ارد گرد سڑکوں، راہداریوں اور دیگر مقامات کی تجدید ہو رہی ہے چنانچہ حکام نے ’گھنٹہ گھر‘ کو بھی نئے سرے سے تعمیر کرنے کے لیے پرانی تعمیر کو منہدم کر دیا ہے۔
اس کارروائی پر بعض کشمیریوں نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ ’کشمیر کی تاریخ کو مسخ‘ کیا جا رہا ہے تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ ’گھنٹہ گھر‘ کو جدید طرز پر نئے سرے سے تعمیر کرکے اس کی علامتی اہمیت میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔
سوشل میڈیا پر دیگر حلقوں کے علاوہ جب نیشنل کانفرنس کی نوجوان کارکن بسما میر نے ’لال چوک کی توڑ پھوڑ‘ کی مخالفت کی تو حکومت کے حامی سیاست دان شیخ عمران نے اُن پر رکیک الزامات لگائے جس کے بعد بسما نے لکھا کہ ’مرد سیاست دان خواتین کا مُنھ بند کرتے ہیں، اس کا علاج یہ ہےکہ زیادہ سے زیادہ خواتین سیاست میں آئیں۔‘
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بحث و مباحثے کے بعد حکومت نے ایک ڈیجیٹل تصویر جاری کرکے واضح کیا کہ ’گھنٹہ گھر‘ کو منہدم نہیں بلکہ نئے سرے سے بہتر انداز میں تعمیر کیا جا رہا ہے۔
شیخ باغ کا نام لال چوک کیوں رکھا گیا؟
لال چوک اور ’گھنٹہ گھر‘ کشمیر کی تاریخ میں نہایت تازہ ایڈیشن ہیں۔
موٴرخین کا کہنا ہے کہ دریائے جہلم کے کنارے واقع سرینگر کے قدیم بازار ’شیخ باغ‘ کا نام 1947 کے بعد اقتدار میں آنے والے اُس وقت کے مقبول رہنما شیخ محمد عبداللہ نے بدل کر ’لال چوک‘ رکھ دیا تھا۔
’شیخ باغ‘ کا نام بھی ایک جنگ کے بعد پڑا ہے جو اُنیسویں صدی کے شروع میں اسی مقام پر ہوئی تھی۔ موٴرخ پیر غلام رسول کہتے ہیں کہ اُس سے قبل پورے علاقے کا نام ’آبی گزر‘ تھا، کیونکہ دریائے جہلم کے گھاٹوں پر بڑی کشتیوں کے ذریعہ تجاری مال لایا اور لے جایا جاتا تھا۔
’مہاراجہ رنجیت سنگھنے اُس زمانے میں ایک مسلمان شیخ امام الدین کو کشمیر کا گورنر بنا کر بھیجا تو برطانوی افواج نے مقامی حلیفوں کی مدد سے سرینگر پر چڑھائی کر دی۔ شیخ امام الدین نے خود حملہ آوروں کا مقابلہ آبی گزر کے مقام پر کیا اور وہ سینکڑوں فوجیوں سمیت وہیں پر ہلاک ہو گئے۔ اُن لاشوں کو پڑوس کے علاقہ میں دفن کیا گیا جس سے اُس جگہ کا نام ’شہید گنج‘ یعنی شہیدوں کا خزانہ پڑ گیا۔‘
جنگ کے بعد اس پورے علاقے کو شیخ باغ کہا جانے لگا۔ تاہم تقسیم ہند کے بعد جب شیخ عبداللہ کو اقتدار ملا تو انہوں نے اس کا نام لال چوک رکھ دیا۔
پیر غلام رسول اور دیگر کئی موٴرخین نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ ’جواہر لعل نہرو سوشلسٹ نظریات سے متاثر تھے، اور انھیں خوش کرنے کے لئے شیخ عبداللہ نے ماسکو کے ریڈ سکوائر کے نام پر شیخ باغ کا نام لال چوک رکھ دیا اور یہ تاٴثر دیا کہ ماضی کی تلخ یادوں کو بھلا کر ایک نئے کشمیر کی تعمیر ہو گی۔‘
پاکستان اور چین کشمیر میں جی 20 اجلاس کے خلاف کیوں؟
پاکستان کے دفترخارجہ کے ترجمان عاصم افتخار احمد نے کشمیر میں اس تقریب کے اہتمام پر انڈیا کی یہ کہہ کر تنقید کی ہے کہ وہ عالمی سطح پر ایک مسلمہ تنازع (کشمیر) کی حقیقت تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انڈیا ’اس تقریب سے عالمی سطح پر کشمیر میں اپنی سبھی کاروائیوں کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘
چونکہ کشمیر کے علاوہ انڈیا کی شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش میں ان تقاریب کا اہتمام ہونے والا ہے اسی لیے چین نے بھی اس کی مخالفت کی ہے۔ سرکاری سرپرستی والے چینی اخبار’گلوبل ٹائمز‘ میں چین کے ’سٹریٹجی انسٹیٹیوٹ‘ کے سربراہ کیوان فینگ نے لکھا ہے کہ ’بھارت کی مودی حکومت کشمیر میں جی 20 تقاریب کے انعقاد سے کشمیر سے متعلق اپنی سفارتی فتح کا اعلان کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ ہندو اکثریتی آبادی میں اپنی ساخت مزید مضبوط کر سکے۔‘
چینی دفتر خارجہ نے بھی اس اقدام کو ’یکطرفہ‘ قرار دے کر انڈیا پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ’تنازعے کو مزید پیچیدہ بنا رہا ہے۔‘