انڈیا کی یونیورسٹی میں ٹاپ کرنے والی افغانستان کی رضیہ مرادی’جب بھی مایوسی یا خوف محسوس کرتی تو خود سے عہد کرتی کہ مجھے اپنے خاندان کے لیے سپاہی بننا ہے‘

بی بی سی اردو  |  Mar 10, 2023

رضیہ مرادی جس وقت یونیورسٹی میں ٹاپ کر کےنمایاں کارکردگی کا سرٹیفیکیٹ لینے سٹیج کی جانب بڑھیں تو بیک وقت خوشی اور غم کے جذبات ان پر حاوی تھے۔

افغانستان سے تعلق رکھنے والی 27سالہ رضیہ مرادیدو سال سے انڈیا میںزیر تعلیم ہیں۔ حال میں میں انھوں نےانڈیا کیمغربی ریاست گجراتکی یونیورسٹی سےپبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹر کورس میں ٹاپ کرنے پر گولڈ میڈل حاصل کیا اوراپنی نمایاں کامیابی کی اس خبر کےساتھ ہی وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئیں۔

تاہم خوشی کے ان لمحات میں وہ خود کو تنہا ہی محسوس کر رہی تھیں کیونکہ ان کی اس کامیابی کا جشن منانے کے لیے ان کا خاندان ان کے ساتھ نہیں تھا۔

رضیہ مرادی نے اپنی اس کامیابی کے موقع پر اپنے گھر والوں کو بہت یاد کیا اور ان کی کمی نے انھیں افسردہ کر دیا۔

’یہ ایک تلخ لمحہ تھا ایک طرف میں اپنی محنت کے رنگ لانے پر بہت خوش تھی تودوسری جانبمجھے اپنے خاندان کی کمی محسوس ہو رہی تھی۔اس وقت میں افغانستان کی ان تمام لڑکیوں اور خواتین کے بارے میں بھی سوچ رہی تھی جنھیں تعلیم اور کام کرنے کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔‘

واضح رہے کہ اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان نےدوبارہ اقتدار میں آنے کے بعدپابندیاں لگا کر خواتین کے حقوق اور آزادیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔طالبان کے احکامات کے بعدخواتین طالبات کو سیکنڈری اسکول اور یونیورسٹی میں جانے سے روک دیا گیا ہے۔

گجرات کے گورنر نے رواں ہفتے انھیںاپنے کورس میں 8.60 اسکور حاصل کر کے نمایاں کامیابی حاصل کرنے پر گولڈ میڈل دیا۔ رضیہ مراد آبادی نےان نمبرز کے ساتھ پوری یونیورسٹی میں ٹاپ کیا ہے۔

رضیہطالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سےاپنےگھراور اپنے خاندان کی حفاظت کے بارے میں فکر مند رہتی تھیں اس لیے امتحانات کی تیاری ان کے لیےآسان نہیں تھی،

جب 2021 میں طالبان نے ان کےملک پر قبصہ کیا تو انہیںیہی پریشانی کھائے جاتی تھیکہیں ان کے گھر والے اور دوست احباب کہیں جنگ کی لپیٹ میں نہ آجائیں۔

’جنگ کے تنازعے میں گھرے علاقوں میں ہر کوئی خطرے کی زد میںہوتا ہے۔ جب بھی میںوہاںدھماکوں اور حملوں کے بارے میں سنتی اپنے خاندان کی حفاظت کے بارے میں متفکر ہو کر رابطے کی کوشش کرتی تاہمافغانستان میں کمزور انٹرنیٹ نے اس کو مشکل بنا دیا تھا۔‘

تاہم جب بھی میںمایوسی یا خوف محسوس کرتی تو خود سےعہدکرتی کہ مجھے اپنے خاندان کے لیے سپاہی بننا ہے۔ میرے گھر والوں نے لیے بہت قربانیاں دی ہیں۔ اپنی پڑھائی میں بہترین کارکردگی سے ان کو کچھ نہ کچھ خوشی ضرور دے سکوں گی۔‘

رضیہ مرادی کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ دو سالوں سے خواہش کے باوجوداپنے خاندان سے ملاقات نہیں کر پائیں اور اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھی انکے لیے یہ ممکن نہیںکیونکہ اس وقت ان کے ملکافغاسنستان میںحالات ٹھیک نہیں۔

