Getty Images
’انڈیا میں جمہوریت کے ہر تصور پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ ملک کے سبھی جمہوری اداروں پر بی جے پی اور آر ایس ایس نے قبضہ کر لیا ہے۔ ملک کی جمہوریت کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ اگر یہ ٹوٹ گئی تو اس کا عالمی سطح پر اثر ہو گا۔‘
ان خیالات کا اظہار انڈیا کے اپوزیشن رہنما راہل گاندھی نے گذشتہ دنوں لندن میں برطانیہ کی پارلیمنٹ اور بعض دیگر مقامات پر انڈیا کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کیا ہے۔
راہل گاندھی کا کہنا تھا کہ ’ہماری حکومت اپوزیشن کو اپنے خیالات کے اظہار کا موقع نہیں دیتی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’وہ ’بھارت جوڑو یاترا ‘ کے لیے مجبور ہو گئے تھے کیونکہ بی جے پی اور آر ایس ایس نے ان سبھی اداوں پر قبضہ کر لیا ہے جو آزادئ اظہار کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔‘
راہل گاندھی نے بی جے پی کی نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کا موازنہ مصر کی انتہا پسند تنظیم ’مسلم برادروڈ ‘ سے کیا اور کہا ’آر ایس ایس ایک خفیہ فسطائی تنظیم ہے۔ یہ مسلم برادروڈ کے طرز پر تشکیل دی گئی ہے۔ اس کا مقصد جمہوری طریقے سے منتخب ہو کر اقتدار حاصل کرنا اور پھر اسی جمہوری انتخابی نظام کو سبوتاژ کرنا ہے۔ میں یہ دیکھ کر حیران ہوں کہ اس نے کس طرح ملک کے مختلف جمہوری اداروں پر کامیابی سے قبضہ کر لیا ہے۔‘
’راہل نے انڈیا کی جمہوریت، پارلیمنٹ اور عوام کی توہین کی‘
غیر ملک میں راہل گاندھی کے ان بیانات کو آر ایس ایس اوربی جے پی نے ملک پر حملہ اور شرمناک قرار دیا ہے۔ بی جے پی کے سینئر ترجمان روی شنکر پرساد نے کہا ’راہل گاندھی ماؤ وادی نراجیت پسند ذہنیت کی گرفت میں ہیں۔ انھوں نے غیر ملک میں جا کر مودی حکومت اور آر ایس ایس پر جو تنقید کی ہے اس کا مقصد ملک میں امریکہ اور یورپ کو مداخلت کے لیے اکسانا ہے۔ راہل نے انڈیا کی جمہوریت، پارلیمنٹ اور عوام کی توہین کی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’آر ایس ایس قوم پرستی کی تعلیم دیتی ہے۔ وہ کل بھی ملک کی خدمت کر رہی تھی اور آئندہ کل بھی کرتی رہے گی ۔اس کے ہزاروں ارکان آج ملک کی انتظامیہ کا حصہ ہیں۔ آر ایس ایس پر راہل کا الزام انتہائی شرمناک ہے۔‘
آر ایس ایس نے بھی اس پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ تنظیم کے سینئر رہنما اندریش کمار نے کہا کہ ’راہل کو انڈیا کی جمہوریت پر بھروسہ نہیں ہے، حکومت پر بھروسہ نہیں ہے۔ یہ غیر ممالک میں انڈیا کو بدنام کرنے اور نفرت پھیلانے کی سازش ہے۔‘
انڈیا کی جمہوریت کے بارے میں راہل گاندھی جس وقت لندن میں بیان دے رہے تھے اس وقت انڈیا کے دارالحکومت دلی میں سی بی آئی دلی کے مقبول رہنما اور نائب وزیر اعلیٰ منیش سیسودیا کو ریاست کی آبکاری پالیسی میں کسی مبینہ بدانتظامی کے لیے گرفتار کر رہی تھی۔ سی بی آئی نے تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے سی راؤ کی بیٹی کویتا کو بھی اسی معاملے میںپوچھ گچھ کے لیے طلب کیا ہے۔
Getty Images
دلی اور تلنگانہ ریاست میں بی جے پی کو 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں دونوں اپوزیشن جماعتوں سے زبردست چیلنج کا سامنا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں سیسودیا کی گرفتاری پر برہم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکمراں جماعت بی جے پی، سی بی آئی، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ، ای ڈی اور انکم ٹیکس جیسے اداروں کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد ان اداروں نے 95 فیصد سے زیادہ کیسز میں اپوزیشن رہنماؤں کو ہدف بنایا ہے۔ سیسودیا کی گرفتاری پر اپوزیشن کے کئی رہنماؤں اور وزراء اعلی نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھ کر تشویش ظاہر کی ہے اور ان سے درخواست کی کہ وہ ان اندیشوں کی نفی کریں کہ ان اداروں کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔
