’عامر جمال کا گُر شاداب کو مات کر گیا‘: سمیع چوہدری کا کالم

بی بی سی اردو  |  Mar 17, 2023

Getty Images

شون ٹیٹ اکثر کہتے ہیں کہ فاسٹ بولنگ مہارت سے سوا ایک رویے کا نام ہے۔ گو درستی اور مہارت تو ناگزیر ہیں ہی مگر جب تک بھاؤ اور بھرم نہ ہو، فاسٹ بولر خوف اور دہشت کی علامت نہیں بن پاتے۔

یہ بھاؤ اور بھرم لفظی تکرار یا اشاروں کنایوں کینوک جھونک سے ماورا ہے۔ یہاں بولر کو نہ صرف اپنی صلاحیت کا بھرپور ادراک رکھنا ہوتا ہے بلکہ اپنی مہارت سے وہ درستی بھی برقرار رکھنا ہوتی ہے کہ چھ کی چھ گیندیں کسی میٹرونوم کی طرح ایک ہی لائن، ایک ہی لینتھ کو پے در پے ہدف بناتی چلی جائیں۔

یہ راز کسی سے مخفی نہیں تھا کہ زلمی کی ڈیتھ اوورز بولنگ اس کا کمزور ترین پہلو رہا ہے اور یہ حقیقت بھی سب پہ عیاں تھی کہ یونائیٹڈ کی لوئر آرڈر بیٹنگ بڑے سے بڑے ہدف کے تعاقب بھی سہولت اور اعتماد سے کر گزرتی ہے۔

شاداب خان چونکہ ہمیشہ ڈیٹا کی رہنمائی میں پیش رفت کرتے ہیں مگر یہاں وہ صرف اسی ایک نکتے پہ مرکوز رہ گئے اور کچھ نمایاں حقائق ان کی نظر سے محو رہ گئے۔ نہ تو لاہور کی پچ پر ہدف کا تعاقب آسان ہونے والا تھا اور نہ ہی پرانی گیند سے ویسا سچا باؤنس ملنے کی امید تھی جو نئی گیند پر نظر آیا۔

بابر اعظم اور صائم ایوب خوش بخت رہے کہ نئی نویلی پچ کے بہترین باؤنس اور یونائیٹڈ کی فاسٹ بولنگ کے خلجان کا خوب فائدہ اٹھایا۔ انہی کی کاوش کا اثر تھا کہ ایک وقت پر یہ پچ 220 جیسے تگڑے مجموعے کی حامل دکھائی دی۔ مگر جونہی گیند دس اوورز پرانی ہوئی، سیم کی کاٹ میں کچھ کمی آئی اور ٹائمنگ دشوار تر ہونے لگی۔

یونائیٹڈ نے نہ صرف ڈیتھ اوورز میں عمدہ بولنگ کی بلکہ پاور پلے میں زلمی کی بولنگ کے بھی خوب لتے لیے۔ پیسرز ہی نہیں، سپنرز بھی ہیلز اور صہیب مقصود کے نشانے پر رہے۔ مگر جونہی گیند کی دمک ماند پڑی، امکانات پلٹنے لگے۔

اگرچہ شاداب خان کی دور اندیشی قابلِ داد تھی جو پاور پلے کی مار دھاڑ کے باوجود بھانپ گئے تھے کہ میچ آخر تک جائے گا اور اسی کے پیشِ نظر بیٹنگ آرڈر میں بھی کچھ تبدیلیاں کی مگر چند فیصلے بہرحال بے مغز ثابت ہوئے۔

Getty Images

کولن منرو عمر بھر اوپننگ یا ٹاپ آرڈر میں اپنا کردار نبھاتے رہے ہیں اور ان کا خاصہ نئی گیند کو صفائی سے ہٹ کرنا ہے مگر یہاں جب ہیلز اور صہیب مقصود کی ساجھے داری نے طول پکڑا، شاداب منرو کو سپنرز کے جال سے بچانے کے لیے اعظم خان کو اوپر لے آئے۔

نہ صرف اعظم خان کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ گیند پرانی ہوتے تک منرو بھی بے اثر ہوتے چلے گئے اور اہم ترین میچ میں اپنے پی ایس ایل کریئر کی بدترین اننگز کھیل گئے جو اعتماد، اطمینان اور ٹائمنگ سے یکسر عاری تھی۔

عامر جمال نے فاسٹ بولنگ برتنے کا جو گُر شون ٹیٹ سے سیکھا تھا، وہ اسے ویسے ہی نبھانے میں کامیاب رہے۔ ڈیتھ اوورز میں دو مستند بلے بازوں سے نمٹنا بھی شاید اتنا بڑا چیلنج نہ ہوتا اگر مطلوبہ رن ریٹ یوں حقیر نہ ہوتا۔ لیکن عامر جمال کے یارکرز میں بولنگ مشین کی سی درستی نظر آئی اور ٹورنامنٹ کا بہترین لوئر آرڈر ٹورنامنٹ کی حقیر ترین ڈیتھ بولنگ سے مات کھا گیا۔

شاداب خان کو غور کرنا ہو گا کہ گذشتہ تین سیزنز سے وہ ہمیشہ ایک ہی غلطی کے مرتکب کیوں ہوتے ہیں۔ حالانکہ یہ پی ایس ایل کی وہ ٹیم ہے جو ٹورنامنٹ کے بیچ اپنے تجربات سے سیکھ کر پلے آف کے لیے حتمی الیون کی شکل طے کیا کرتی تھی۔

لیکن جیسے پچھلے سیزن میں انجریز ان کے آڑے آئی تھیں، ویسے ہی حالیہ سیزن کے حتمی راؤنڈ میں وننگ کمبینیشن سے بے وجہ چھیڑ چھاڑ نے یونائیٹڈ کی امیدوں پہ مہر لگا دی۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More