چینی ارب پتی کیوں غائب ہو رہے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Mar 09, 2023

Getty Images

چین کی ٹیکنالوجی کی صنعتکے بڑے سرمایہ کار باؤ فین کی گزشتہ ماہ گمشدگی نے نہ صرفایک بار ملک میں ہلچل مچا دی ہے بلکہ ارب پتی افرادکے غائب کیے جانے سے متعلق لوگوںکے تجسساور تشویش کےرجحان میںایک بار پھر اضافہ کر دیا ہے۔

باؤ فین چائنا رینیسنس ہولڈنگز کے بانیہیں جن کےصارفین کی فہرست میں بڑیانٹرنیٹ کمپنیاں بشمول علی بابا، ٹینسینٹ اور بیدو شامل ہیں۔ اور اس کمپنی کوملک کے ٹیکناکوجی سیکٹر میں ایک نشانکی حیثیت حاصل ہے اور انھیں چین کے ٹیکنالوجی کے میدان میں نمایاں حیثیتحاصل ہے۔

باؤ فینکی گمشدگی کاواقعہ ان کی کمپنیکے اس اعلان کے ایک ہی روز بعد سامنے آیا جب انھوں نے اعلان کیا کہ وہ ’عوامی جمہوریہ چین میں بعض حکام کے ذخلافکی جانے والی تحقیقات میں تعاون کر رہے ہیں۔‘

تاہم چین کی روایت کے مطابقابھی تکیہ تفصیلات سامنے نہیں آ سکیں کہکون سا سرکاری ادارہان کی گمشدگی کی تحقیقات کر رہا ہے، اور اب وہ کہاں پائے جاتے ہیں۔

حالیہ برسوں میں متعدد چینی کاروباری رہنماؤں کے لاپتہ ہونے کے بعدابباؤ فینکی گمشدگی کا معمہ سامنے آیا ہے۔ گمشدہ ہونے والے ان افراد میں لی بابا کے باس جیک ما بھی شامل ہیں۔

اگرچہ غائب ہونے والے ارب پتیوں کو دنیا کیبہت زیادہ توجہ حاصل ہوتی ہے، لیکن چینی شہریوں کے لاپتہ ہونے کے پیچھےحکومت مخالف مظاہروں یا انسانی حقوق کی مہمات میں حمایت بھی اس کی ایک وجہ کے طور پر بیان کی جاتی ہے۔

باؤ فنکی گمشدگی نے ایک بار پھر اس سوچ کو تقویت دی ہے کہیہ طریقہ بھی انہی اقدامات کی ایک کڑی ہے جس سے صدر شی جن پنگ چین کی معیشت پر اپنا کنٹرول سخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہواقعہ نیشنل پیپلز کانگریس (NPC) (این پی سی )کے سالانہ رن اپکے بعد سامنے آیا ہے جس میںرواں ہفتے(ربڑ اسٹیمپکہلائی جانے والی) پارلیمنٹ نےچین کے مالیاتی ریگولیٹری نظام کے سالوں میں سب سے بڑے ترمیمی منصوبوں کا اعلان کیا تھا۔

اس کے تحت ذیادہ تر مالیاتی شعبوں کی نگرانی کے لیے ایک نیا مالیاتی ریگولیٹری واچ ڈاگ قائم کرنے کی تجویز سامنے آئی ہے۔

حکامکا کہنا ہے کہ اس سے ان متعدد ایجنسیوں کی موجودہ خامیاں ختم ہو جائیں گی جو ملک میں ٹریلین ڈالر تک مالیاتی خدمات کی صنعتوں کے مختلف پہلوؤں کی نگرانی کرتی ہیں۔

صرف 2015 میں ہیکم از کم پانچ ایگزیکٹوز ایسے تھے جن تک رسائی ممکن ہی نہ رہی ۔ان میںگروپ فوسن انٹرنیشنل کے چیئرمین گوو گوانگ چانگبھی شامل ہیں جن کی ایکوجہ شہرتانگلش پریمیئر لیگ فٹ بال کلبولور ہیمپٹن وانڈررز کے مالک ہونے کی بھی ہے۔

گوو گوانگ بھیبازیاب ہونے کے بعد دوبارہاسی سال دسمبر میں لاپتہ ہو گئے تھے جب ان کی کمپنی نے اعلان کیا تھا کہ وہان کی بازیابی سے متعلق کی جانے والی تحقیقات میں مدد کر رہے ہیں۔

