’شیر کی کچھار‘: غصیلے اور پُرجوش جوانوں پر مشتمل نیا فلسطینی عسکریت پسند گروہ ’عرین الاسود‘ کیا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Mar 10, 2023

Getty Images

اسرائیلی افواج اور فلسطینیوں کے درمیانمقبوضہ مغربی کنارے اور یروشلمکے مشرق میںکشیدگی اور تشدد میں رواں برس کے آغاز سے ہیاضافہ سامنے آ رہا ہے اور ان سب کے درمیان جو چیز سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا رہی ہے وہ اس صورتحال میں ایکخاص فلسطینی گروہکا مرکزی کردار کے طور پر ابھرناہے۔

یہ گروہ اپنے کارکنوں کے جوش، غصے اور طاقت کی علامت کے طور پر سامنے آ رہا ہے اور اپنے نام ’عرین الاسود‘ (شیر کی کچھار) کے باعث فلسطینی نوجوانوں اور دنیا میں تیزی سے شہرت پا رہا ہے۔

’عرین الاسود‘ حال ہی میں قائم ہونے والا ایک ایسا عسکریت پسند گروہ ہے جو فلسطین کے شمالی مغربی کنارے پر واقع شہر نابلس سے ابھرا ہے اور اب اسرائیلی فوجیوں اور آباد کاروں کے خلاف تابڑ توڑ حملے اس کی پہچان بن گئے ہیں۔

اس گروہ میں موجود ارکان اور اس کے حامی بنیادی طور پر فلسطینیوں کی نوجوان نسل سے تعلق رکھنے والے وہ افراد ہیں جو اپنے ملک میں روایتی گروہی وفاداریوں سے اوپر اٹھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

ان نوجوانوں نے گذشتہ کچھ عرصے میں فلسطین کی سیاست کو بھی ایک نئی شکل دی ہے مگر یہ نوجوان کون ہیں اور ان کی موجودگی اس تمام تر صورتحال میں کتنی اہم ہے؟

20 سے 30 سال کی عمر کے نوجوانGetty Images

’عرين الأسود‘ کے حوالے سے مغربی کنارے کے شہر رام اللہ میں واقع ہورائزن سینٹر فار پولیٹیکل سٹڈیز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ابراہیم جبریل دلال شا کہتے ہیں کہ یہ ’ایسے ناراض فلسطینینوجوانوں پر مشتمل گروہ ہے جن کیعمریں 20 سے 30 کے درمیان ہیں۔ ان کا تعلقمغربی کنارے یا غزہ کی پٹی میں موجود کسی سیاسی دھڑے سے نہیں بلکہ وہ بنیادی طور پر اپنی توجہ اسرائیلی قبضے کے خلاف لڑنے پر مرکوزرکھتے ہیں۔‘

غصے اور جوش سےبھرا یہ مسلح گروپ بنیادی طور پر فلسطین کے شہر نابلس میں سرگرم ہے۔ گذشتہ چند مہینوں میں اس گروہ میں درجنوں نوجوان فلسطینی نوجوان شمولیت اختیارکر چکے ہیں۔

اگرچہ اس گروپ کا کسی بھی موجودہ فلسطینی سیاسی گروہ سے باضابطہکوئی تعلق نہیں تاہم ماہرین کے مطابق اس گروہ کے بعض اراکین ایسے ضرور ہیں جن کی اس سے قبل کسی نہ کسی طور پر سیاسی وابستگیاں رہی ہیں۔

امریکی ریاست ورجینیا میں واقع یونیورسٹی آف رچمنڈ کے ماہر سیاسیات دانا ال کرد نے عرين الأسود میں شامل نوجوانوں کے حوالے سے وضاحت میں بتایا کہ ’یہ نوجوانوں پر مشتمل ایک ایسا غیر جانب دار گروہ ہےجو ایک ہی ملیشیا کے طور پر کام کر رہا ہے۔ حالانکہ ان میں سے کچھ عرين الأسود میں شمولیت سے قبل اسلامی جہاد، الاقصیٰ بریگیڈ، حماس یا الفتح سمیت کسی نہ کسیمخصوص گروہ میں شامل رہے ہیں۔‘

وہ وجوہات جو اس گروہ کی تخلیق کا باعث بنیںGetty Images

فروری 2022 میں اس گروپ کو ابتدا میں ’نابلس بٹالین ‘کہا گیا تھا تاہم اس وقت اس گروہ میں محض 10 عسکریت پسند تھے۔

اس وقت تک اِس گروہ میں شامل نوجوان جنین میں واقع فلسطینی پناہ گزین کیمپ کے سرگرم گروہ جنین بٹالین سے متاثر تھے۔

