تارکین وطن کو اپنانے والے کینیڈا کی آبادی میں پہلی بار ایک سال میں 10 لاکھ لوگوں کا ریکارڈ اضافہ

بی بی سی اردو  |  Mar 23, 2023

Getty Images

کینیڈا کی حکومت کے مطابق ملک کی آبادی میں پہلی بار ایک سال میں 10 لاکھ لوگوں کا اضافہ ہوا ہے۔

کینیڈا کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک کی آبادی تین کروڑ 85 لاکھ 16 ہزار سے بڑھ کر تین کروڑ 95 لاکھ 66 ہزار ہو گئی ہے۔

1957 کے بعد سے اب تک یہ کینیڈا کی آبادی میں سالانہ اضافے کی سب سے زیادہ شرح ہے۔

اس اضافے کی وجہ حکومت کی جانب سے ملک میں لیبر کی کمی کو پورا کرنے کے لیے تارکین وطن کو مستقل رہائش فراہم کرنے کی کوششوں کو قرار دیا جا رہا ہے تاہم کینیڈا کی اعدادوشمار کی ایجنسی کا کہنا ہے کہ ’مستقل اور عارضی امیگریشن کی وجہ سے ملک کے چند علاقوں میں ہاؤسنگ، انفراسٹرکچر اور ٹرانسپورٹیشن کے اضافی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔‘

ایجنسی کے مطابق آبادی میں اضافے کا 96 فیصد حصہ امیگریشن سے ہوا۔

واضح رہے کہ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے ملک میں زیادہ لوگوں کو لانے کے لیے کوشش کی ہے۔ گذشتہ سال کینیڈا کی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ 2025 تک پانچ لاکھ لوگوں کو خوش آمدید کہا جائے گا۔

دوسری جانب کینیڈا کی حکومت یوکرین جنگ اور افغانستان کی صورتحال سے متاثرہ افراد کو بھی قبول کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ 2023 میں ترکی اور شام میں زلزلے سے متاثرہ افراد کو بھی کینیڈا کی شہریت دی جا رہی ہے۔

2022 میں کینیڈا میں چار لاکھ 27 ہزار لوگوں کو شہریت دی گئی جبکہ غیر مستقل رہائشیوں کی تعداد چھ لاکھ 77 ہزار ہو گئی جو ایک سال کے دوران نیا ریکارڈ تھا۔

کینیڈا کا کہنا ہے کہ آبادی میں اضافے کا مطلب ہے کہ اب کینیڈا جی سیون ممالک میں سب سے زیادہ تیزی سے بڑھنے والا ملک ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ آبادی میں 2.7 فیصد سالانہ اضافے کی اس رفتار کو برقرار رکھنے سے ملک کی آبادی 26 سال میں دوگنی ہو جائے گی۔

Getty Imagesتارکین وطن کی بڑی تعداد کینیڈا کا ہی انتخاب کیوں کر رہی ہے؟

گذشتہ برس چالیس ہزار تارکین وطن افراد نے پناہ کے لیے کینیڈا کی سرحدوں سے اس کی سرزمین پر قدم رکھا۔

ان میں سے بعض تارکین وطن اس خیال سے کینیڈا کا رخ کر رہے ہیں کہ کینیڈا کا امریکہ کے مقابلے میں تارکین وطن کے ساتھ رویہ نرم ہے لیکن کیا کینیڈا اس تارکین وطن افراد کی بڑھتی تعداد سے نمٹ سکتا ہے۔

سردی کے موسم میں راکسم روڈ بہت خاموش اور ٹھنڈی ہوتی ہے۔ یہ خاموشی برف پر چلتی ہوئی گاڑی کے ٹائروں سے اٹھنے والی آواز سے ٹوٹ جاتی ہے۔

یہاں ہر روز 150 تارکین وطن کو لایا جاتا ہے جو پیدل چل کر کینیڈا کی سرزمین پر پاؤں رکھنا چاہتے ہیں۔ ان میں سے کئی افراد نے اپنا سفر برازیل سے شروع کیا اور پھر نیویارک تک پہنچے۔

