BBCپینیلوپکی عمر اب 58 سال ہے
تقریباً 21 سال پہلے جب پینیلوپ کو اپنی چار سالہ بیٹی سے عدالتی فیصلے کے بعد جدا کیا گیا تو ان کا دل صدمے سے ایسا ٹوٹا جسے جوڑا نہ جا سکا۔بیٹی کی جدائی نے پینیلوپ کو تنہا کر دیا۔
پینیلوپ کا کہنا ہے کہ ’میری بیٹی میری کل کائنات تھی، جس سے میں بے پناہ محبت کرتی تھی۔‘
پینیلوپ کی عمر اب 58 سال ہے۔ پینیلوپ اپنی ذہنی صحت کے ساتھ جدوجہد کر رہی تھیں اور دوسری جانب ان کی والدہ کینسر سے لڑ رہی تھیںاور مالی مشکلات کے باعث زندگی ان کے لیے بہت مشکل تھی۔
’میں نے ان سب مسائل کے لیے مدد چاہی۔ میں اپنی ماں سے ملاقات اور اپنے بچے سے ملنے کے لیے فنڈنگ چاہتی تھی جو مجھے کہیں سے نہیں مل رہی تھی۔ ‘
پینیلوپ کے مسائل سماجی خدمات کے ایک ادارے کی نظر سے گزرے اور ان کا معاملہ عدالت میں ختم ہوا، جہاں ایک جج نے فیصلہ دیا کہ ان کی بیٹی کی دیکھ بھال اب وہ نہیں بلکہ کئیر سینٹر کرے گا۔
’مجھے بتایا گیا تھا کہ میں جذباتی نقصان پہنچا سکتی ہوں۔ میں جانتی تھی کہ میں ایک اچھی ماں ہوں اور میں اس سلوک کی مستحق نہیں۔‘
پینیلوپ اب سفولک میں رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ اپنادفاع کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھیں کیونکہ عدالتی مقدمہ انکی ماں کی وفات کے اگلے ہی دن تھا۔ انھوں نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی تاہم اس میں انھیں ناکامی ہوئی۔
’میں جانتی ہوں کہ میں اپنی بیٹی کی بہتر پرورش کر سکتی تھی اور اس کے لیے میں اپنے تمام وسائل بروئے کار لائی اور عدالت سے اس کو واپس لینے کے لیے اپنی عمر بھر کی جمع پونجیصرف کر دی۔‘
پینیلوپ نے پانچ سال پہلے سفولک میں ایک سپورٹ گروپ’بیم‘ میں شمولیت اختیار کی جو اپنے بچوں سے علیحدگی کا مقابلہ کرنے والیخواتین پر مبنی تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ہم سب کے درمیانہمدردی اور ایک دوسرے کو سمجھنے کا ایسا جذبہ موجود ہے جو مجھے کہیں اور نہیں ملا۔ ‘
BBC
یہ ادارہ آرٹ تھراپی سیشنسمیت فلاح و بہبود سے متعلق متعدد ایسی سرگرمیاں کرواتا ہے، جن سے پینیلوپ کو ان کے غصے، تناؤ اور خوفسے چھٹکارا پانے میں مدد ملی۔
بیم میں شامل ہونے کے کچھ ہی عرصے بعدپینیلوپ کی بیٹی نے ان کا سراغ لگا لیا۔
’میری بیٹی نے اپنی 21 ویں سالگرہ کے موقع پر مجھے فون کیا۔ میں کئی سال سے اس فون کال کا انتظار کر رہی تھی۔تھا۔۔۔‘ پینیلوپ نے مسکراتے ہوئے بتایا۔
’یہ میری دعاؤں کا صلہتھا۔ میں نے وہ تمام دن گن گن کر گزارے۔ ایک دن بھی ایسا نہ گزرا جب میں نے اسے یاد نہ کیا ہو۔ میں اسے زندگی سے زیادہپیار کرتی ہوں۔‘
سات سال پہلے ڈونا نے سپورٹ گروپ’بیم‘ میں شرکت شروع کی۔ جہاں ان کو ’شرارتی ڈونا‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