چین کے امیر ترین افراد میں سےشامل ارب پتی چینی نژاد کینیڈین تاجر ژیؤ جیانوا کو ہانگ کانگ کے ایک لگژری ہوٹل سے لے جایا گیا گیا تھا۔ ایک سال قبل وہ کرپشن کے الزام میں جیل بھی گئے تھے۔

مارچ 2020 میں ارب پتی رئیل اسٹیٹ ٹائیکون رین ژیکیانگ اس وقت لا پتہ ہو گئے جب انھوں نے چینی صدرکو وبائی امراض سے نمٹنے پر مسخرہ کہا تھا۔

اسی سال کے آخر میںایک روزہ مقدمے کی سماعت کے رین ژیکیانگ کو بدعنوانی کے الزام میں 18 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ۔

چین کے غائب ہونے والے سب سے ہائی پروفائلارب پتی علی بابا کے بانی جیک ما تھے۔

چین میں اس وقت کے امیر ترین شخصجیک ماکو 2020کے آخر میں ملک کے مالیاتی ریگولیٹرز پر تنقید کرنے کے بعد غائب کر دیا گیا تھا۔

چین کی ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنی اینٹ گروپ میں شیئرز کی فروخت پر بھی پاندی عائد کر دیحکومت کے مشترکہ خوشحالی فنڈ میں تقریبا دس ارب ڈالر کی خطیر رقمعطیہ کرنے کے باوجودانھیں وہ دو سال سے زیادہ عرصے سے چین میں نہیں دیکھا گیا جبکہان پر کسی جرم کے ارتکاب کا الزامبھی عائد نہیں کیا گیا۔

Getty Imagesجیک ماکو2020کے آخر میں ملک کے مالیاتی ریگولیٹرز پر تنقید کرنے کے بعد غائب کر دیا گیا تھا

جیک ما کا اصلٹھکانہ ابھی تک واضح نہیں ہے حالانکہ حالیہ مہینوں میںمحتلف اوقات میں انھیںجاپان، تھائی لینڈ اور آسٹریلیا میں دیکھے جانے کی اطلاعات ہیں۔

چینی حکومت کا دعوی ہے کہ ملک کے چند امیر ترین افراد کے خلاف کارروائیاں خالصتاً قانونی بنیادوں پر کی گئی ہیں ۔ حکومتنے بدعنوانی کو جڑ سے اختم کرنے کااعلان کیا ہے تاہم دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے بعضاقدامات کئی دہائیوں کے لبرلائزیشن کے پس منظر میں دکھائی دے رہے ہیں۔

چین کے ارب پتیوں کی ایک بڑی تعداد کے منظر عام سے غائب ہونےکے معاملات اب کھل کر سامنے آنے لگے ہیں کہ ایسے ارب پتی افراد ، جو اپنی بے پناہ دولت کے ساتھ کافی طاقت ور سمجھے جاتے ہیں، انکو کس طریزبان بندی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ چینی صدرژی جی پنگکی قیادت میں، چینی کمیونسٹ پارٹی واپساقتدارکاحصول چاہتی ہےاور وہ اس کے لیے ایسے طریقے اپنا رہی ہے جن سے پردہ نہیں اٹھ پاتا۔

اس نظریہ کہ مطابقبڑے کاروبار، خاص طور پر ٹیکنالوجی کی صنعت، نے اپنی طاقت کوژی جی پنگ کے پیش رو جیانگ زیمن اور ہوجن تاؤ کی پالیسیوں کے تحت بڑھتا ہوا دیکھا تھا۔

اس سے قبل بیجنگ کی توجہ طاقت کے روایتی مراکز پر رہی تھی، جن میں فوج، بھاری صنعت اور مقامی حکومتیں شامل تھیں۔

صدر ژینے معیشت کو مزید اپنے کنٹرول میں لانے کے اقدامات کے طور پر ان شعبوں پر مضبوط گرفت برقرار رکھنے کی اپنی توجہمرکوز کی۔

ان کی مشترکہ خوشحالی کی پالیسیمعیشت کے بیشتر حصوں کے لیے بڑے کریک ڈاؤنکا سبب بھی بن گئیجسکی زد میں خاص طور پرٹیکنالوجی کی صنعت آئی

اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ سے تعلق رکھنے والے نک مارو نے بی بی سی کو بتایا، ’بعض اوقات، یہ واقعات ایک وسیع تر پیغام لیا ہوتا ہے جس میںخاص طور پر کسی مخصوص صنعت یا مفاداتی گروپ کو نشانہ پر رکھا جاتا ہے۔‘