روکسم روڈ سرکاری سرحدی مقام نہیں۔ یہاں کوئی سرحدی ایجنٹ نہیں۔ یہاں صرف پولیس افسران ہیں جو سرحد پار کرنے والوں کو گرفتار کرتے ہیں تاہم یہ پناہ کے متلاشی افراد کے لیے امریکہ سے کینیڈا میں داخل ہونے کے لیے ایک مقبول مقام کے طور پر جانا جاتا ہے۔

گذشتہ برس تارکین وطن کی بڑی تعداد اسی راستے سے ہی کینیڈا میں داخل ہوئی۔ تارکین وطن کی یہاں پہنچنے کی وجہ کینیڈا کی وہ ساکھ ہے کہ وہ جنگ اور تنازعات سے متاثرہ افراد کے لیے نرم رویہ رکھتا ہے۔

سرحد کے دونوں جانب راکسم روڈ سے تارکین وطن کی آمد اور اس راستے پر آنے والوں کے مستقبل کے حوالے سے مایوسی میں اضافہ ہوا۔

راکسم روڈ 2017 میں قومی توجہ کا مرکز بنی تھی جب پناہ کے متلاشی افراد کی بڑی تعداد نے اس پر سفر کرنا شروع کیا تھا۔

کچھ لوگوں کے خیال میں تارکین وطن افراد میں کینیڈا کی اچانک مقبولیت ٹرمپ انتظامیہ کے زمانے میں امریکہ سے تارکین وطن افراد کو ملک بدر کرنے کے خوف کی وجہ سے ہوئی۔

کچھ لوگ وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی ایک ٹویٹ کو بھی اس کا ذمہ دار قرار دیتے جس میں کہا گیا تھا کہ کینیڈا ظلم، دہشت گردی اور جنگ سے فرار ہونے والوں کا خیر مقدم کرے گا۔

تارکین وطن افراد میں کینیڈا کی مقبولیت نے کنیڈین حکام کو چوکنا کر دیا ہے۔ وفاقی حکومت نے تارکین وطن کی اس لہر کو روکنے کی غرض سے انتباہ دیا ہے کہ کینیڈا پہنچنا وہاں رہنے کی ضمانت نہیں۔

کووڈ کی وبا کے دوران وفاقی حکومت کی طرف سے نافذ کردہ ہنگامی صحت کے اقدامات کے تحت راستہ بند کر دیا گیا لیکن محفوظ پناہ گاہ کا مطالبہ کبھی ختم نہیں ہوا۔

کووڈ وبا کے دوران اٹھائے گئے اقدامات جو تقریباً 16 ماہ قبل اٹھائے گئے تو ہزاروں پناہ گزینوں نے کینیڈا کا رخ کیا۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق ہیٹی سے ہے جو حالیہ مہینوں میں سیاسی اور پرتشدد واقعات کا شکار رہا ہے۔

وینزویلا اور کولمبیا جیسے لاطینی امریکی ممالک یا افغانستان جیسے دور دراز علاقوں سے آنے والے لوگوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

اس کے ساتھ ہی بائیڈن انتظامیہ نے ٹرمپ دور کی وبائی پالیسیوں میں توسیع کر دی ہے، جنھیں امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر تارکین وطن کو روکنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔

کیوبیک میں بی بی سی سے بات کرنے والے تارکین وطن کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ کو پناہ کے لیے اچھے ملک کے طور پر نہیں دیکھتے، جہاں پناہ کی درخواستوں پر فیصلے میں کئی سال لگ جاتے ہیں اور انھیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی آمد کو پسند نہیں جاتا۔

جوشوا (فرضی نام) کرسمس سے دو روز بعد مونٹریال پہنچے ہیں اور ایک تارکین وطن کے ساتھ کرائے کے فلیٹ میں رہائش پذیر ہیں۔ انھیں اپنی پناہ کی درخواست کو سننے جانے کا انتظار ہے۔

