Getty Imagesپہلے ایٹمی تجربے کے بعد زمین پر پڑنے والا گڑھا
18 مئی 1974 کی صبح آل انڈیا ریڈیو کے دہلی سٹیشن سے فلم ’بوبی‘ کا مشہور گیت ’ہم تم ایک کمرے میں بند ہوں، اور چابی کھو جائے‘ نشر ہو رہا تھا۔
صبح ٹھیک 9 بجے گانا بند کر دیا گیا اور اعلان ہوا کہ ’براہ کرم ایک اہم اعلان کا انتظار کریں۔‘
چند سیکنڈ بعد اناؤنسر کی آواز ریڈیو پر گونجی ’آج صبح آٹھ بج کر پانچ منٹ پر انڈیا نے مغربی انڈیا کے ایک نامعلوم مقام پر پرامن مقاصد کے لیے زیر زمین ایٹمی تجربہ کیا ہے۔‘
اسکے ایک دن پہلے لندن میں اس وقت کی انڈین وزیر اعظم اندرا گاندھی کے پرنسپل سیکرحٹری پی این ہکسر بار بار انڈین ہائی کمشنر بی کے نہرو سے سوال کر رہے تھے کہ ’دہلی سے کوئی خبر آئی؟‘
جیسے ہی انڈیا سے ایٹمی تجربے کی خبر آئی نہرو نے ہکسر کے چہرے پر آنے والے سکون کو صاف پڑھ لیا۔
وہ سمجھ گئے کہ ہکسر بار بار دہلی سے آنے والی خبروں کے بارے میں کیوں پوچھ رہے تھے۔
کس کا سر کٹے گا؟Getty Images
اس واقعے سے پانچ دن پہلے یعنی 13 مئی کو ایٹمی توانائی کمیشن کے چیئرمین ہومی سیٹھنا کی نگرانی میں انڈیا کے ایٹمی سائنسدانوں نے ایٹمی بم کو اسمبل کرنا شروع کیا تھا۔
14 مئی کی رات کو یہ ڈیوائس انگریزی کے حرف ایل کی شکل میں بنے ایک شافٹ میں پہنچایا گیا۔ اگلے دن سیٹھنا دہلی روانہ ہوئے کیونکہ اندرا گاندھی سے ان کی ملاقات پہلے سے طے تھی۔
سیٹھنا نے کہا: ’ہم نے ڈیوائس کو شافٹ میں پہنچا دیا ہے۔ اب مجھے اسے باہر نکالنے کو نہیں کہیے گا کیونکہ اب یہ ممکن نہیں ہے۔ اب آپ ہمیں آگے جانے سے نہیں روک سکتیں۔‘
اندرا گاندھی کا جواب تھا: ’گو اہیڈ، کیا تمھیں ڈر لگ رہا ہے؟‘
سیٹھنا نے کہا: ’ہرگز نہیں، میں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ یہاں سے واپسی نہیں ہو گی۔‘ اگلے دن اندرا گاندھی کی منظوری لینے کے بعد سیٹھنا انڈیا کے علاقے پوکھرن واپس آ گئے۔
انھوں نے پوری ٹیم کو جمع کیا اور پوچھا کہ ٹیسٹ میں ناکام ہونے پر کس کا سر قلم کیا جائے گا؟ بم کے ڈیزائنر راج گوپال چدمبرم نے فورا جواب دیا، ’میرا‘۔
ٹیم کے ڈپٹی لیڈر پی کے آینگر نے بھی کہا: ’کسی کا سر قلم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر یہ ناکام ہو جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ فزکس کے اصول درست نہیں ہیں۔‘
BBCہومی سیٹھناجیپ نے دھوکہ دیا
18 مئی کی صبح پوکھرن کے صحرا میں گرمی قدرے زیادہ تھی۔ دھماکے کو دیکھنے کے لیے وہاں سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک مچان نما سائبان بنایا گیا تھا۔
