بونیر: گھر میں بنا سیوریج کا گٹر جو چار نوجوانوں کی جان لے گیا

بی بی سی اردو  |  Mar 16, 2023

ایک بھائی اپنے چھوٹے بھائی کو بچانے کے لیے سیوریج گٹر میں اتر گیا، جب دونوں خاموش ہوئے تو گھر والوں نے پڑوسیوں کو آواز دی ، دونوں پڑوسی کزن بھی مدد کے لیے نیچے اترے اور وہ بھی وہیں خاموش ہو گئے۔

غلام اکبر سبزی فروش ہیں اور خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر کے ایک پسماندہ گاؤں میں ان کا ایک چھوٹا سا مکان ہے۔ منگل کی رات ان کے گھر میں ایک قیامت گزر گئی۔ ان کا ایک بیٹا اور پھر دو پڑوسی ایک چھوٹے بیٹے کو بچانے کے لیے گھر کے اندر سیوریج ٹینک میں اترے جہاں زہریلی گیس سے ان کا دم گھٹ گیا اور چاروں جان گنوا بیٹھے۔

گٹر کی صفائی یا موت کا کنواں

غلام اکبر نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ حادثہ پیش آ سکتا ہے۔ ہمارا چھوٹا سا گھر ہے یہاں چونکہ سیوریج کا نظام نہیں ہے اس لوگوں نے گھروں کے اندر سیوریج ٹینک بنا رکھے ہیں جب وہ بھر جاتے ہیں تو مشین کے ساتھ ان کی صفائی کر دی جاتی ہے۔

کل رات دیر سے ان کے دونوں بڑے بیٹے گٹر کی صفائی کر رہے تھے۔’ معلوم نہیں گٹر کے اندر کیا تھا کہ یہ حادثہ ہوا ہے۔ میرا ایک بیٹا پانچویں جماعت اور دوسرا نویں جماعت میں پڑھ رہا تھا۔ ‘

گٹر کی صفائی کے دوران اچانک مشین بند ہو گئی ایک بھائی نے دوسرے سے کہا کہ نیچے گٹر میں مشین پھنس گئی ہے اسے نکالو ، چھوٹا بھائی جیسے نیچے اترا تو پھر ایک دم اچانک خاموش ہو گیا۔ بڑا بھائی چھوٹے بھائی کو نکالنے کے لیے نیچے اترا تو وہ بھی خاموش ہوگیا۔

غلام اکبر نے بتایا کہ اس وقت خواتین گھر میں موجود تھیں انھوں نے شور مچانا شروع کیا اور پڑوسیوں کو آواز دی تو دو چچا زاد بھائی ان کے دونوں بیٹوں کی مدد کو بھاگتے ہوئے آئے۔ انھوں نے جب گٹر میں دیکھا تو دونوں لڑکوں کو بچانے کے لیے ان میں سے ایک گٹر میں نیچے اترا تو وہاں اتنی زہریلی گیس تھی کہ وہ لڑکا بھی واپس نہیں آیا اور پھر اس کا کزن بچانے کے لیے نیچے اترا اور وہ بھی واپس نہیں آیا۔

صورتحال جب انتہائی تشویشناک ہوئی تو اہل علاقہ بھاگے وہ پولیس اور دیگر میونسپل اہلکاروں کو لے آئے تاکہ ان لڑکوں کو گٹر سے نکالا جا سکے۔

پولیس نے کیا کِیا؟

یہ نیم شب کا وقت تھا سب پریشان تھے پولیس پہنچی تو انھوں نے لڑکوں نکالنے کی کوشش کی ہے۔ اس علاقے کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس شیر ولی نے بتایا کہ پولیس اہلکار جب پہنچے تو انھوں نے لڑکوں کو نکالنے کی کوشش کی تو انھیں شروع سے ہی گھٹن محسوس ہوئی اور وہ بے ہوش ہو رہے تھے اس وجہ سے وہ نیچے گٹر میں نہیں اتر سکے۔ اس کے بعد میونسپل اہلکار پہنچے اور لڑکوں نکالا گیا۔ ان کی تدفین بدھ کو شام تک کر دی گئی ہے۔

شیر ولی خان نے بتایا کہ اس گاؤں میں یہ غریب لوگ ہیں اور ان کے چھوٹے مکان ہیں جہاں سیوریج کا نظام نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک حادثہ تھا جہاں سیوریج گٹر میں گیس کی نکاسی کے لیے پائپ نہیں ہے۔ عام طور پر اس علاقے میں لوگ گھروں کے اندر کنویں کھود کر اس میں گٹر کا پانی اور سیوریج کا پانی جمع ہوتا ہے جب کنواں بھر جاتا ہے تو اس کے لیے مشینیں منگوا کر اس کو خالی کردیا جاتا ہے۔

غلام اکبر اور اس کے پڑوسیوں کی حالت

ایک ہی دن میں چار جنازے اٹھائے جانے کے بعد علاقے میں گہرا سوگ ہے۔ غلام اکبر نے بتایا کہ گھر میں خواتین کی حالت انتہائی غیر ہے بچوں کی ماں غم زدہ ہے اور ان کے لیے ڈاکٹروں کو بلایا گیا ہے ۔ بہنیں بھی سخت پریشان ہیں، سب رو رہے ہیں ۔

میرے بیٹے تو تعلیم کے بعد مدرسے جاتے تھے اور اس کے بعد میرے ساتھ سبزی کی ریڑھی پر میری مدد کے لیے آجاتے تھے۔ ان کے ایک بیٹے حامد علی کی عمر تیرہ سال تھی وہ پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا، دوسرے محمد کی عمر 16 سال تھی اور وہ نویں جماعت میں پڑھ رہا تھا۔ دونوں سوتیلے بھائی تھے، حامد علی کی ماں فوت ہو چکی ہے اور وہ پہلے گٹر میں اترا تھا اور محمد نے اپنے سوتیلے بھائی کو بچانے کے لیے گٹر میں چھلانگ لگا دی تھی ۔

ان لڑکوں کو بچانے والے دونوں پڑوسی آپس میں چچا زاد بھائی تھے۔ ان میں نوید علی بڑے تھے اور ان کی عمر27 سال بتائی گئی ہے ان کی چند ماہ پہلے ہی منگنی ہوئی تھی اور اب شادی کی تیاریاں جاری تھیں۔ دوسرے کزن احسان علی کی سات ماہ پہلے شادی ہوئی تھی، ان کی عمر 25 سال بتائی گئی ہے۔

غلام اکبر نے بتایا کہ دونوں گھرانوں میں سوگ ہے، پورا گاؤں جمع ہے اور علاقے کے لوگ ان کے غم میں شریک ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے بچے تو میرے بڑھاپے کا سہارا تھے، میری عمر اب ایسی نہیں ہے کہ میں کام کر سکوں، یہ آسرا تھا کہ اب بیٹے بڑے ہو رہے ہیں کام سنبھال لیں گے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More