کنواروں کا مارچ: ’دعا کی ہے کہ ہماری شادیاں بھی جلد ہو جائیں‘

بی بی سی اردو  |  Mar 10, 2023

گذشتہ ماہ انڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک میں مردوں کے ایک گروہ نے ایک جلوس کی شکل میں 120 کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کیا تاکہ وہ ایک خاص مندر پر جا کر دعا کر سکیں کہ انھیں بیویاں مل جائیں۔

اس انوکھے مارچ میں حصہ لینے والے مردوں کا انٹرنیٹ پر مذاق اڑایا گیا، لیکن سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ مارچ دراصل ایک ایسے سماجی اور معاشرتی مسئلے کی جانب اشارہ کرتا ہے جس کا سامنا اس خطے کو ایک عرصے سے ہے۔

یہ مارچ شروع تو 30 مردوں نے کیا تھا لیکن جب جلوس مندر تک پہنچا تو اس کے شرکاء کی تعداد 60 ہو چکی تھی۔ ان مردوں میں اکثریت کا تعلق ریاست کرناٹک کے ضلعے مانڈیا سے تھا۔

اس ضلع میں پیدائش کے وقت لڑکوں اور لڑکیوں کا تناسب کئی عشروں سے غیر متوازن رہا ہے اور سماجی کارکنوں کے مطابق یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ یہاں مردوں کو شادی کے لیے لڑکی تلاش کرنے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس کے علاوہ اس علاقے میں زرعی آمدن دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے اور پچھلی نسلوں کی نسبت آج کل کی خواتین کی ترجیحات بھی بدل رہی ہیں۔

ضلع مانڈیا کے مالے مہادیشوارا نامی مندر کی جانب ’بھرمچاریگالو پیدایاتر‘ یا ’کنواروں کا پیدل مارچ‘کرنے والوں کو یقین ہے کہ ان کی مرادیں پوری ہوں گی۔

مارچ میں حصہ لینے والے ایک غیر شادی شدہ شخص، مالیشا ڈی پی کا کہنا ہے کہ ’جب مجھے کسی سے محبت کرنی چاہیے تھی، میں اس وقت کام میں مصروف تھا۔ (اس دوران) میں نے پیسہ کما لیا اور اب جبکہ میری زندگی میں ہر چیز موجود ہے، مجھے شادی کے لیے کوئی لڑکی نہیں مل رہی۔‘

مالیشا کی عمر صرف 33 سال ہے، لیکن وہ کہتے ہیں کہ ان کے علاقے کے لوگوں کا خیال ہے کہ ان کی شادی کی بہترین عمر پہلے ہی گزر چکی ہے۔

مارچ کا انتظام کرنے والوں میں شامل شیوا پرساد کے مطابق جب انھوں نے پہلی مرتبہ اس مارچ کا اعلان کیا تھا تو دو سو سے زیادہ مردوں نے اس میں شرکت کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

’لیکن بعد میں بہت سے مرد پیچھے ہٹ گئے کیونکہ مقامی میڈیا میں اس معاملے کو منفی انداز میں پیش کیا جانے لگا۔‘

مانڈیا کا علاقہ زرخیز ہے اور یہاں آبپاشی کا نظام بھی اچھا ہے۔ یہاں کی بڑی فصلوں میں سے ایک گنّا ہے، لیکن چونکہ کھیتوں سے آمدنی کم ہوتی جا رہی ہے اس لیے اس لیے زراعت اب یہاں زیادہ پرکشش پیشہ نہیں رہا ہے۔

مارچ میں شرکت کرنے والے ایک اور مرد، 31 سالہ کرشنا کے مطابق ’ لوگ سمجھتے ہیں کہ کسان گھرانوں سے تعلق رکھنے والے مردوں کی آمدن اب غیر یقینی ہو گئی ہے۔‘

مالیشا بتاتے ہیں کہ گذشتہ چند برسوں میں تقریباً 30 خواتین ان سے شادی سے انکار کر چکی ہیں۔ ان خواتین نے انکار کی وجہ یہ بتائی کہ مالیشا کا پیشہ ٹھیک نہیں ہے اور وہ دیہات میں رہتے ہیں۔‘

شیواپرساد نے مالیشا کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے علاقے میں اکثر خاندانوں کے پاس زمینیں کم ہیں اور زرعی آمدن بھی زیادہ نہیں ہے۔‘

شیواپرساد کا مزید کہنا تھا کہ جن لوگوں کے پاس کھیتی باڑی کےعلاوہ کاروبار جیسا کوئی دوسرا ذریعہ آمدن ہے،ان کی گزر بسر بہتر ہو جاتی ہے۔‘