ہسپتال کی 38 سالہ کلینر ڈونا اب بیم کی سفیر بن گئی ہیں۔ اپنے اس سفر پر ان کا کہنا ہے کہ بیم نے انھیں زندگی میں بہت اعتماد بخشا۔
ان کا کہنا ہے ’میں یہاں آنے سے پہلے افسردہ، پریشان اور اداس رہتی تھیاور اب میں سمجھتی ہوں کہ اسی کیفیت میں تنھا نہیں بلکہ اس سے دوسری خواتین بھی گزر رہی ہیں۔ مجھے لوگوں کا درد بانٹنا اور انھیں حوصلہ دینا بہت پسند ہے۔
ڈونا کا کہنا ہے کہ وہ ذاتی زندگی میں بہت ناخوشگوار حالات کا سامنا کر رہی تھیں اور اس سے نکلنے کے لیے کوشاں تھیں، جب میرے تین بچوں کو میری سرپرستی سے لے لیا گیا۔
’اس فیصلے سے مجھے اپنا دل درد سے پھٹ جانے کا گمان ہوا۔ میں اپنے بچوں کو دل سے پیار کرتی ہوں ۔ اس سب کے بعد میں نے خود کو بہت تنہا محسوس کیا، میں چاہتی تھی کہ وہ میرے ساتھ رہیں۔ مجھے لگا جیسے اس سبکی قصور وار میں تھی۔‘
ڈونا کو لرننگ ڈس ایبیلٹی (سیکھنے کے عمل میں دشواری)کا سامنا ہے۔ بیم نے اپنے بچوں سے رابطہ برقرار رکھنے کے لیے ڈونا کی حمایت کی۔
ڈونا کا مزید کہنا ہے کہ ’جب میں نے پہلی بار یہاں آنا شروع کیا تو میں بہت گھبرا گئی تھی۔ میں نے سوچا تھا کہ لوگ مجھے الزام دیں گے تاہم یہاں تو ہم سب ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔‘
سابقہ بیرسٹر چیری پارنل نے 2015 میں فیملی لا عدالتوں میں کام کرنے کے بعد 2015 میں بیم کی بنیاد رکھی تھی۔
عدالت میں عام طور پر وہ ایسی ماؤں کی نمائندگی کرتی تھیں جنھیں ان کے بچوں کی نگہداشت سے محروم کرنے کے فیصلوں کا سامنا تھا۔ ان کے مطابق انھیں اپنےپیشہ ورانہ فرائض کے دوران احساس ہوا کہ ایسی خواتین کے لیے کہیں بھی آواز نہیں اٹھائی جاتی۔
ان میں سے بہت سی مائیں گھریلو تشدد کا شکار تھیں، جبکہ بہت سی خواتین کو بچوں کی نگہداشت کے دورانڈپریشن جیسے ذہنی مسائل کا سامنا تھا۔
BBC38 سالہ کلینر ڈونا اب بیم کی سفیر بن گئی ہیں
بہت سی خواتین ایسی بھی تھیں جنھوں نے ان معاملات میں اپنی غلطیوں کو تسلیم کیا اور مانا کہ وہ اپنے بچوں کی صحیح اور بہترپرورش کر سکتی تھیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ایسے کیسز میں بے تحاشا غم اور بعض اوقات شرم کی وجہ سے خواتین بہت تنہا ہو جاتی ہیں، انھیں بھلا دیا جاتا ہے اور ان کی موجودگی کا احساس بھی مٹ جاتا ہے۔‘
چیری نے محسوس کیا کہ وہ عدالتی فیصلے کے بعد اب لوگوں سے مصافحے اور میل ملاقات کے دوران صرف اظہار افسوس کا سامنا کر رہی ہیں، جس کے بعد انھوں نے اپنی ملازمت چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
’میں نے سوچا تھا کہ یہ شاید صرف ایک سال کی بات ہو۔ میں اپنی ملازمت چھوڑنا نہیں چاہتی تھی اس میں مجھےپیسے بہت اچھے ملتے تھے لیکن میں اس کے بعد جاری نہ رکھ سکی۔‘
چیری کہتی ہیں کہجب خواتین پہلی بار بیم آتی ہیں تو وہ بہت دکھی ہوتی ہیں لیکن یہاں دیگر ساتھیوں کی طرف سے ملنے والی محبت انھیں پنپنے کا موقع دیتی ہے۔ ‘
