BBC
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ جس طرح پنجاب کی نگراں حکومت نے ان کی جماعت کی انتخابی ریلی پر پابندی عائد کی اور انھیں 80 کے قریب مقدمات میں الجھایا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی جماعت کو انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں ہے۔
بی بی سی اردو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’لاہور میں تمام جماعتیں سیاسی سرگرمیاں کر رہی ہیں لیکن نگراں حکومت نے صرف ہماری ریلی پر پابندی لگائی ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ ہمیں الیکشن مہم چلانے کی اجازت ہے یا نہیں کیونکہ ایک طرف میرے خلاف 80 مقدمات قائم کیے گئے ہیں اور میرے جماعت کے لوگوں پر بھی مقدمات بنائے جا رہے ہیں۔‘
سابق وزیر اعظم نے الزام عائد کیا کہ ’اب جب ہم اپنی انتخابی مہم لانچ کرنا چاہ رہے ہیں تو وہ بھی نہیں کرنے دے رہے۔ آئندہ الیکشن پی ٹی آئی انتخابی مہم کے بغیر لڑے گی؟‘
پنجاب کی نگراں حکومت کی جانب سے آٹھ اور 12 مارچ کو پی ٹی آئی کی ریلی پر پابندی عائد کرنے پر بات کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ ’اب ہم پیر کو لاہور ہائی کورٹ سےریلی کی اجازت لے رہے ہیں۔ وہ فیصلہ کریں کہ کیا یہ الیکشن انتخابی مہم کے بغیر لڑا جائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اب صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں کم وقت رہ گیا ہے اور اس سلسلے میں وہ انتخابی جلسوں کے حوالے سے اپنا پورا لائحہ عمل جلد ہی دیں گے۔
واضح رہے کہ پنجاب کی نگراں حکومت نے لاہور میں پی ٹی آئی کی 12 مارچ کو ہونے والی ریلی سے قبل شہر میں دفعہ 144 نافذ کر دی تھی جس کے باعث اسے منسوخ کر دیا گیا تھا۔
تاہم اتوار کے روز ضلعی انتظامیہ نے تحریک انصاف کو لاہور میں ریلی کی اجازت دے دی ہے جس کے بعد عمران خان کی جماعت نے آج دوپہر لاہور میں اس ریلی کو منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
دوسری جانب پیر کے روز اسلام آباد کی مقامی عدالت نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی آگے بڑھانے کی غرض سے طلب کر رکھا تھا جہاں پیش ہوتے ہوئے ان کے وکیل نے ایک اور مرتبہ حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی ہے۔ یاد رہے کہ اس کیس میں فرد جرم کی کارروائی 28 فروری کو ہونا تھی تاہم بار بار حاضری سے استثنی کی درخواستوں کے باعث یہ معاملہ آگے نہیں بڑھ پا رہا۔
اپنے خلاف مقدمات میں عدالت میں پیش ہونے کے سوال کے جواب میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے اپنے خلاف مقدمات میں عدالت میں پیش ہونے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے مگر میری جان کو خطرہ ہے اس لیے عدالت سے تحفظ مانگ رہے ہیں اور اگر وہ یہ سکیورٹی نہیں دی سکتی تو ویڈیو کانفرنس کے ذریعے پیش ہونے کی اجازت دے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے وکلا پیر کے روز اسلام آباد میں ہونے والی توشہ خانہ کی عدالتی سماعت میں پیش ہوں گے۔ وزارتِ داخلہ نے بڑے واضح طور پر کہا ہے کہ میری جان کو خطرہ ہے۔ میں عدالت سے یہی کہہ رہا ہوں کہ اگر جان خطرے میں ہے تو سکیورٹی دیں۔‘
’سپریم کورٹ سے سکیورٹی مانگ رہے ہیں‘ BBC
سابق وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ان کی جان کو وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سے ہی خطرہ ہے اس لیے سپریم کورٹ سے سکیورٹی مانگ رہے ہیں کیونکہ انھیں حکومت پر اعتبار نہیں۔
وزیر اعظم اور وزیر داخلہ پر الزام عائد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’یہ مجھے مارنے کی سازش میں ملوث تھے۔‘
