انڈیا کی ہیروں کی صنعت میں انقلاب برپا

بی بی سی اردو  |  Mar 29, 2023

چنتن سوہاگیا کی عمر صرف 26 برس ہے لیکن وہ ڈائمنڈ انڈسٹری میں کام کرنے کا سات سال کا تجربہ رکھتے ہیں۔ جب انھوں نے مغربی انڈیا کے شہر سورت میں ہیرے جواہرات کی کمپنی میں کام شروع کیا تو ان کے فرائض میں ہیروں کو لانا لیجانا ہوتا تھا۔ لیکن انھوں نے اس دوران یہ سیکھ لیا کہ ہیروں کا معائنہ کیسے کرنا ہے اور خصوصی آلات کے ذریعے ان کی درجہ بندی کیسے کرنی ہے۔

ہیرے کی صنعت میں ڈرامائی تبدیلی سے ان کا کیریئر بدل گیا ہے۔ دو سال پہلے تک وہ جن ہیروں کا معائنہ کرتے تھے وہ قدرتی تھے جنہیں ہیروں کی کانوں سے نکالا جاتا ہے۔

اب وہ خصوصی مشینوں میں تیار کردہ ہیروں کے ساتھ کام کرتے ہیں، جو اب ہیروں کی صنعت کا اہم حصہ ہے۔ ایک عشرہ قبل مشنیوں میں تیار کیے جانے والے ہیرے بمشکل موجود تھے لیکن بہتر ٹیکنالوجی کی بدولت اس صنعت میں بے تحاشا ترقی دیکھنے میں آئی ہے۔

لیبارٹری میں تیار کردہ ہیرے (ایل جی ڈی) قدرتی ہیروں سے اتنے ملتے جلتے ہیں کہ ماہرین کو بھی فرق پہچاننے کے لیے بہت غور سے دیکھنا پڑتا ہے۔

سوہاگیا کا کہنا ہے کہ ’کوئی بھی آنکھ قدرتی اور لیبارٹری میں تیار کردہ ہیروں کے درمیان فرق نہیں بتا سکتی۔

’قدرتی ہیرے اور لیبارٹری میں تیار کردہ ہیرے اتنے ملتے جلتے ہیں کہ ایک بار لیبارٹری ٹیسٹ کے بعد بھی ہیرے کی اصلیت کے بارے میں الجھن پیدا ہو گئی تھی‘۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہیرے کو دو بار ٹیسٹ کرنا پڑا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہ لیبارٹری میں تیار کیا گیا ہے۔

قدرتی ہیرے زیر زمین شدید تپش اور دباؤ میں بنتے ہیں۔ سائنسدان 1950 کی دہائی سے زمین کے اوپر ہیرے بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں دو طریقے سامنے آئے ہیں۔

ہائی پریشر ہائی ٹمپریچر (ایچ پی ایچ ٹی) سسٹم وہ ہے جہاں ہیرے کے بیج کو خالص گریفائٹ (کاربن کی ایک قسم) سے گھیرا جاتا ہے اور تقریباً 1500 سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت کے سامنے رکھا جاتا ہے اور ایک چیمبر میں تقریباً 1.5 ملین پاؤنڈ فی مربع انچ تک دباؤ ڈالا جاتا ہے۔

دوسرے عمل کو کیمیکل ویپر ڈیپوزیشن (سی وی ڈی) کہا جاتا ہے اور اس میں ہیرے کے بیج کو کاربن سے بھرپور گیس سے بھرے ایک چیمبر میں ڈالنا اور تقریباً 800 سینٹی گریڈ تک گرم کرنا شامل ہے۔ گیس بیج سے چپک جاتی ہے جس سے ذرے ذرے سےہیرا بنتا ہے۔

اگرچہ یہ تکنیک 20 ویں صدی کے آخر میں سامنے آئی تھی، لیکن گزشتہ دس برسوں میں اس عمل کو بہتر بنایا گیا ہے تاکہ لیبارٹری میں تیار کردہ ہیروں کو زیورات کے طور پر فروخت کرنے کے لیے صحیح قیمت اور معیار پر بنایا جا سکے۔