وینزویلا کے شہری جوشوا پانچ برسوں سےچلی میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے، جب انہوں نے کینیڈا جانے کا فیصلہ کیا۔

جوشوا کا کہنا تھا کہ 'دیگر ممالک غیر قانونی تارکین وطن کے ساتھ اتنے دوستانہ نہیں لیکن کینیڈا نے ان کا خیر مقدم کیا۔‘

پناہ گزینوں کی آمد کے پیچھے امریکہ کے ساتھ بیس سال پرانا معاہدہ ہے جس کا نام ’سیف تھرڈ کنٹری ایگریمنٹ‘ ہے جس کے تحت تارکین وطن کو پہلے اپنے ’محفوظ‘ ملک میں پناہ کے لیے درخواست دینا ہوتی ہے۔

اس معاہدے کی روز امریکہ سے کینیڈا آنے والے تارکین وطن کو سرحد سے ہی واپس بھیج دیا جائے گا لیکن روکسم روڈ ایک غیر سرکاری راستہ ہے اور پناہ کے متلاشی اسی خامی کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے روکسم روڈ کی گزرگاہ کو بند کرنے کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے ساتھ ہزاروں کلومیٹر طویل سرحد ہے جس کی نگرانی نہیں کی جاتی۔

انھوں نے کہا اس کراسنگ کو بند کرنا بیکار ہوگا اور تارکین وطن خطرناک راستوں کے ذریعے کینیڈا کی سرزمین پر پہنچنے کی کوشش کریں گے۔

یہ بھی پڑھیے

کینیڈا کو نئی امیگریشن پالیسی کے تحت کن شعبوں میں 14 لاکھ ملازمین کی ضرورت ہے؟

متحدہ عرب امارات کی ویزہ پالیسی میں نرمی: مگر پاکستانیوں کو اس سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟

وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی توجہ ’سیف تھرڈ کنٹری ایگریمنٹ‘ پر نئے سرے سے بات چیت پر مرکوز ہے۔ توقع ہے کہ وہ اس ہفتے کے آخر میں صدر بائیڈن کے کینیڈا کے دورے کے دوران اس مسئلے کو اٹھائیں گے۔

تاہم وزیراعظمپر دباؤ ہے کہ وہ تارکین وطن کی غیر قانونی آمد کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھائیں کیونکہ نئے آنے والوں نے شہری سہولیات کو متاثر کیا ہے خاص طور پر کیوبیک میں، جہاں بہت سے تارکین وطن آباد ہیں۔

کیوبیک کے وزیراعظم فرانسوا لیگولٹ نے صوبے کی صورتحال کو غیر مستحکم قرار دیتے ہوئے کہا کہ سماجی خدمات کو ’تباہی کے دہانے پر دھکیل دیا گیا‘ اور اس کے نتیجے میں کچھ تارکین وطن کو بے گھر ہونے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

تارکین وطن کی پناہ کی درخواستوں میں اضافے کی وجہ سے پناہ کی درخواستوں پر فیصلوں میں تاخیر ہو رہی ہے۔

جنوری 2022 میں تارکین وطن افراد کی درخواستوں کی کل تعداد 56 ہزار 300 تھی جو دسمبر تک 71 ہزار ہو گئی یعنی اس میں 26 فیصد اضافہ ہوا۔

تارکین وطن افراد کی درخواستوں پر کارروائی میں اب دو سال تک کا وقت لگ سکتا ہے۔ گذشتہ سال پناہ کی 28 فیصد درخواستوں کو مسترد کردیا گیا تھا، جس کا مطلب ہے کہ کینیڈا میں پہنچنا وہاں پناہ کی ضمانت نہیں۔

ورک پرمٹ کے لیے بھی طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ایک نئے پناہ گزین کے لیے سوشل انشورنس نمبر حاصل کرنے میں ایک ہفتہ لگتا تھا۔