اسرائیلی افواج نے اگست 2022 میں ایک سینیئر جنگجو ابراہیم النبلوسی کو ان کے دو دیگر ساتھیوں سمیت نابلس میں ایک گھر پر چھاپے کے دوران ہلاک کر دیا تھا۔

النبلوسی کے قتل نے ممکنہ طور پر ’عرين الأسود‘ کے متحرک ہونے اور اُبھر کر سامنے آنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ عرين الأسود نے باضابطہ طور پر پہلی بار گذشتہ موسم گرما میں دنیا کی توجہ حاصل کی جبانھوں نے نابلس میں اسرائیلی افواج کے ہاتھوں مارے گئے اپنے جنگجوؤں کی یاد میں دن منایا۔

سنہ 2023 کے اوائل میں اسرائیلی فوج نے اسگروہ کے کچھایسے سرکردہ ارکان کو گرفتار اور بعض کو ہلاک کر دیا تھا جن پر الزام تھا کہ انھوں نے اسرائیلی اہداف پر حملہ کیا ہے۔

ان جنگجوؤں کی تصاویر اور ویڈیوز ٹک ٹاک سمیت سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر وائرل ہوئی تھیں۔

اس کے بعد درجنوں نقاب پوش بندوق برداروں نے قدیم شہر نابلس کی سڑکوں پر پریڈ کی اور یہی لمحہ وہ تھا جبفلسطینی حکام کے ساتھ اسرائیلی سکیورٹی فورسز میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی۔

ماہر سیاسیات دانا ال کرد کا مزید کہنا ہے کہ ’اسرائیلیوں کا اپنے جرائم کی سزا سے استثنیٰ، جبر اور آبادکاری کی سرگرمیوں میں اضافہ اور فلسطین کی صورتحال پر بین الاقوامی اور علاقائی ردعمل کا کمزور ہونا، فلسطین میں سیاسی اور اقتصادی جمود، یہ وہ تمام عوامل ہیں جو اس گروپ کی تخلیق کا سبب بنے۔‘

عرين الأسود: سوشل میڈیا پر بھی مقبولGetty Images

ال کرد کے مطابق عرين الأسود تیزی سے مقبولیت پا کر نوجوان فلسطینیوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔

’عرين الأسود اس جمود اور سیاست کے اس طرز کو مسترد کر رہے ہیں جس کی الفتح اور حماس نمائندگی کرتے ہیں۔‘

عرين الأسود کو فلسطینیوں میں نمایاں حمایت حاصلکرنے کے حوالے سے کچھ اور شواہد بھی موجود ہیں۔

فلسطین کے سینٹرفار پالیسی اینڈ سروے ریسرچ کی طرف سے دسمبر میں مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے رہائشیوں کے لیے ایک سروے کیا گیا جس میں حصہ لینے والے تقریباً 70 فیصد سے زیادہافراد نے عرين الأسودجیسے آزاد مسلح گروہوں کی حمایت کی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فلسطینی قیادت میں موجود زیادہ ترعمر رسیدہ افراد ہیں جس کے باعث فلسطینی نوجوان اس نو تشکیل شدہ مسلح مزاحمتی گروپ میں شمولیتکو ترجیح دے رہے ہیں اور کئی ارکان نے خود کو فلسطینی اتھارٹی سے بھی دور کر لیا ہے۔

ابراہیم دلالشا کہتے ہیں کہ ’وہ سمجھتے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی سیاسی طور پر دیوالیہ ہو چکی ہے اور وہ پرامن ذرائع سے سیاسی آزادی حاصل نہیں کر سکتی۔ اس لیے وہ مزاحمت میں لڑائی کو ہی تنازع کا حل سمجھتے ہیں۔‘

عرين الأسود کو سوشل میڈیا پر بھی مقبولیت حاصل ہے۔ سینکڑوں فلسطینیوں نے اس گروہ کے ٹیلی گرامچینل ’لائنز ڈین‘ کے ذریعے بھیجے گئے یکجہتی کے پیغام کا جواب بھی دیا۔ اس چینلکے فالوورز کی تعداد ایک لاکھ 30 ہزار سے زیادہ ہے۔

اس چینل کےسبسکرائبرز سےپیغام میں کہا گیا کہ وہ چھتوں پر جائیں اور اسرائیلی اہداف پر حملہ کرنے والے عسکریت پسندوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے نعرہ تکبیر بلند کریں۔

اس پیغام کے بعد مغربی کنارے اور مقبوضہ یروشلم سے نوجوان فلسطینیوں نے ’عرين الأسود ناقابل شکست ہے‘ کا نعرہ بلند کیا۔

فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ عرين الأسود کے تعلقات کیسے ہیں؟Getty Images

فلسطینی اتھارٹی ( پی اے) فلسطین کے مغربی کنارے کے خود مختار علاقوں کی گورننگ باڈی ہے جو اسرائیل اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے درمیان اوسلو معاہدے کے تحت قائم کی گئی ہے۔