ہومی سیٹھنا، راجہ رمننا، اس وقت کے انڈین آرمی چیف جنرل بیور، اُس وقت کے ڈی آر ڈی او کے چیئرمین بی ڈی ناگ چودھری، ٹیم کے ڈپٹی لیڈر پی کے آینگر اور لیفٹیننٹ کرنل پی پی سبھروال وہاں موجود تھے۔
ناگ چودھری کے گلے میں کیمرہ لٹکا ہوا تھا اور وہ مسلسل تصویریں لے رہے تھے۔ چدمبرم اور ایک اور ڈیزائنر ستیندر کمار سیکا کنٹرول روم کے قریب ایک اور چوٹی پر موجود تھے۔
الیکٹرانک دھماکہ کرنے والی ٹیم کے سربراہ سری نواسن اور پرنو دستیدار کنٹرول روم کے اندر تھے۔ تجربے کا وقت صبح 8 بجے مقرر کیا گیا تھا۔
لیکن اس سے ایک گھنٹہ پہلے فائنل چیک کے لیے جانے والے سائنسدان وریندر سنگھ سیٹھی کی جیپ تجربے کے مقام پر سٹارٹ ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ وقت ختم ہو رہا تھا۔ آخر کار سیٹھی نے جیپ کو وہیں چھوڑا اور دو کلومیٹر پیدل چل کر کنٹرول روم تک پہنچے۔
سیٹھنا نے وہاں موجود چیف آف آرمی سٹاف جنرل بیور سے پوچھا کہ اس جیپ کا کیا کرنا ہے جو ٹیسٹ سائیٹ کے بالکل قریب کھڑی تھی۔ جنرل بیور نے جواب دیا: ’اوہ، یو کین بلو دی ڈیمن تھنگ اپ‘ یعنی تم اس ناکارہ چیز کو تباہ کر سکتے ہو۔
ایسا کرنے کی نوبت نہیں آئی کیونکہ اسی دوران انڈین فوج کے جوان ایک اور جیپ لے کر وہاں پہنچ گئے اور خراب جیپ کو ایک محفوظ مقام پر لے گئے۔ لیکن اس چکر میں ٹیسٹ کا وقت پانچ منٹ بڑھا دیا گیا۔
’وی ول پروسیڈ‘ (یعنی ہم آگے بڑھیں گے)
آخر کار مچان کے قریب لاؤڈ سپیکر سے الٹی گنتی شروع ہو گئی۔ سیٹھنا اور رمنا نے پرنو دستیدار کو ٹریگر دبانے کا اعزاز دیا۔
جیسے ہی پانچ کی گنتی ہوئی، پرنو نے ہائی وولٹیج کا سوئچ آن کر دیا۔ بائیں جانب بجلی کا میٹر دیکھ کر دستیدار کے پیروں سے زمین نکل گئی۔
میٹر یہ ظاہر کر رہا تھا کہ مطلوبہ وولٹیج کا صرف 10 فیصد ایٹمی ڈیوائس تک پہنچ رہا ہے۔ اس کے معاونین نے بھی یہ دیکھا۔ وہ گھبراہٹ میں چلایا: ’شیل وی سٹاپ؟ شیل وی سٹاپ؟‘ (کیا ہم رک جائیں؟ کیا ہم رک جائیں؟) عجلت میں گنتی بھی بند ہو گئی۔
لیکن دستیدار کا تجربہ بتا رہا تھا کہ شافٹ کے اندر زیادہ نمی کی وجہ سے غلط ریڈنگ آ رہی ہے۔ انھوں نے چیخ کر کہا، ’نو وی ول پروسیڈ‘ (نہیں ہم آگے بڑھیں گے)۔
جارج پرکووچ اپنی کتاب ’انڈیاز نیوکلیئر بم‘ میں لکھتے ہیں کہ آٹھ بج کر پانچ منٹ پر دستیدار نے سرخ بٹن دبایا۔
کرشن نے پہاڑ کو اپنی انگلی پر اٹھایا
دوسری طرف جب مچان پر موجود سیٹھنا اور رمنا نے سُنا کہ گنتی رُک گئی ہے تو وہ سمجھے کہ دھماکہ رُک گیا ہے۔