مونٹریال میں نئے آنے والوں کی مدد کرنے والی تنظیم ویلکم سینٹر میں کام کرنے والی میریز پوسن کا کہنا ہے کہ اب شناختی کارڈ کی دستاویز کے لیے ملاقات کا انتظار تقریباً دو سال ہے۔

وکیلوں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ تارکین وطن افراد کی درخواستوں پر فیصلے میں تاخیر کے نتیجے میں بہت سے تارکین وطن افراد کو اپنی ضروریات پوری کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور فوڈ بینکس اور وہ دیگر سماجی امداد تک رسائی حاصل کر رہے ہیں۔

مونٹریال سے تعلق رکھنے والی امیگریشن کی وکیل سوزین ٹافوت کا کہنا ہے کہ ’ان میں سے کچھ ایسے حالات میں ہیں جہاں ان کا استحصال ہو رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم واقعی فکرمند ہیں کہ سب سے زیادہ کمزور افراد، جن کو ٹراما ہے، جن کو مقامی زبان پر عبور نہیں، انھیں وہ مدد نہیں ملتی جس کی انھیں ضرورت ہے۔‘

امریکی سرحدی ایجنٹوں نے کینیڈا سے واپس آنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ نوٹ کیا ہے۔

جنوری میں امریکی بارڈر پٹرول نے شمال سے جنوب کی طرف جانے کی کوشش کرنے والے 367 افراد کو گرفتار کیا تھا جو گذشتہ 12 سالوں میں اس طرح کے کراسنگ کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہے۔

اس کے بعد سے ریپبلکن قانون سازوں نے شمالی سرحد پر پیدا ہونے والے ’بحران‘ کے بارے میں بات کی ہے۔

مونٹریال میں پناہ گزینوں کے ساتھ کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ واپس آنے والے کچھ افراد نے کینیڈا میں کام نہ ملنے یا اہل خانہ سے ملاقات نہ ہونے کی وجہ سے ایسا کیا ہے۔

کینیڈا میں بڑھتے ہوئے چیلنجز کے باوجود، تارکین وطن ریکارڈ تعداد میں کینیڈا کی سخت سردی میں راکسم روڈ کو عبور کر رہے ہیں۔

نیو یارک میں ٹیکسی ڈرائیورز ٹیری پرووسٹ اور ٹائلر تمبینی کا کہنا ہے کہ وہ اکثر لوگوں کو پلیٹسبرگ بس سٹیشن سے سرحد تک لے جاتے ہیں۔

مسٹر پرووسٹ نے افغانستان سے ایک پناہ گزین کو ٹیکسی سے اتارتے ہوئے کہا ’اس آدمی کے پاس پیسے نہیں تھے۔ یہ ایک موٹل میں مسلسل انتظار کر رہے تھے۔‘

جب تارکین وطن سرحد عبور کرتے ہیں تو رائل کینیڈین ماؤنٹڈ پولیس کے ارکان ان کا استقبال کرتے ہیں، جو انھیں متنبہ کرتے ہیں کہ اگر وہ آگے بڑھتے ہیں تو انھیں گرفتار کر لیا جائے گا۔

سنہ 2017 کے بعد سے کینیڈا کی سرحد کا حصہ ایک چھوٹے سے پولیس کمپاؤنڈ میں تبدیل ہو چکا ہے، جس میں پار کرنے والوں کو پراسیس کرنے کے لیے ٹریلرز اور بسیں موجود ہیں جو نئے آنے والوں کو قریبی ہوٹلوں میں لانے کا انتظار کرتی ہیں۔

مسٹر پرووسٹ نے کہا کہ انھوں نے لوگوں کو آخری قدم اٹھانے سے پہلے ہچکچاتے ہوئے دیکھا۔ انھیں یقین نہیں ہوتا کہ ان کے ساتھ کیا ہو گا تاہم جوشوا جیسے تارکین وطن کے لیے، کینیڈا آخری محفوظ جگہ ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’امریکی خواب کئی سال پہلے دم توڑ گیا تھا۔ مونٹریال میرا نیا گھر ہے۔ میرا واحد گھر ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More