فلسطینی قصبوں اور دیہاتوں پر زیادہ تر پی اےکی حکومت ہے، جس پر سیکولر گروہ الفتح کا غلبہ ہے۔ جنگجوؤں کا ایک اور دھڑے حماس کو غزہ کی پٹی میں تو مقبولیت حاصل ہے تاہم مغربی کنارے میں وہ کم نمایاں ہے۔

نئے ابھرنے والے مسلح گروہوں کے ساتھ لڑنے والے بہت سے نوجوان فلسطینی اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے جب 1993 میں اوسلو معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔

دلالشا کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور الفتح کی حکمران جماعت کی قیادت کئی وجوہات کی بنا پر اس گروپ سے خوش نہیں ہے۔

’میرے خیال میں گروپ کو زبردستی ختم کرنے کے بجائے اس کے ساتھ تعاون کرنے کی کوشش کرنے اور اس کے ساتھ تعاون کرنے کا ایک سٹریٹجک فیصلہ لیا گیا ہے۔‘

بعض نجی ذرائع کہتے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی اس گروپ کو مسلح عسکریت پسندی ترک کرنے اور فلسطینی سکیورٹی سروسز میں شامل ہونے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اس پیشکش سے کچھ اراکین تو راضی ہو گئے تاہمگروپ کے رہنماؤں نے ان کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا اور اصرار کیا کہ وہ آخروقت تک لڑتے رہیں گے۔

ابراہیم دلالشا کہتے ہیں کہ عرين الأسود کے کچھ ارکان مخالفت اور تنقید تو کر رہے ہیں لیکن ممکنہ طور پر وہ فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ تنازع میں پڑنے سے گریز کریں گے۔‘

’اگر آپ فلسطینی اتھارٹی کے خلاف جاتے ہیں، تو یہ اگر تمام فلسطینییوں کے ساتھ نہیں تو ایک ان کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ آپ کو براہ راست تنازع میں ڈال دے گا اور میرے خیال میں وہ استنازع سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

Getty Imagesاسرائیل عرين الأسود کو ایک دہشت گرد تنظیم کیوں سمجھتا ہے؟

اسرائیل عرين الأسودکو ایک ’دہشت گرد تنظیم‘ کے طور پر دیکھتا ہے۔

عرين الأسودکے ٹیلی گرام چینل پر شیئرکی گئی ایک پوسٹ کے مطابق اس سال فروری میں اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے نابلس میں داخل ہو کر 11 فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا جن میں سے چھ عرين الأسود کے ارکان تھے۔

چار گھنٹے تک جاری رہنے والے چھاپے کے بعد، اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے کہا کہ انھوںنے فلسطینی بندوق برداروں کی طرف سے فورسز پر گولی چلنے کے بعد اپنے آپریشن کو اپ گریڈکر دیا۔

آئی ڈی ایف کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل رچرڈ ہیچٹ نے صحافیوں کو بریفنگ میں بتایا کہ ’ہم نے وہاں خطرہ محسوس کیا جسے ہمیں اندر جا کر انھیں ختم کرنا پڑا۔‘

یہ بھی پڑھیے:

مغربی کنارے میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 100 تک پہنچ گئی: بی بی سی کی تحقیقات

اسرائیل فلسطین تنازع: حالیہ کشیدگی کے دوران کون سا ملک کس کے ساتھ کھڑا ہے؟

یو اے ای اور اسرائیل میں بڑھتے تجارتی تعلقات دونوں ممالک کو کیسے فائدہ پہنچا رہے ہیں؟

اسرائیل نے حال ہی میں نابلس اور مشرقی یروشلم کے آس پاس کے کئی علاقوں کو سیمنٹ کے بلاکس اور ریت کا استعمال کرتے ہوئے بند کر دیا ہے۔

دانا ایل کرد نے اسرائیل کے رد عمل کو شدید قرار دیا۔ ’اسرائیل کا ردعمل کافی شدید رہا ہے لیکن عرين الأسود اب بھی اثر و رسوخ رکھنے والے ہیں۔‘

ابراہیم دلالشا کے مطابق فلسطینی علاقوں کی سیاست پر عرين الأسود اثر انداز ہو سکتی ہے۔

’ان کے لیے اپنے بڑے مقصد یعنی آزادی اور قبضے کا خاتمے کو حاصل کرنے کے لیےفتح حاصل کرنا آسان نہیں تاہم میں سمجھتا ہوں کہ ان کا وجود اور ان کی سرگرمیاں فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیلیوں کے لیے بہت زیادہ رکاوٹیں اور چیلنجز کا باعث بن رہی ہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More