یہاں موجود بہت سے لوگوں کو دوبارہ موقع فراہم کیا جاتا ہے کہ وہ نوکریاں پا سکیں یاڈگریاں حاصل کر سکیں اور سب سے اہم بات کہ ماؤں کو اپنے بچوں کے ساتھ رشتہ قائم کرنے کے لیے مکمل تعاون فراہم کیا جاتا ہے۔
سفولک میںقائم کیا گیا سپورٹ گروپ ’بیم‘ اس وقت تک 50 ماؤں کو برطانیہ بھر میں آن لائن گروپس کے ذریعے مدد اور سپورٹ فراہم کر رہا ہے لیکن چیری کا کہنا ہے کہ بہت سے دیگر مقامات پر ایسے ہی گروپس کی اشد ضرورت ہے۔
Getty Imagesبچوں کو نگہداشت کے ادارے بھیجنے کی وجوہات کیا؟
2022 میں بچوں کی نگہداشت کے ادارے میں بھیجے جانے کی سب سے عام وجہ ان کے ساتھبدسلوکی یا نظرانداز کیا جانا تھا۔
برطانیہ کے محکمہ تعلیم کے مطابق گزشتہ سال 82 ہزار 170 بچے نگہداشت کے لیے کیئر سینٹرز میں لائے گئے جبکہ 2018 میں ایسے بچوں کی تعداد 75 ہزار 300 کے قریب تھی۔
2022 میں بچوں کو ان کے والدین سے تحویل میں لیے جانے کی سب سے عام وجہ بدسلوکی یا انھیں نظر انداز کرنا تھا، جس کے کیسز کی تعداد 66 فیصد تھی۔
اعدادوشمار کے مطابق خاندانی تعلقات میں خرابی، خاندان میں شدید تناؤ، والدین کی بیماری یا معذوری، بچے کی معذوری خاندان کی کم آمدنی بھی ان کی عام وجوہات ہیں۔
لنکاسٹر یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی پروفیسر کیرن براڈہرسٹ نے بچوں اور خاندانی انصاف پر 25 سال تک کام کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’گھریلو بدسلوکی کے بعد رشتوں سے دستبرداری کے بعد ماؤں کیذہنی صحت کے مسائل اور منشیات کا استعمال بھی سامنے آتا ہے جس میں مدد کے لیے رسائی اور وسائل کافی نہیں۔‘
’عدالتوں پر پہلے ہیضرورت سے ذیادہ بوجھ ہے۔ ان کے پاس26 ہفتوں میں مقدمات کو نمٹانے کا وقت ہوتا ہے، جس دوران وقت کی کمی کے باعث والدین کی مدد کے لیے وہدرکار وقت میسر نہیں آ پاتا اور اکثر ان کی حوصلہ افزائی نہیں ہو پاتی۔‘
محکمہ صحت اور سماجی نگہداشت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’مائیں نیشنل ہیلتھ سروسز میں کاؤنسلنگ اور تھیراپیکی سہولیات سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں، جہاں دماغی صحت کی خدمات کی مد میں 2.3 کھرب روپے اضافی مختص کیےگئے ہیں۔
چیری کا خیال ہے کہ ایک بار جب آپ تحفظ اور محبت کے حصار میں آ جاتے ہیں تو یہقدم خواتین کے لیے تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’محبت اور توجہ سے زندگی بہتر ہوتی ہے، جس سے انھیں بہترمستقبل کی امیدملتی ہے۔‘
’میں ان حیرت انگیز خواتین کی زندگیوں میں شامل ہونے کے موقع کے لیے ہر روز خدا کا شکر ادا کرتی ہوں۔ یہ خواتین میری زندگی میں بہت خوشیاں لائی ہیں۔ اگر آپ ایک شخص کی زندگی بدل سکتے ہیں تو یہ کتنا بہترین ورثہ ہے۔‘