باپ کا بیٹے کی ولدیت پر شک، بچے کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کی عدالتی درخواست مسترد

بی بی سی اردو  |  Mar 17, 2023

ممبئی ہائی کورٹ نے ایک نوعمر بچے کے والد کی اس درخواست کو مسترد کر دیا ہے جس میں انھوں نے اپنے بیٹے کی ولدیت پر شک کرتے ہوئے اس کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کی درخواست کی تھی۔ عدالت عالیہ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہبچوں کو یہ حق ہے کہ کسی عدالت میں ان کیپیدائش سے متعلق بلاجواز سوال نہ اٹھایا جائے ۔

یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب چند برس قبل والد سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ بچے کی سکول فیس اور دوسرے خرچوں کے لیے پانچ ہزار روپیہ ماہانہ ادا کریں۔ بچے کے ماں باپ طلاق لے چکے ہیں اور بچہ ماں کے پاس رہتا ہے۔ والد نے یہ مطالبہ یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ وہ بچے کا بائیولیجکل بیٹا نہیں ہے۔ یہ معاملہ عدالت میں پہنچا اور ایک جوڈیشیل مجسٹریٹ نے یہ حکم دیا کہ بچے کا ناگپور کی ایک لیباریٹری میں ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جائے تاکہ اس کی ولدیت کی تصدیق ہو سکے۔

لیکن دو برس قبل خطے کی سیشن عدالت نے اس حکم کو کالعدم قرار دے دیا تھا اور اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ بچے کو اپنی ولدیت ثابت کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ بچے کے باپ نے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیاتھا۔

52 سالہ درخواست گزار اور بچے کی ماں کی ملاقات ایک فرم میں ملازمت کے دوران ہوئی تھی اور دونوں نے اپریل 2006 میں شادی کر لی تھی۔ ایک سال بعد 2007 میں ان کے ہاں بیٹا پیدا ہوا لیکن کچھ عرصے بعد دونوں میں طلاق ہوگئی۔

ہائی کورٹ کے جج جسٹس سنپ نے باپ کی بچے کا ڈی این کرانے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’اس طرح کے معاملات میں بچے کے مفاد اور اس طرح کے ٹیسٹ سے بچے کے مستقبل پر پڑنے والے ممکنہ مضر اثرات کو ہمیشہ ملحوظ نظر رکھا جانا چاہیے۔‘

جسٹس سنپ نے مزید کہا کہ بچے کو اپنی پیدائش سے پہلے کے حالات پر نہ کوئی اختیار تھا نہ اس میں اس کا کوئی کردار ہے۔

’ان حالات میں اگر بچے کی ولدیت کے تعین کے لیے ڈی این ٹسٹ کیا جائے اور اگر ٹیسٹ کے نتیجے سے یہ معلوم ہو کہ اس کا باپ کوئی اور ہے تو اس ٹیسٹ کا اس بچے کے ذہن پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے اور اس کی زندگی بری طرح متاثر ہو گی۔ اس کے سامنے یہ بھی ایک مسئلہ ہوگا کہ وہ اپنے حقیقحی باپ کو تلاش کرے۔‘

انھوں نے کہا کہ اس نوعیت کے معاملات میں انتہائی شاذ ونادر قسم کے معاملے میں ڈی این اے ٹیسٹ کی اجازت دی جانی چاہیے۔

گزشتہ مہینے سپریم کورٹ نے بھی بچے کے ڈی این اے ٹیسٹ کے ایک مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ ازدواجی اختلافات کے معاملوں میںنابالغ بچوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کرنے کا حکم صرف شاذ ونادر معاملات میں ہی دیا جانا چاہیے۔

’صرف اس بنیاد پر کہ والدین میں سے کسی ایک نے بچے کی ولدیت کے بارے میں سوال اٹھائے ہیںعدالت کو اس تنازع کے حل کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ یا اس طرح کا کوئی اور ٹیسٹ کرانے کا حکم نہیں دینا چا ہئیے۔ اس حالت میں عدالت کو دونوں فریقوں کو یہ ہدایت کرنی چاہیے کہ وہ حقیقی ولدیت کو ثابت کرنے یا اسے غلط ثابت کرنے کے لیے ثبوت پیش کریں ۔ اگر ان ثبوتوں کی بنیاد پر عدالت اس تنازعہ کو حل نہیں کر پاتی اوریہ معاملہ ڈی این اے ٹیسٹ کے بغیر حل نہیں کیا جا سکتا تو پھر وہ ٹیسٹ کی اجازت دے سکتی ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More