امیر طبقہ اپنا بینک بیلنس سوئٹزر لینڈ میں رکھتا ہے، علاج معالجہ کے لئے امریکا اور برطانیہ جاتا ہے، شاپنگ دبئی اور یورپ سے کرتا ہے اور جب مر جاتا ہے تو پاکستان میں دفن ہوتا ہے، پاکستان پاکستانیوں کے لئے صرف ایک قبرستان ہے اور قبرستان کیسے ترقی کر سکتا ہے؟
پاکستان اپنے قیام سے لیکر 75برس گزرنے کے بعد بھی لاتعداد مسائل سے دوچار ہے، انگریز سامراج سے آزادی کے باوجود ہم آج بھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔
پاکستان کے 98 فیصد عوام پر قابض 2 فیصد طبقہ عوام کی جان و مال سمیت ہر شئے اور حق غصب کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ پاکستان میں ایک مخصوص ٹولے کی حکمرانی ہے، ملک میں کسی بھی جماعت کی سول یا فوجی حکومت ہو چند مخصوص چہرے ہمیشہ عوام کی قسمت کا فیصلہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر روسی صدر پیوٹن سے منسوب ایک پوسٹ اکثر دیکھنے کو ملتی ہے اس کی مصدقہ ہونے کے حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن بات صد فیصد درست ہے، اس پوسٹ کا متن کچھ یوں ہے کہ : پاکستان پاکستانیوں کے لئے قبرستان ہے۔
پیوٹن کا کہنا ہے کہ جب کوئی پاکستانی امیر طبقہ اپنا بینک بیلنس سوئٹزر لینڈ میں رکھتا ہے،علاج معالجہ کے لئے امریکا اور برطانیہ جاتا ہے،شاپنگ دبئی اور یورپ سے کرتا ہے، چائنہ کی چیزیں خریدتا ہے، عبادت مکہ اور مدینہ میں کرتا ہے۔
امیروں کی او لاد یورپ میں تعلیم حاصل کرتی ہے۔امیر سیر کرنے کے لئے امریکہ برطانیہ اور کینیڈا کا سفر کرتے ہیں اور جب مر جاتے ہیں تو پاکستان میں دفن ہوتے ہیں ۔پاکستان پاکستانیوں کے لئے صرف ایک قبرستان ہے اور قبرستان کیسے ترقی کر سکتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے حکمران ملک میں صرف حکمرانی کرنے کیلئے آتے ہیں اور جب اقتدار سے دور ہوتے ہیں تو ملک سے فرار ہوجاتے ہیں اور دوبارہ الیکشن میں عوام کو ٹھگنے کا عزم لیکر واپس میدان میں آجاتے ہیں۔
ملک کے کسی بھی شہر ، گاؤں دیہات یا قصبے میں اشرافیہ کے علاوہ عام عوام کو کوئی سہولیات میسر نہیں ہیں ۔ حکمرانوں اور ان کے اقرباء کیلئے ہر سہولت دستیاب ہے لیکن اپنے خون پسینے کی کمائی سے حکمرانوں کی تجوریاں بھرنے والے عوام کو کوئی بنیادی سہولیات بھی نہیں ملتیں۔کوئی سرکاری اسپتال، تعلیمی ادارہ اور سرکاری دفتر عوام کی داد رسی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
کچھ عرصہ قبل ایک رکن قومی اسمبلی نے ایوان میں ایک تحریک پیش کی جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ پارلیمنٹرینز کے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخلہ دیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک سیاستدانوں کے بچے سرکاری اسکولوں میں نہیں جائینگے نظام درست نہیں ہوگا یہ بات واقعی درست ہے کہ حکمران اور اشرافیہ کیلئے اسپتال، تعلیمی ادارے اور ہر سہولت الگ ہے تو کیونکر نظام درست ہوسکتا ہے۔
جس کا بینک بیلنس سوئٹزر لینڈ ،علاج معالجہ امریکہ اور برطانیہ ،شاپنگ دبئی اور یورپ ، عبادت مکہ اور مدینہ میں ہو،او لاد یورپ میں تعلیم حاصل کرے اور وہ سیر و تفریح امریکا، برطانیہ اور کینیڈا میں کرے تو وہ کیسے ہمارے اسپتالوں ، اسکولوں، سڑکوں، لوڈشیڈنگ، پانی، سیوریج دیگر مسائل کو سمجھ سکتا ہے۔
پاکستان میں دولتمند آدمی سرکاری اسپتال میں جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور غریب کسی پرائیویٹ اسپتال کی سڑھیاں چڑھنے کی سکت نہیں رکھتا۔ حکمران طبقے کے لوگ تو بال کٹوانے بھی بیرون ممالک کا رخ کرلیتے ہیں لیکن غریب دیہاتی گڑھوں میں جمع ہونیوالا بارش کا پانی پی کر اپنی زندگیاں موت کی راہ پر ڈال دیتے ہیں۔
پاکستان میں کاروبار کرنیوالے بڑے سیٹھ غریب عوام کا خون نچوڑ کر پیسہ بیرون ممالک بھجوا دیتے ہیں اور ساری زندگی جھوٹ ،دھوکے بازی اور کرپشن سے مال بناکر بیرون ملک عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کے بعد صرف دفن پاکستان میں ہونا چاہتے ہیں، پاکستان امراء کیلئے واقعی ایک قبرستان ہی تو ہے جہاں صرف لوگ مرکر دفن ہونا چاہتے ہیں تو قبرستان کیسے ترقی کرسکتا ہے۔