خط لکھنے والے رہنماؤں میں بہار کےلالو پرساد یادو کے بیٹے اور نائب وزیر اعلیٰ تییجسوی یادو بھی تھے ۔اگلے ہی روز سی بی آئی ایک دس سال پرانے کیس میں تیجسوی کے والدین اور سابق وزراء اعلیٰ لالو پرساد یادو اور رابڑی دیوی سے کئی گھنٹے کی پوچھ گچھ کے لیے پہنچ گئی۔ اس معاملے میں ان سے پہلے بھی پوچھ گچھ کی جا چکی ہے۔
بہار ایک ایسی ریاست ہے جو آئندہ پارلیمانی انتخابات میں مودی کے سیاسی مارچ کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔
اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف تفتیشی اداروں کے چھاپے، حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات پر نکتہ چینی کرنے والے این جی اوز اور سول سوسائٹی پر قدغنیں اور میڈیا سے اپوزیشن کی آواز غائب ہو جانے سے ملک کی حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں اور جمہوریت پسندوں میں جمہوریت کی بقا کے بارے میں شدید اندیشے پیدا کر دیے ہیں۔
Getty Images
اہم پہلو یہ ہے کہ جمہوریت کو ممکنہ خطرے کے اندیشوں کے درمیان مودی کی انفرادی مقبولیت برقرار ہے۔ ان کے حامی انڈیا میں ہی نہیں غیر ممالک میں مقیم دائیں بازو کے خیالات رکھنے والے انڈین نژاد شہری بھی ان کی ہر پالیسی کے گرویدہ نظر آتے ہیں۔
انڈیا کی حکومت اب یہ سمجھنے لگی ہے کہ یورپ اور امریکہ کی حکومتوں کو انڈیا کی اندرونی سیاست اور جمہوریت کے مستقبل میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ انھیں صرف تیزی سے ابھرتے ہوئے اقتصادی انڈیا سے تجارتی سودے کرنے میں دلچسپی ہے۔
مودی کے حامی ان کی ہر پالیسی کو اتنی ہی شدت سے پسند کرتے ہیں جتنی شدت سے ان کے مخالفین ان کی مخالفت کر رہےہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مودی کو اس وقت وزیر اعظم کے طور پر جو مقبولیت حاصل ہے وہ غالبآ نہرو کے بعد شاید ہی کسی وزیر اعظم کو حاصل ہوئی ہو۔
یہ مقبولیت بلا شبہ مودی نے اپنی انفرادی سیاسی صلاحیت سے حاصل کی ہے۔ مودی کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کانگریس پارٹی 60 برس سے زیادہ عرصے تک اقتدار میں رہی لیکن وہ بی جے پی کی حکومت کو عوامی مقبولیت کے باعث برداشت نہیں کر پا رہی ہے۔
لیکن دوسری جانب ملک میں جموریت کا گراف مسلسل گر رہا ہے۔ حقوق انسانی کی تنظیموں اور کارکنوں کے خلاف طرح طرح کے مقدمے بنائے جا رہے ہیں۔ متعدد صحافیوں اور جریدوں کے خلاف کیسز درج ہیں۔ یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں ایسے بحث ومباحثوں پر پابندی ہے جن میں حکومت پر تنقید ہو سکتی ہے۔ حزب مخالف کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو کبھی انکم ٹیکس، کبھی سی بی آئی تو کبھی ای ڈی کی جانب سے طلب کیا جاتا ہے۔
Getty Images’ملک کی جمہوریت کو سنگین خطرہ ہے‘
آزاد رکن پارلیمان اور سرکردہ وکیل کپل سبُل کہتے ہیں ’اگر یہی چلتا رہا تو ملک کی جمہوریت کو سنگین خطرہ ہے۔ جہاں جہاں ناانصافی ہو رہی ہے اس کے خلاف لڑائی لڑنا ہو گی۔‘
کپل نے اپوزیشن جماعتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ متحد ہو کر سپریم کورٹ سے ’بے جا چھاپوں اور گرفتاریوں سے تحفظ مانگیں۔‘
