برطانوی سائنسدان دنیا کے دو سب سے بڑے برفانی تودوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں جو کہ ان علاقوں کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں وہ جہاز رانی، ماہی گیری اور جنگلی حیات کو متاثر کر سکتے ہیں۔
انٹارکٹیکا سے ٹوٹنے والے یہ منجمد بلاک پگھلنے اور خشک ہونے میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔
برف کی ان چٹانوں میں سے ایک کو اے 81 اور دوسرے کو76 اے کا نام دیا گیا ہے۔
محققین کی ٹیم نے اے 81 نامی کی تصویر کھینچی ہے جس کا سائز گریٹر لندن شہر جتنا ہے۔ محققین کی ایک اور ٹیم اے 76 اے کا جائزہ لے رہی ہے جس کا سائز کارنوال کاؤنٹی جتنا ہےیعنی 3000 مربع کلو میٹر ہے۔
اس آئس برگ کی ساخت طویل اور پتلی ہے اور کچھ لوگ اس کی ظاہری شکل کا موازنہ ایک بڑے استری بورڈ سے کر رہے ہیں۔
پروفیسر جیرائنٹ ٹارلنگ رائل ریسرچ شپ ڈسکوری پر سوار تھے جنھیں اس آئس برگ کا معائنہ کرنے کا موقع ملا جب یہ قطب جنوبی کے ویڈیل سمندر سے نکل کر جنوبی بحر اوقیانوس میں چلا گیا۔
ماہر سمندری حیاتیات پروفیسر جیرائنٹ نے بی بی سی نیوز کو بتایا: 'جب ہم گھر سے روانہ ہوئے تو یہ ہمارے راستے میں تھا لہذا ہم نے اس کے گرد کا چکر لگانے کے لیے 24 گھنٹے نکالے۔
BBC
ہم کچھ جگہوں پر اس کے کافی قریب تھے اور اس کو بہت اچھی طرح دیکھا۔ ہم نے جہاز کے نیچے خصوصی غیر آلودہ پائپوں کا استعمال کرتے ہوئے اس برف کے بلاک کے آس پاس سے پانی جمع کیا، اس لیے ہمارے پاس مطالعہ کے لیے بہت سے نمونے ہیں۔'
برٹش انٹارکٹک سروے کے سائنسدان نے بتایا کہ بڑے فلیٹ ٹاپ یا ٹیبلر آئس برگس کا ان کے ماحول پر کافی اثر پڑا ہے اور یہ اثر اچھا بھی ہے اور برا بھی ہے۔
جیسے جیسے وہ پگھلیں گے وہ تازہ پانی کی بڑی مقدار کو سمندر میں ڈالیں گے جس کی وجہ سے کچھ جانداروں کے لیے جینا مشکل ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب ان کے پگھلنے سے وہ معدنی دھول بھی نکلتی ہے جو برف میں اس وقت شامل ہوئی تھی جب یہ قطب جنوبی کی چٹان کی تحہ کے ساتھ لگنے والے گلیشیر کا حصہ تھی۔ یہ دھول غذائی اجزاء کا ذریعہ ہے جو کھلے سمندر میں زندگی کو فروغ دے گی۔
A76a نامی بلاک کی ابتدا اس کی موجودہ پوزیشن سے بہت دور جنوب میں ہوئی تھی، جو مئی سنہ 2021 میںآئس شیلف سے بچھڑ گئی تھی۔
یہ آئس برگ والا بلاک اب شمال کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ سمندری لہروں اور ہواؤں کے ذریعے برطانوی سمندر پار علاقوں فاک لینڈز اور جنوبی جارجیا کے درمیان والے خلا کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔
اس بارے میں کچھ تشویش ہے کہ یہ مشرق کی طرف جنوبی جارجیا کی طرف جا سکتا ہے اور اپنے براعظمی شیلف کے اتھلے پانیوں یا ممکنہ طور پر قریبی جزیروںپھنس سکتا ہے۔
دونوں جگہوں پر یہ مقامی جنگلی حیاتیات اور لوگوں کے لیے مشکلات کا باعث ہوگا۔
جنوبی جارجیا اور جنوبی سینڈوچ جزائر میں حکومت کے ماہی گیری اور ماحولیات کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مارک بیلچیئر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 'اگر یہ زمین پکڑ لیتا ہے (یعنی ٹھہرجاتا ہے) تو ہماری سب سے بڑی تشویش اس میں آنے والی ٹوٹ پھوٹ کے متعلق ہوگی جس سے علاقے میں جہازوں کی نقل و حرکت پر اثرات ہوں گے۔'
'اگرچہ سیاحتی سیزن ختم ہو رہا ہے لیکن ہماری ماہی گیری سردیوں کے مہینوں میں کام کرتی ہے اس لیے یہ ان کے کاموں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ اس میں ہماری جنگلی حیات میں سے کچھ کے لیے مقامی سطح کے مسائل پیدا کرنے کی صلاحیت ہے، حالانکہ اس کا امکان کم ہے کیونکہ اگر یہ سردیوں میں ٹوٹتا ہے جب زیادہ تر جانور زیادہ فاصلے پر چلے جاتے ہیں اور انھیں اپنے بچوں کو کھلانے کے لیے زمین پر واپس جانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے یا پھر وہ مکمل طور پر جزیرے سے دور ہو جاتے ہیں۔'
لندن کے سائز کا آیس برگجنوری کے آخر میں برنٹ آئس شیلف سے الگ ہوا ہے۔
اس کے کئی سال پہلے ہی ٹوٹ کر الگ ہونے کا امکان تھا لیکن سائنسدانوں کی پیشین گوئیوں برخلاف یہ کسی نہ کسی طرح برف کی ایک پتلی پرت سے براعظم سے جڑا رہا۔ اس کی حتمی منزل اے 76 اے کی نقش قدم پر جنوبی بحراوقیانوس کے اس حصے میں پہنچنا ہے جہاں جہاز چلتے ہیں۔
بی اے ایس کی ایک ٹیم کو اس آئس برگ کے اوپر سے پرواز کرنے کا موقع ملا جب وہ جنوبی نصف کرہ کے موسم گرما کے اختتام پر ہیلی ریسرچ سٹیشن کو بند کر کے وہاں سے نکلے تھے۔
تصویروں میں ان کے سفید حجم کو دیکھ کر آئس برگ کے سائز کا اندازہ لگانا اکثر مشکل ہوتا ہے۔
لیکن A81 اور A76 دونوں کے معاملے میں یہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ آپ جو کچھ دیکھتے ہیں وہ اس چیز کا صرف ایک حصہ ہے۔
دکھائی دینے والی چٹانیں پانی کی سطح کے اوپر دسیوں میٹر تک اٹھی نظر آئی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ برف کا تودہ پانی کی سطح کے اندر سیکڑوں میٹر تک نیچے تک پھیلا ہوا ہے۔
سب سے بڑے آئس برگ کا وزن ایک ٹریلین ٹن ہو سکتا ہے۔
کہا جاتا ہے اس وقت دنیا کا سب سے بڑا آئس برگ اے23 اے ہے۔ اس کا رقبہ تقریباً 4000 مربع کلومیٹر ہے۔ اے 76 اے کی طرح یہ فلشنر-رون آئس شیلف سے ٹوٹ کر نکلا ہے لیکن اسے نکلے ہو بہت طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ یہ سنہ 1986 میں نکلا تھا۔ یہ جنوبی وسطی ویڈل سمندر میں کئی دہائیوں تک 'برف کے جزیرے' کے طور پر رہا ہے۔