’اپنی کامیابیوں کے لیے گھر والوں کی مقروض ہوں جنھوں نے ہمیشہ میرے خوابوں کا ساتھ دیا ‘

’اس وقت افغانستان میں میرے لیے کوئی روشن مستقبل نہیں ہے ۔ وہاں لوگوں کا روزگار ختم ہو چکا ہے۔ ترقی اور بحالی سے متعلق منصوبے روک دیے گئے ہیں۔ اور اس صورت حال میں ملک ترقی کرنے کے بجائے پیچھے جا رہا ہے۔ ‘

رضیہمرادی اپنے ملک کےتلخ حالات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہچکچاتی یا ڈرتی نہیں۔اوروہ سچ بولنا کو اپنی ذمہ داریسمجھتی ہیں۔

’اگر ہم صرف خاموش رہے تو اس حکومت کو تبدیل کرنے کا کوئی موقع نہیں ملے گا۔ وہ (طالبان) چاہتے ہیں کہ لوگ خاموش رہیں۔ لیکن ایک افغان خاتون کی حیثیت سے اس وقتیہ میری ذمہ داری ہے کہ میں حکومت کےمعاشرے پر اثرات کے بارے میں کھل کر بات کروں۔

رضیہ مرادی اب انڈیا کی اسی یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے’میرے خاندان اور میری برادری نے ہمیشہ میرے خوابوں کا ساتھ دیا ہے۔ ان کی وجہ سے میں معاشرے میں ایک فعال عورت بن سکی ۔میں اپنی تمام کامیابیوں کے لیے ان کی مقروض ہوں۔‘

رضیہ مرادی نے افغانستان میں خواتین کو بااختیار بنانے کے ساتھ مقامی افرادکی خدمتکے شعبوں میں کئی بین الاقوامی اداروں کے ساتھ کام کیا ہے۔

رضیہ مرادی نے فروری 2021 میںانڈیا کا رخ کیا تھا۔ جس وقت وہتعلیم کے لیے انڈیا آئی تھیں اس وقت افغانستان میں حالات مختلف تھے۔ طالبان اس وقت تک اقتدار میں نہیں آئے تھے اوروہاں لڑکیوں کے تعلیم کے حصول پرپابندیاں نہیں تھیں۔ رضیہ نے تعلیم کے حصول کے لیے انڈیا کا رخ کیا کیونکہ ان کو وہاں اعلیٰ تعلیم کی ڈ گری کے لیے زیادہبہتر مواقع حاصل تھے۔

اس کے ساتھ ساتھ انڈیا اور افغانستان کے درمیان کافی مشترکہثقافتیںان کو وہاں اپنے گھر کا سا احساس دلاتی تھیں۔

رضیہ مرادی نے انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز کی طرف سے اسکالرشپ حاصل کی اورگجرات میں ویرنرماد ساؤتھ گجرات یونیورسٹی میں پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹر کورس میں داخلہ لیا۔

یہ بھی پڑھیے:

افغانستان میں طالبان حکومت: ’مجھے ناپاک اور بے شرم قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ تم امارتِ اسلامی کی توہین کر رہی ہو‘

’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عورت ہونا جرم ہے‘

طالبان کا افغان خواتین ٹی وی میزبانوں کو چہرہ ڈھانپنے کا حکم: ’طالبان کے لیے خواتین ایک 'بیماری' کی طرح ہیں‘

رضیہ مرادی نے کامیابی کے لیے دن رات محنت کیتاہم ان کا کہنا ہےافغانستان کے حالات کے پیش نظر یہاں بھی انلیے امتحانات کی تیاری اتنی آسان نہیں تھی۔

’میں نے ویرنرماد یونیورسٹی کا انتخاباس لیے کیا کہ یہاں سےبہت سے افغان طلباء نے تعلیم حاصل کی ہے اوراس تعلیمی ادارےکے لیےان کی بہت مثبترائے ہے۔‘

رضیہ مرادی کے مطابق انھوں نے انتظامیہ اور پالیسی سازی میں اپنی دلچسپی کی وجہ سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کرنے کا انتخاب کیا، اور وہ پرامید ہیں کہ عوامی بہبود کو فروغ دے کرافغانستانمیں حکومتی نظام میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔

’میرے لیے یہ اعزاز کی بات ہوگی کہ میںواپس جا کر اپنے ملک کی ترقی کے لیے کام کروں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More