تقریباً ایک برس قبل امریکہ کے ارب پتی اور جمہوریت کے علم بردار جارج سوروس نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا ’مجھے اپنی زندگی کے اس مرحلے میں سب سے بڑا ملال انڈین جمہوریت کے پھسلنے کا ہے۔ یہ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ انڈیا میں جمہوریت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔‘
دنیا بھر میں جمہوریت کی صورتحال کا جائزہ لینے والے سویڈن کے ادارے ’وی ڈیم انسٹی ٹیوٹ‘ کی مارچ کے اوائل میں جاری کی گئی سالانہ رپورٹ میں لبرل جمہوریت کی فہرست میں انڈیا کو 108 ویں مقام پر رکھا ہے۔ گذشتہ برس یہ 100ویں مقام پر تھی۔ رپورٹ کے مطابق جمہوریت انڈیکس میں انڈیا میں جمہوریت کی صورتحالتنزانیہ، بولویا، سنگاپور، نائجیریا اور میکسکو جیسے ممالک سے بھی نیچے آ چکی ہے۔ جرمنی اور سویڈین کے پولیٹیکل سائنٹسٹ کے ایک گروپ نے اکیڈمک آزادی کی اپنی حالیہ عالمی رپورٹ میں کہا ہے کہ انڈیا میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد تعلیمی اور ثقافتی آزادی اور اداراجاتی خود مختاری کو بہت شدید نقصان پہنچا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’2009 کے بعد ملک کی یونیورسٹیوں کی خود مختاری بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ 2014 کے بعد تعلیمی آزادی کے ہر پہلو میں زوال آ گیا ہے۔‘
Getty Images
انڈیا کی حکومت ان تنقیدی رپورٹوں کو بے معنی اور پراپیگنڈاکہہ کر مسترد کر دیتی ہے۔ ان رپورٹوں کو عموماً انڈین میڈیا میں جگہ بھی نہیں ملتی۔ حکومت اور حکمراں پارٹی کا خیال ہے کہ غیر ممالک کے یہ ادارے مودی کی قیادت میں انڈیا کی بڑھتی ہوئی سیاسی اور اقتصادی قوت سے حسد میں مبتلا ہیں اور وہ ملک کی شبیہ کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔
چند ہفتے قبل جب انڈیا کے سرکردہ صنعتکار گوتم اڈانی کے بارے میں امریکہ کے ریسررچ گروپ ہنڈن برگ کی منفی رپورٹ آئی تو اسے بھی میڈیا میں ’انڈیا کی ترقی کے خلاف بین الاقوامی سازش‘ کے طور پر دیکھا گیا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک کے جمہوری ادارے حکمراں دائیں بازو کے نظریات کی زد میں ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن رہنما راہل گاندھی نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے ملک کے بجائے غیر ملک کا انتخاب کیا۔ کیونکہ یہاں میڈیا پر ان کی باتیں شاید آ ہی نا پاتیں۔ لیکن حکومت کا ردعمل ضرور آ جاتا۔
ملک میں 2024 میں پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں۔ حکمراں پارٹی نے ابھی سے ہی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے ۔ نریندر مودی تیسری بار وزارت عظمی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان کے لیے راستہ فی الحال بظاہر ہموار نظر آ رہا ہے۔ اپوزیشن بھی اس مرحلے پر انتشار کا شکار ہے۔
معروف تجزیہ کار سنجے جھا کہتے ہیں اپوزیشن اگر حکومت سے سوال کرتی ہے تو انھیں گرفتار کیا جاتا ہے، ملک میں خوف اور پابندیوں کا ماحول ہے۔ ان کے خیال میں یہ بی جے پی کی گھبراہٹ کا اشارہ ہے۔
ان کے مطابق ’بی جے پی کو ہرانا ایک چیلنج ضرور ہے لیکن مشکل نہیں ہے۔ ان کے پاس وسائل ہیں ، اقتدار ہے، ادارے ہیں۔ جمہوریت آئی سی یو میں ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو جمہوریت اور آئین بچانے کے لیے متحد ہو جانا چاہیے۔ بی جے پی کے پاس اتحادی نہیں ہیں اور انھیں بہت سی ریاستوں میں اپوزیشن کے شدید چیلنج کا سامنا ہے۔‘
لیکن یہ کام آسان نہیں ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں کی توجہ جمہوریت پر نہیں اس بات پر مرکوز ہے کہ ممکنہ اپوزیشن محاذ کی قیادت کون کرے گا۔
آئندہ پارلیمانی انتخاب صرف حکومت کا فیصلہ نہیں کریں گے وہ ملک کی جمہوریت کے مستقبل کا بھی فیصلہ کریں گے کہ وہ کونسا رخ اختیار کرتی ہے۔