رمنا ’ایئرز آف پیلگریمیج‘ میں لکھتے ہیں کہ ان کے ساتھی وینکٹیشن نے، جو اس عرصے میں مسلسل وشنو سہسرنام کا ورد کر رہے تھے، انھوں نے اپنا ورد روک دیا۔
یہ بھی پڑھیے
واجپائی کو’بھارت رتن‘ کس بنیاد پر ملا؟
#MissionShakti: انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے انڈیا کا چوتھی خلائی طاقت بننے کا دعویٰ
انڈیا، پاکستان تعلقات: مختلف ممالک میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد بڑھانے کا مقابلہ کیوں ہے
ابھی سب سوچ رہے تھے کہ ان کی ساری محنت رائیگاں گئی کہ اچانک زمین سے ریت کا ایک پہاڑ اُٹھا اور تقریباً ایک منٹ تک ہوا میں رہنے کے بعد گرنے لگا۔ پی کے آئینگر نے بعد میں لکھا: ’یہ ایک حیرت انگیز نظارہ تھا۔ اچانک کرشن کے اپنی انگلی پر پہاڑ اٹھانے کے بارے میں سُنے سارے افسانے مجھے سچ لگنے لگے۔‘
ان کے پاس بیٹھے سسٹم انٹیگریشن ٹیم کے سربراہ جتیندر سونی کو ایسا لگا جیسے ان کے سامنے کوئی ریت کا قطب مینار آن کھڑا ہوا ہو۔
Getty Imagesمچان گر گیا’منھ کے بل گر گئے‘
اسی وقت سب کو یوں محسوس ہوا جیسے کوئی زبردست زلزلہ آیا ہو۔ سیٹھنا کو بھی لگا کہ زمین شدت کے ساتھ طرح ہل رہی ہے۔ لیکن وہ حیران تھے کہ دھماکے کی آواز کیوں نہیں آئی؟ یا وہ سُن نہیں پا رہے ہیں؟
لیکن ایک سیکنڈ بعد، ایک دھماکے کی مدھم آواز سنی گئی۔ چدمبرم، سکّا اور ان کی ٹیم ایک دوسرے سے گلے ملنے لگے۔ چدمبرم نے بعد میں لکھا: ’یہ میری زندگی کا سب سے بڑا لمحہ تھا۔‘ جوش میں، سکّا نے مچان سے چھلانگ لگا دی اور جس کی وجہ سے ان کے ٹخنے میں موچ آ گئی۔
کنٹرول روم میں موجود سری نواسن کو ایسا لگا جیسے وہ ایک جواربھاٹے والے سمندر میں ایک چھوٹی کشتی پر سوار ہوں جو بری طرح ڈگمگا رہی ہو۔ رمنا نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ ’میں نے اپنے سامنے ریت کے پہاڑ کو ایسے اٹھتے دیکھا جیسے ہنومان (ہندو دیوتا) نے اسے اٹھا لیا ہو۔‘
لیکن وہ اس جوش و خروش میں بھول گئے کہ تھوڑی ہی دیر میں زمین کانپنے والی ہے۔ وہ فوراً ہی مچان سے نیچے اترنے لگے۔ جیسے ہی زمین ہلی مچان سے نیچے آنے والے رمنا اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے اور وہ بھی زمین پر آ گرے۔
یہ ایک دلچسپ اتفاق تھا کہ انڈیا میں ایٹم بم کے معمار اس عظیم کارنامے کے موقع پر پوکھرن کی جلتی ہوئی گرم ریت پر منہ کے بل گرے پڑے تھے۔
بدھا از سمائیلنگ Getty Imagesاس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی
اب اگلا مرحلہ یہ تھا کہ یہ خبر دہلی میں اندرا گاندھی تک کیسے پہنچائی جائے؟
صرف اس مقصد کے لیے فوج نے وہاں وزیر اعظم کے دفتر کے لیے خصوصی ہاٹ لائن کا انتظام کیا تھا۔ پسینے میں نہائے سیٹھنا کا وزیراعظم آفس سے رابطہ کئی کوششوں کے بعد قائم ہوا۔
دوسرے سرے پر وزیر اعظم کے پرائیویٹ سکریٹری پی این دھر تھے۔ سیٹھنا نے کہا: ’دھر صاحب، ایوری تھنگ ہیز گان۔۔۔‘ اور اسی وقت رابطہ منقطع ہو گيا۔
سیٹھنا سمجھ گئے کہ دھر نے محسوس کیا ہو گا کہ تجربہ ناکام ہو گیا ہے۔ انھوں نے فوج کی جیپ اٹھائی اور لیفٹیننٹ کرنل پی پی سبھروال کے ساتھ، بے دلی سے پوکھرن گاؤں کی طرف چلے جہاں فوج کا ٹیلی فون ایکسچینج تھا۔
وہاں پہنچنے کے بعد سیٹھنا نے اپنا سر پیٹ لیا جب انھیں خیال آيا کہ وہ دھر کا ڈائریکٹ نمبر بھول آئے ہیں۔
یہاں سبھروال ان کی مدد کے لیے آگے آئے۔ انھوں نے اپنی ساری افسری اپنی آواز میں ڈالتے ہوئے ٹیلیفون آپریٹر سے کہا، 'گٹ میں دی پرائم منسٹر آفس‘ یعنی میرا وزیر اعظم کے دفتر سے رابطہ کراؤ۔
اس کے حکم کا آپریٹر پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ انھوں نے عام ہندی میں پوچھا تم کون ہو؟
کافی کوششوں اور بحث و مباحثے کے بعد بالآخر وزیراعظم آفس سے رابطہ ہوا۔
سیٹھنا نے تقریبا چیختے ہوئے مشہور کوڈ ورڈ ’بدھا از سمائیلنگ‘ کہا۔
وزیر اعظم کی رہائش گاہ
اس واقعے کے 29 سال بعد تک پی این دھر نے کسی کو یہ نہیں بتایا کہ سیٹھنا کی یہ تمام کوششیں بے سود ثابت ہوئی تھیں کیونکہ آرمی چیف جنرل بیور کی کال دس منٹ پہلے ہی ان تک پہنچ گئی تھی۔
دھر ان سے براہ راست سوال نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ان کی بات چیت ٹیلی فون لائن پر سنی جا سکتی تھی۔ دھر نے اس سے پوچھا ’کیا حال ہے؟‘ بیور کا جواب تھا، ’سب آنند (اچھا) ہے۔‘
دھر کو اسی وقت احساس ہو گیا کہ انڈیا کا ایٹمی تجربہ کامیاب ہو گیا ہے۔ انھوں نے فوراً وزیراعظم کی رہائش گاہ کا رُخ کیا۔ اس وقت اندرا گاندھی اپنے لان میں عام لوگوں سے مل رہی تھیں۔
جب انھوں نے دھر کو آتے دیکھا تو لوگوں سے بات کرنا چھوڑ کر ان کی طرف لپکیں۔ انھوں نے تقریباً اکھڑی ہوئی سانس کے ساتھ پی این دھر سے پوچھا کہ ’کیا ہوا۔‘
دھر نے جواب دیا، ’سب ٹھیک ہے، میڈم۔‘
دھر نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ ’مجھے آج بھی یاد ہے کہ یہ سُن کر اندرا گاندھی کے چہرہ کھل اٹھا۔ ان کے چہرے پر فتح کی مسکراہٹ واضح طور پر پڑھی جا سکتی تھی۔‘