Reuters
سعودی عرب کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق چین کی ثالثی میں سعودی اور ایرانکے مابین سفارتی تعلقات بحال کرنے کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔
سعودی عرب کے میڈیا کے مطابق صدر شی جن پنگ کی کوششوں سے ایران اور سعودی عرب کے حکام کے مابین 6 سے 10 مارچ مذاکرات ہوئے تھے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’سعودی عرب اور ایران کے درمیان اچھے تعلقات کی بحالی کے لیے چین کی جانب سے کیے گئے اقدامات کے جواب میں تینوں ممالک اعلان کرتے ہیں کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے۔‘
سعودی سرکاری پریس ایجنسی کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق ’سعودی عرب، ایران اور چین کی اعلٰی قیادت کے مابین ہونے والے معاہدے کے تحت سعودی عرب اور ایران کے درمیان مذاکرات کی میزبانی چین کرے گا۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ معاہدے کی رو سےدونوں ممالک دو ماہ کے اندر سفارت خانوں کو دوبارہ کھولنا اور ممالک کی خود مختاری کا احترام اور ان کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت شامل ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان 'اچھے ہمسایہ تعلقات' کو فروغ دینا ہے اور ان کے اختلافات کو بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے حل کرنا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب اور ایرانی وزرائے خارجہ معاہدے کی شرائط کو فعال بنانے تبادلہ خیال کرنے کے لئے ایک اجلاس منعقد کریں گے۔
Getty Images
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ 2001 کے سیکیورٹی تعاون کے معاہدے اور معیشت، سائنس اور کھیلوں سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے لئے 1998 کے معاہدے کو بھی فعال کیا جائے گا۔
گذشتہ سال دسمبر میں شی جن پنگ نے دورہ سعودی عرب کے دوران مشرق وسطیٰ کے رہنماؤں کو ساتھ اکٹھا کیا تھا، جس کے بعد سعودی مقامی اور عرب میڈیا میں کافی قیاس آرائیاں شروع ہو گئی تھیں۔
گذشتہ ماہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے چینکا دورہ کیا تھا جس نے عرب میڈیا کی خاص توجہ حاصل کی تھی۔مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ریاض اور تہران نے اس اقدام پر چینی قیادت کا شکریہ ادا کیا اور عمان اور عراق کی جانب سے مذاکرات کے گذشتہ دور کی میزبانی کی تعریف کی۔
دونوں فریقین یعنی سعودی عرب اور ایران نے سنہ 2021 اور 2022 میں گذشتہ مذاکرات کی میزبانی کرنے پر چین کے ساتھ ساتھ عراق اور سلطنت عمان کا بھی شکریہ ادا کیا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات سنہ 2016 میں اس وقت منقطع ہو گئے تھے جب ایران میں سعودی سفارتی ہیڈ کوارٹر پر ایرانی مظاہرین کے حملے کے بعد سعودی حکام نے سعودی شیعہ عالم نمر النمر کو پھانسی دے دی تھی۔
علی شمخانی نے ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے قریب سمجھی جانے والی ایک نیوز ویب سائٹ نورنیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’غلط فہمیوں کو دور کرنے اور تہران-ریاض تعلقات کے تحت مستقبل کی طرف دیکھنا یقینی طور پر علاقائی استحکام اور سلامتی کو فروغ دے گا اور خلیج فارس کے ممالک اور اسلامی دنیا کے درمیان تعاون میں اضافہ کرے گا۔‘
Getty Imagesچینی صدر شی جن پنگ کی کوششوں سے سعودی عرب اور ایران نے سفارتی تعلقات بحال کرنے کا معاہدہ کر لیا ہے'بات چیت کی جیت'
چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے اس معاہدے کو 'بات چیت کی جیت‘، ’امن کی فتح‘ اور ایک ایسے وقت میں اہم خوشخبری کہا جب دنیا ’انتشار کا شکار ہے۔'
یہ معاہدہ ایک ایسے خطے میں چین کی سفارتی فتح ہے جس کی جغرافیائی سیاست پر امریکہ کا غلبہ ہے۔
یہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مغرب کی جانب سے چین کو الزامات کا سامنا ہے کہ بیجنگ نے روس یوکرین جنگ کے سلسلے میں خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے ہیں جبکہ چین یوکرین کی جنگ پر بات چیت کا مطالبہ کر رہا ہے۔
وانگ نے کہا کہ ’ایک نیک نیتی اور قابل اعتماد ثالث کے طور پر، چین نے میزبان کے طور پر اپنے فرائض پورے کیے ہیں۔۔۔ بیجنگ دنیا کے گرما گرم مسائل سے نمٹنے کے لیے تعمیری کردار ادا کرتا رہے گا اور ایک بڑی قوم کے طور پر اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا رہے گا۔‘
وانگ نے کہا کہ دنیا کو صرف یوکرین کا مسئلہ ہی درپیش نہیں ہے۔