نک مارو نے مزید کہا ’یہ معیشت کے ایک مخصوص حصے پر کنٹرول اور اختیار کو مرکزی بنانے کی کوشش کی عکاسی کرتا ہے، جو کہ گزشتہ دہائی کے دوران صدرژی کے طرز حکمرانی کی ایک اہم خصوصیت رہی ہے۔

عالمی مشاورتی فرم البرائٹ میںسٹون برج کے سربراہ پال ٹریولوکہتے ہیں

’بیجنگ اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ بڑے ٹیکنالوجی پلیٹ فارمز اور کھلاڑی اپنے برانڈز اور اثر و رسوخ کا ایسا استعمال نہ کریںجس کی وجہ سے ان کو قابو کرنا بھی مشکل ہو جائے اوران کمپنیوں کابیجنگ کی ترجیحات کے خلاف جانے کا امکان زیادہ ہو۔‘

پال ٹریولوکا کہنا ہے کہ مشترکہ خوشحالیقانون کی حکمرانیسے آتی ہےقوانین کا اطلاق امیر یا غریب سب پر یکساں ہونا چاہیے۔

دوسری جانب بیجنگ کا موقف ہے کہ اس پالیسی کا مقصد دولت کے بڑھتے ہوئے فرق کو کم کرنا ہے، جس پر بہت سے لوگ متفق ہیں۔ اور اگر اس پر توجہ نہ دی گئیتویہ ایک بڑا مسئلہ بن کر کمیونسٹ پارٹی کی پوزیشن کو کمزور کر سکتا ہے۔

چین میںاس وقت عدم مساواتبڑھ رہی ہے اورر کہا جاتا ہے کہ صدرژی کو انتہائی بائیں بازو کے لوگوں کے دباؤ کا سامنا ہے جو پارٹی کو ایک بار پھراس کی روح کے مطابق ’سوشلسٹ روٹ`کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

چینی صدر کے سیاسی نظریات قومی نصاب میں شامل

شی جن پنگ تیسری بار چین کے صدر بن گئے، اعلیٰ سطحی کابینہ میں شامل افراد کون ہیں؟

چین کے نامور ارب پتی بینکر ’لاپتہ‘

ارب پتی افراد کے لاپتہ ہونے کے معاملات بڑھنے کے ساتھ ساتھاب یہ خدشہ بھی سامنے آ رہا ہے کہ اس کے نتائج بیجنگ کی دنیا میں دوسری بڑی قوت کے لیے سنگین بھی ہو سکتے ہیں۔

چین کے کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ حکومت کے لیے ابنئے کاروباری ٹیلنٹ کو سامنے لانے کے خطرات کا سامنا بھی ہے۔

پال ٹریولو نے کہا، ’ٹیکنالوجی کے ارب پتیوں کو ہدف بنانے میں بیجنگ کے لیے خطرہ ٹیکنالوجی سے وابستہ سرمایہ کاروں پرمزید دباؤ ڈال رہا ہے جو بزنس میں اگلے جیک ما بننے کی امید ککرتے ہیں۔‘

صدر ژی کاروباری جذبات کو بھڑکانے کے خطرے سے واقف دکھائی دیتے ہیں، اور اس ہفتے این پی سی کے مندوبین سے ایک تقریر میں انھوں نے چین کے لیے نجی شعبے کی اہمیت پر زور دیا۔

تاہم ساتھ ہی نجی اداروں اور کاروباری افرادسے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ ’امیر بننے کے ساتھ ساتھذمہ دار، صالح،اور محبت کرنے والے‘ بنیں۔

ایک نئے مالیاتی نگران کے اعلان کے ساتھ ساتھبینکرز کو بھی گزشتہ ماہ متنبہ کیا گیا تھا کہ وہ اپنے مغربی ہم منصبوں کی مثال پر عمل کرنے سے گریز کریں۔

پالمارو نے کہا،’حالیہ مہینوں میں، ہم مالیاتی خدمات میں مشترکہ خوشحالی کے ایجنڈے کے اشارے دیکھ رہے ہیں، خاص طور پرجہاں سینئر ایگزیکٹوز کے لیے معاوضے اور بونس اسکیمیں ہیں وہیں انتظامیہ اور جونیئر عملے کیتنخواہ کا فرق بھی گھٹانے کی کوشش سامنے آ رہی ہے۔‘

مبصرین کے مطابق یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا صدر ژی کا ارب پتیوں کے خلاف کریک ڈاؤن انہیں اقتدار پر اپنی گرفت کو نمایاں طور پر مضبوط کرنے میں مدد دے گاتاہم چین کی مالیاتی منڈیوں، کاروبار اورمجموعی طور پر ملک کی معیشت پر اعتماد کو خطرات کا سامنا ضرور ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More