جب مردوں کا مارچ مندر کی طرف جا رہا تھا اس وقت ضلع مانڈیا میں کسانوں کا ایک گروہ بھی احتجاج کر رہا تھا جو گنےّ کی بہتر قیمتوں کا مطالبہ کر رہے تھے۔

ایک کسان رہنما، درشن پٹانیاہ کا کہنا تھا کہ ’ کوئی یہ بات نہیں سمجھ رہا کہ فصلوں کے لیے ضروری تمام اشیا (کھاد بیج پانی وغیرہ)کی قیمتیں بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔‘

سماجی کارکن اس علاقے میں مردوں اور خواتین کے تناسب میں فرق کا ذمہ دار یہاں کے پدرسری رویے کو بھی سمجھتے ہیں۔

حالیہ مارچ میں شرکت کرنے والے مرد جب پیدا ہو رہے تھے، ان برسوں میں ہی ریاست کرناٹکا میں میں یہاں کی آبادی میں لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد میں عدم توازن پر قابو پانے کے لیے مہم شروع ہوچکی تھی۔

تاہم، ایک مقامی سماجی کارکن، نیگریواکاکے مطابق ’پیدائش سے پہلے بچے کی جنس کا تعین کرنے والے ٹیسٹ پر سنہ 1994 میں پابندی لگا دی گئی تھی، لیکنپیدائش سے پہلے بچے کی جنس معلوم کر کے حمل ضائع کروا دینے کا رواج اس علاقے میں اب بھی جاری ہے۔‘

نیگریواکا بتاتی ہیں کہ ’ اب بھی بچوں کی ایک قریبی نرسری میں، آپ کو 80 لڑکے ملیں گے اور 20 لڑکیاں۔‘

ریاست میں آخری مردم شماری کے اعداد وشمار کے مطابق ضلع مانڈیا میں لڑکوں اور لڑکیوں کا تناسب مزید خراب ہو گیا ہے، کیونکہ سنہ 2011 میں ایک ہزار لڑکوں کے مقابلے میں 960 لڑکیاں پیدا ہو رہی تھیں جبکہ سنہ 2001 میں یہ تناسب ایک ہزار لڑکے اور 971 لڑکیاں ہوا کرتا تھا۔

BBCمارچ شروع تو 30 مردوں نے کیا تھا لیکن مندر تک پہنچتے پہنچتے ان کی تعداد 60 ہو گئی

اس کے علاوہ خواتین کی ترجیحات بھی بدل رہی ہیں۔

جیاشیلا کا تعلق مانڈیا سے ہے لیکن اب وہ اپنے گھروالوں کے ساتھ بینگلورو کے مضافات میں رہتی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ وہ ’ذاتی طور پر‘ گاؤں میں رہنے کو ترجیح دیتی ہیں کیونکہ وہاں آپ قدرتی ماحول سے قریب ہوتے ہیں اور لوگوں سے رشتے بنانا بھی آسان ہوتا ہے۔

لیکن اس کے باوجود جیاشیلا اور ان جیسی دیگر خواتین شہری علاقوں میں منتقل ہونے کو ترجیح دیتی ہیں کی کیونکہ شہر آپ کو زیادہ آزادی دینے کی امید دلاتا ہے۔

جیاشیلا کے بقول ’اگر عورتیں (شادی کر کے) کسی کسان خاندان میں جاتی ہیں، تو انھیں گھر سے باہر جانے کے لیے اپنے شوہر سے اجازت لینا پڑے گی۔ ہماری نسل میں کوئی ( لڑکی) نہیں چاہے گی کہ اسے کسی پر یوں انحصار کرنا پڑے۔‘

لیکن مالیشا کہتے ہیں کہ مانڈیا میں بھی خواتین کے حوالے سے لوگوں کے رویے میں تبدیلی آ رہی ہے۔

’اب ہمارے گھروں کی عورتوں کو بھی مویشیوں اور بڑے خاندانوں کا خیال نہیں رکھنا پڑتا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ جو لڑکی بھی ان کی دلہن بنے گی اسے چار افراد سے زیادہ کے خاندان کا کھانا نہیں پکانا پڑے گا۔

دوسری جانب مسٹر شیوا پرساد کا کہنا ہے کہ تین دن جاری رہنے والے کنواروں کے مارچ کے بعد انھیں کرناٹک کی قریبی ریاستوں، آندھرا پردیش اور کیرالا کے کسانوں کی جانب سے بھی اسی قسم کی پیغامات ملے تھے۔‘

مارچ کے شرکاء کو امید ہے کہ مندر پر حاضری کے بعد اب ان کی قسمت بدل جائے گی۔

مالیشا کے بقول ’یہ ایک مشکل پیدل سفر تھا۔ ہم نے دعا کی ہے کہ جلد ہی ہم سب کی شادیاں ہو جائیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More