جب ان سے کہا گیا کہ یہ الزام ہے تو ان کا کہنا تھا’بالکل، یہ میرا حق ہے۔ پہلے بھی جب مجھ پر حملہ ہوا تھا تو اس سے ایک ماہ قبل سے کہہ رہا تھا کہ مجھ پر مذہبی اتنہا پسندی کے نام پر حملہ ہونے والا ہے اور وہ ہو گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں ’دہشت کی فضا ہے، اور ہم سب اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ مجھے جن سے خطرہ ہے انھوں نے ہی مجھے بچانا ہے۔‘
انھوں نے سکیورٹی دینے کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا کہ جب دو مرتبہ وہ لاہور اور اسلام آباد کی ہائیکورٹ میں پیش ہوئے تو ادھر کوئی خاطر خواہ سکیورٹی نہیں تھی اور اگر کوئی واردات کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔
انھوں نے انڈیا کے سابق وزرائے اعظم نرسمہا راؤ اورراجیو گاندھی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم بالکل وہ ہی چیزیں کہہ رہے ہیں جو انڈیا میں ہو چکا ہے۔ ہم صرف سکیورٹی مانگ رہے ہیں۔ اور اگر آپ نہیں دے سکتے تو اب ویڈیو کانفرنس پر سب ہو جاتا ہے۔‘
’ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا‘
ملک میں حالیہ انتہاپسندی کے حوالے سے عمران خان کے ناقدین ان کی تحریکِ طالبان پاکستان سے مذاکرات کرنے اور انھیں دوبارہ ملک میں آباد کرنے کے عمل کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے چیئرمین تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ ’افغانستان میں افغان طالبان نے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد پاکستان سے مطالبہ کیا کہ ٹی ٹی پی کے 30 سے 40 ہزار لوگ تھے جو افغانستان چلے گئے تھے ان کو واپس بلایا جائے، ان میں سے پانچ سے چھ ہزار جنگجو بھی تھے۔ اب جب افغان طالبان نے کہہ دیا کہ انھیں واپس لے جاؤ تو ہمارے پاس کیا راستہ تھا؟‘
انھوں نے کہا کہ ’یا تو ہم انھیں پکڑ کر کے مار دیتے یا پھر انھیں دوبارہ نہایت ہی منظم طریقے سے، مقامی افراد کی مشاورت سے معاشرتی دھارے میں واپس لے کر آتے اور تو کوئی تیسری چوائس نہیں تھی۔‘
خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع میں جب مقامی افراد نے برملا انداز میں انھیں دوبارہ قومی دھارے میں شامل کر کے بسانے سے انکار کیا تو ان کو واپس کیوں لایا گیا؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’جب افغانستان سے کہا گیا کہ یہ پاکستان کے شہری ہیں انھیں واپس لے لو۔ تو کیا کرتا پاکستان؟ یا تو ان کو جیلوں میں ڈال دیتا۔ ہم 35، 40 چالیس ہزار لوگوں کی بات کر رہے ہیں۔ تو پاکستان کے پاس ان سے مذاکرات کر کے انھیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ گذشتہ برس موسم گرما جب انتہا پسندی نے پہلی مرتبہ سر اٹھانا شروع کیا تو اس وقت پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوا حکومت نےوفاقی حکومت سے کہا کہ یہ بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ آپ کچھ کریں۔ مگر کوئی ریسپانس ہی نہیں ملا۔
عمران خان نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ انھیں پاکستان میں لے آئے ہیں اور انھیں بحال بھی نہیں کیا تو مسائل تو آنے تھے۔ حل یہ ہے کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کریں اور اگر کسی چیز پر مذاکرات نہیں ہو سکتے، تو مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پھر آپ کو بندوقیں اٹھانی پڑیں گی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پہلی کوشش تو ہونی چاہیے کہ انتشار نہ ہو۔ اس کے لیے مقامی لوگوں کو شامل کرنا بہت ضروری ہے۔‘