زیورچ میں قائم کمپنی کے نیچرل ریسورسز کی پارٹنر اولیا لِنڈے کا کہنا ہے ’شروع میں، یہ مشکل تھا، کیونکہ بہت کم مشینیں تھیں اور بہت کم سائنسدان ایسا کرنے کے قابل تھے لیکن گزشتہ سات سالوں میں، جیسے جیسے مارکیٹ میں زیادہ مہارت دستیاب ہوئی، ہم نے واقعی بڑی ترقی دیکھی ہے۔‘

لِنڈے کہتی ہیں کہ سنہ 2000 کی دہائی کے اوائل سے لیبارٹری میں تیار کردہ ہیروں کی تیاری کی لاگت ہر چار سال بعد آدھی رہ جاتی ہے۔

ان دنوں لیبارٹری میں تیار کیا جانے والا ایک قیراط کا ہیرا قدرتی طور پر بننے والے ہیرے کے مقابلے میں 20 فیصد سستا ہوگا۔

ہیرے بنانے کے عمل پر آنے والے اخراجات میں کمی کی وجوہات نے کاروباری افراد کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔

سنیہل ڈونگرنی بھنڈری ’لیب گرون ڈائمنڈز‘ کے چیف ایگزیکٹوہیں جسے انہوں نے 2013 میں شروع کیا تھا۔ یہ ہیرے بنانے کے لئے سی وی ڈی طریقہ کار استعمال کرتے ہیں۔

سنیہل ڈونگرنی کہتے ہیں کہ ’ہماعلی درجے پر ہیرے کی نشوونما کی نگرانی کرنے کے قابل ہیں۔‘

اس عمل میں کان کنی پر اٹھنے والی لاگت اور وقت بھی بچتا ہے اور یہ طریقہ ماحول دوست بھی ہے۔

انڈیاکا طویل عرصے سے ہیروں کی صنعت میں اہم کردار رہا ہے۔ایک اندازے کے مطابق دنیا کے 10 میں سے نو ہیرے بھارتی شہر سورت میں پالش کیے جاتے ہیں۔ اب حکومت چاہتی ہے کہ ہندوستان لیبارٹری میں تیار کردہ ہیروں کے کاروبار میں ایک اہم کھلاڑی بن جائے۔

وزارت تجارت و صنعت کے مطابق انڈیا پہلے ہی سالانہ تقریباً 30 لاکھ ہیرے لیبارٹری میں تیار کرتا ہے جو عالمی پیداوار کا 15 فیصد بنتا ہے۔ چین دوسرا بڑا پروڈیوسر ہے، جس کا مارکیٹ شیئر بھی اتنا ہی ہے۔

جنوری میں، اس شعبے کو مزید فروغ دینے کی کوشش میں، انڈین حکومت نے درآمد شدہ ہیرے کے بیجوں پر پانچ فیصد ٹیکس ختم کر دیا اور ہندوستان کو اپنے ہیرے کے بیج کی پیداوار کو فروغ دینے میں مدد کے لیے فنڈز کا اعلان کیا۔

وزارت تجارت کے جوائنٹ سکریٹری وپل بنسل کہتے ہیں کہ ’جیسے جیسے عالمی خوشحالی بڑھے گی، ہیروں کی مانگ میں اضافہ ہوگا۔‘

ہری کرشنا ایکسپورٹ تین عشروں سے روایتی ہیروں کی سب سے بڑی پروڈیوسر ہے۔

لیکن اس سال ڈائریکٹر گھنشیام بھائی ڈھولکیا نے لیبارٹری میں تیار کردہ ہیروں کے کاروبار کی بنیاد رکھی۔

انہوں نے پیش گوئی کی ہے کہ ’اگلے تین سے چار سالوں میں، ہم لیبارٹری میں تیار کردہ ہیروں کی مانگ میں اضافہ دیکھیں گے۔‘