دوسری جانب وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کے ترجمان نے کہا کہ واشنگٹن کو معاہدے کی اطلاعات پر تشویش ہے، لیکن وہ یمن میں جنگ کے خاتمے اور مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کسی بھی کوشش کا خیر مقدم کرتا ہے۔
ایک سینیئر ایرانی سکیورٹی اہلکار نے کہا کہ اس معاہدے کو سپریم لیڈر علی خامنہ ای کی حمایت حاصل تھی۔
اہلکار نے خبررساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’اسی وجہ سے، شمخانی نے سپریم لیڈر کے نمائندے کے طور پر چین کا سفر کیا۔ ادارہ یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ ایران میں سپریم اتھارٹی اس فیصلے کی حمایت کرتی ہے۔‘
ریاض امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات میں روایتی قربت کے لیے جانا جاتا ہے جس کے ایران اور چین دونوں کے ساتھ کشیدہ تعلقات ہیں۔
https://twitter.com/ForeignOfficePk/status/1634235380923809793
BBCدنیا بھر میں استقبال لیکن اسرائیل کو تشویش
پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اس سفارتی اقدام سے علاقائی امن و استحکام کو بڑھانے میں مدد ملے گی۔
چین کی تعریف کرتے ہوئے، پاکستان نے بیان میں کہا: 'ہم اس تاریخی معاہدے میں چین کی بصیرت کی قیادت کے کردار کو سراہتے ہیں، جو مثبت مشغولیت اور بامعنی مذاکرات کی طاقت کو ظاہر کرتا ہے۔ ہم اس انتہائی مثبت سرگرمی کے منتظر ہیں۔ ہم سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ ایران کی قیادت کی جانب سے دکھائی جانے والی بصیرت کی تعریف کرتے ہیں۔'
پاکستان نے کہا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کے خطے میں مثبت کردار ادا کرتا رہے گا اور یہ اقدام خطے کے باقی حصوں میں تعاون اور خوشحالی کی مثال بنے گا۔
ساتھ ہی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کے ترجمان نے کہا ہے کہ خلیجی خطے میں استحکام لانے کے لیے پڑوسی ممالک کے درمیان اچھے تعلقات ضروری ہیں۔
مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک نے سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں آنے والی اس پیشرفت کا خیر مقدم کیا ہے۔
عراق نے سعودی عرب اور ایران کے معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے جس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں نیا باب کھلتا نظر آ رہا ہے۔
عراقی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، یہ معاہدہ ’دونوں فریقوں کے درمیان تعلقات کے انضمام کی عکاسی کرے گا اور خطے کے ممالک کے تعاون کو ایک معیاری تحریک دے گا، جس کا مقصد ایک فریم ورک کو پورا کرنا ہے۔ تمام جماعتوں کی خواہشات اور ایک نئے مرحلے کے آغاز کی نشاندہی کرتی ہے۔'
ایران کے قدیم دشمن اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے باوجود یو اے ای نے کہا کہ ایک مثبت علاقائی بات چیت سے اچھی ہمسائیگی میں اضافہ ہوگا۔
مصر نے بھی اس امید کا اظہار کیا کہ اس پیشرفت سے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
لبنان کی حزب اللہ کے سکریٹری جنرل حسن نصر اللہ نے خطے میں اس عظیم پیشرفت پر ردعمل کے بعد کہا: 'یہ ایک اچھی پیش رفت ہے، اس واقعہ سے ہماری مطمئن ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں یقین ہے کہ اس پیشرفت سے لبنان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ خطے کے لوگ اس سے مستفید ہوں گے۔'
مسٹر نصراللہ نے مزید کہا: 'بلاشبہ ان دونوں ممالک کے درمیان صحت مند تعلقات سے نہ صرف ہمیں بلکہ یمن اور شام کے عوام اور عمومی طور پر مزاحمتی قوت کو بھی فائدہ پہنچے گا۔'
تاہم اسرائیل کے سابق وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے اس فیصلے کے حوالے سے نتن یاہو حکومت کو نشانہ بنایا ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے اس فیصلے کو اسرائیل کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔
انھوں نے اس تبدیلی کو وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت کی ناکامی قرار دیا ہے۔
اسرائیل کے اپوزیشن لیڈر يائير لپید نے کہا کہ ’سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدہ اسرائیلی حکومت کی خارجہ پالیسی کی مکمل اور خطرناک ناکامی ہے۔‘
’یہ تب ہوتا ہے جب آپ اپنا کام کرنے کے بجائے قانون کے محاذ میں الجھ جائیں۔‘
ادھر خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایک سینیئر اسرائیلی اہلکار نے کہا ہے کہ اس معاہدے کے بعد بھی ان کا ملک سعودی عرب سے تعلقات بحال کرنے کی کوششوں سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ ’سعودی عرب کو محسوس ہوا کہ ایران سے متعلق مغرب کی پوزیشن کمزور ہوئی۔ مگر ریاض سے تعلقات بحال کرنے کی اسرائیلی کوشش پر اس کا اثر نہیں پڑے گا۔‘