سفید داڑھی والے بابا جی غم کی حالت میں سڑک پر کھڑے تھے کوئی ان سے چیز نہیں خرید رہا تھا۔ ایسے میں ایک شخص فوراََ وہاں آیا اور ان سے باتیں شروع کردیں۔ تھوڑی دیر بعد جوان کہتا ہے کہ آپ یہ کیا چیزیں فروخت کر رہے ہو؟ تو بوڑھا شخص کہتا ہے کہ بیٹا موم پھلی، چنے، پاپڑ، مور مورے وغیرہ ہیں۔
کچھ 100 یا 200 روپے کی کمائی ہو جاتی ہے تو گھر لے جاتا ہوں مگر آج تو لگتا ہے کہ ہم بھوکے ہی سوئیں گے۔ یہ سننا تھا کہ نوجوان نے کہا آپ مجھے یہ سب چیزیں چکھائیں۔
چکھنے کے بعد بابا جی کا دل اس نوجوان کو مایوس نظر آیا تو اس نے مذاق شروع کر دیا ۔ پھر آخرکار اس نے ایک ایک کر کے یہ سب چیزیں ان سے خرید لیں۔
10 ہزار روپے بابا جی کے ہاتھ میں پکڑائے تو بزرگ فوراََ رونے ہی لگ گئے۔ کہتے ہیں کہ بیٹا مجھے آج پیسوں کی ضرورت بھی تھی، اللہ پاک نے آپکو میرے لیے فرشتہ بنا کر بھیجا ہے کیونکہ آج سے پہلے میری رڑھی کبھی خالی نہیں ہوئی، آج ایک دم ہی آپ نے سب کچھ خرید لیا یہی نہیں میرا حؤصلہ بھی بڑھایا۔
یہ سننا تھا کہ جوان نے بزرگ کو گلے لگاتے ہوئے کہا کہ آپ بس یوں سمجھ لیں کہ آپ کا بیٹا آ گیا ہے، جس نے یہ سب خرید لیا، بس آپ گھر جائیں اور سکون کی نیند سو جائیں کیونکہ اس عمر میں آرام ضروری ہے۔ اس کے علاوہ یہاں آپکو یہ بھی بتاتے چلیں کہ اس بڑے دل والے نوجوان نے یہ جو سب سامان خریدا اسے ضررورت مند بچوں میں تقسیم کر دیا۔
واضح رہے کہ اس واقعے سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ ریڑھی والوں سے ہمیں اشیاء ضرور خریدنی چاہیے اور اگر آپ کسی کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو اس طریقے سے مدد بھی ہو جاتی ہے اور معصوم بچوں کے پیٹ بھی بھر جاتے ہیں۔