لیکن کیا نیا کاروبار روایتی ہیرے کے کاروبار سے مارکیٹ شیئر لے گا؟

ڈھولکیا کہتے ہیں کہ ’قدرتی اور لیبارٹری میں تیار کردہ ہیروں کی اپنی اپنی مارکیٹ ہے اور دونوں میں مانگ موجود ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ایل جی ڈی نے بھارت میں متوسط طبقے کے لیے ایک نئی مارکیٹ کھولی ہے اور جن کے پاس پیسہ ہے اور وہ لیبارٹری میں تیار کردہ ہیرا خرید سکیں گے۔

حالانکہ، ہندوستان میں اس بازار کو شروع ہونے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔ ہندوستان میں بننے والے زیادہ تر ایل جی ڈی امریکہ کو برآمد کیے جاتے ہیں۔

’ہندوستانی مارکیٹ ابھی بھی ایل جی ڈی ہیروں کے لیے تیار نہیں ہے، لہذا ہم کونسل کے طور پر ایل جی ڈی کی مارکیٹ کو فروغ دینے کے لیےنمائشوں اور تقریبات کو فروغ دے رہے ہیں۔‘

لیب گرون ڈائمنڈ اینڈ جیولری پروموشن کونسل کے چیئرمین ششی کانت دالی چند شاہ کہتے ہیں کہ تین سے چار سال میں انڈین مارکیٹ تیار ہو جائے گی۔

مسٹر شاہ ہیروں کی تجارت کرنے والی کمپنی ’نائن دیام‘ کے چیئرمین ہیں، جس کی بنیاد ان کے پردادا نے رکھی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ لیبارٹری میں تیار کردہ ہیروں کی مارکیٹ اصلی ہیروں سے مختلف ہو گی۔

وہ کہتے ہیں: ’لیبارٹری یا فیکٹری میں بنایا گیا ہیرا مصنوعی ہیرا ہوتا ہے۔ لہٰذا ایک خریدار جو ہیروں کو جانتا ہے اور اُس سے محبت کرتا ہے وہ ہمیشہ حقیقی ہیرے کی تلاش کرے گا۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ قدرتی ہیروں کی نسبتا کمی کا مطلب ہے کہ وہ اپنی قیمت کو بہتر طریقے سے برقرار رکھیں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ 'لیبارٹری میں تیار کیے گئے ہیرے خریدے جانے کے بعد اپنی قدر کھو دیتے ہیں جبکہ قدرتی ہیرےکی خرید کے بعد 50 فیصد قدر برقرار رہتی ہے۔

اگرچہ ایسا ہوسکتا ہے ، لیکن لیبارٹری میں تیار کردہ ہیرے زیورات ڈیزائنرز کو زیادہ پسند ہیں۔

مس لنڈے کہتی ہیں: ’قدرتی ہیرے اتنے مہنگے ہوتے ہیں کہ آپ ہمیشہ قدرتی پتھر سے ہیرے کو زیادہ سے زیادہ بنانا چاہتے ہیں۔ لیبارٹری میں تیار کردہ ہیروں کو آپ اپنی مرضی کے مطابق ڈیزائن کرسکتے ہیں۔

مس لنڈے کہتی ہیں: ’ہم نے ایسے زیورات دیکھے ہیں جہاں انہوں نے ہیروں میں سوراخ کیے ہیں تاکہ وہ مزید چمک سکیں۔

دنیا کے سب سے بڑے جیولرز، ڈنمارک کے پنڈورا، لیبارٹری میں تیار کردہ ہیروں کی طرف مائل ہو رہے ہیں. کمپنی کے چیف ایگزیکٹو نے 2021 میں اس اقدام کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے مارکیٹ میں وسعت آئے گی اور ان کے کا کاروبار کو مزید فروغ ملے گااور یہ ماحول دوست بھی ہو گا۔

سورت میں، چنتن سہگیا ایل جی ڈی صنعت میں قدم رکھنے پر خوش ہیں۔ ان کے خیال میں بہت سے دوسرے لوگوں کو اس شعبے میں کام مل جائے گا۔

وہ کہتے ہیں: ’لیب ڈائمنڈ انڈسٹری لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے جا رہی ہے۔ اس صنعت کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More