شی جن پنگ کا اقتدار پر مکمل قبضہ کیسے اہمیت کا حامل ہے؟

بی بی سی اردو  |  Mar 05, 2023

Reuters

چین کی نیشنل پیپلز کانگریس رواں ہفتے شروع ہو رہی ہے اور اس میں علامتی طور پر یہ ظاہر ہوگا کہ برسرِ اقتدار شی جن پنگ نے طاقت کیسے چھین لی ہے۔

چینی صدر نے کمیونسٹ پارٹی کی ترتیب نو کرتے ہوئے خود کو اس کا سب سے اہم ستون بنا لیا ہے اور کسی کے پاس ایسا کوئی موقع نہیں کہ انھیں چیلنج کر سکے۔

پارٹی کے سالانہ سیاسی اجلاس میں قریب تین ہزار لوگوں کا وفد شرکت کرے گا اور اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگ تبدیل ہوں گے۔

اس میں چین کو ایک نیا وزیر اعظم ملے گا جو دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت کو سنبھالے گا۔ کتابی طور پر وزیر اعظم صدر کے بعد سب سے طاقتور عہدہ ہے۔

پہلے روز سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم لی کی چیانگ سب کی نگاہوں کا مرکز ہوں گی جبکہ آخر میں لوگوں کی توجہ نئے وزیر اعظم، ممکنہ طور پر لی چیانگ، پر ہوگی۔

یہ دو مختلف شخصیات ہیں، خاص کر شی جن پنگ سے وفاداری کے اعتبار سے۔ چینی صدر نے ایک دہائی قبل کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن سے شروعات کی تھی اور اس سے قبل وہ پارٹی کے حریف گروہوں میں ترقی حاصل کرتے ہوئے اس منصب تک پہنچے تھے۔

گذشتہ اکتوبر کمیونسٹ پارٹی کانگریس نے سات مردوں کی پولٹ بیورو قائمہ کمیٹی میں نئی تعیناتیاں کی تھیں۔ یہ ملک کا سب سے طاقتور گروہ ہے اور اب اس میں صرف شی جن پنگ کے وفادار رہنما ہی ہیں۔

رواں اجلاس میں مختلف محکموں اور وزارتوں کے سربراہان موجود ہوں گے جن میں رد و بدل کی جائے گی۔ امکان ہے کہ یہ ہم خیال لوگ ہوں گے۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اہلیت نہیں رکھتے تاہم کیا وہ اس شخص کو بے خوف اور بلا تکلف تجاویز دے پائیں گے جس نے انھیں تعینات کیا؟

ایک تجربہ کار کاروباری شخصیت نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایک طرف اس کا مطلب ہوسکتا ہے کہ شی جن پنگ نئی قیادت کے ذریعے اپنے کام کروا سکیں گے مگر دوسری طرف یہ خطرہ موجود ہے کہ کمرے میں صرف انہی کی آواز گونجے گی۔‘

Getty Imagesتو ان نئی تعیناتیوں کا چین کی حکمت عملی پر کیا اثر پڑے گا؟

اگر لی چیانگ نئے وزیر اعظم بنتے ہیں تو یہ ان کی ڈرامائی ترقی ہو گی۔ وہ شنگھائی میں پارٹی کے سربراہ تھے جب گذشتہ سال چین کے مالیاتی دارالحکومت میں دو ماہ کا سخت ترین لاک ڈاؤن نافذ رہا۔

اسی وجہ سے بہت سے لوگوں کو حیرانی ہوئی تھی جب انھیں کمیونسٹ پارٹی کی صفوں میں دوسرے نمبر پر سب سے بڑے عہدے سے نوازا گیا۔

اس لاک ڈاؤن کا نفاذ بُرے انداز میں کیا گیا تھا۔ ڈیلیوری رائڈرز کو گھروں تک محدود کرنے کا مطلب یہ تھا کہ لاکھوں لوگوں تک خوراک اور ادویات کی منتقلی نہیں کی جاسکتی تھی جن کو باہر نکلنے کی اجازت نہ تھی۔

خوراک کی شدید قلت پیدا ہوئی تھی۔ حتیٰ کہ جب ڈیلیوریاں ہونے لگیں تو رہائشیوں نے خراب سبزیوں کی تصاویر پوسٹ کی جو انھیں زندہ رہنے کے لیے کھانی پڑیں۔

پورے شہر میں لاک ڈاؤن کے اواخر میں لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا۔ وہ رکاوٹیں اکھاڑ رہے تھے اور ان گارڈز سے لڑ رہے تھے جو انھیں روکنے کے لیے تعینات تھے۔ یہ زیرو کووڈ حکمت عملی سے نفرت کا مظاہرہ تھا۔

مبصرین سوال اٹھاتے ہیں کہ اس ناکامی کے ذمہ دار کو پورے ملک کی ذمہ داری کیسے دی جاسکتی ہے۔

ان کا ماضی ایک الگ تاثر دیتا ہے۔ گزرتے برسوں کے دوران کاروباری حلقے انھیں باصلاحیت سمجھتے تھے جو پارٹی میں اہم لوگوں تک پہنچ سکتے تھے۔

چین میں یورپی یونین چیمبر آف کامرس کے صدر یورک ووٹکے کہتے ہیں کہ ’وہ سمجھدار ہیں اور اچھے آپریٹر ہیں لیکن ظاہر ہے انھیں یہ نوکری شی سے وفاداری پر ملی ہے۔ جب صدر انھیں کودنے کا کہیں گے تو وہ پوچھیں گے کتنا اونچا؟‘

وہ 1990 کی دہائی سے ملک میں کاروبار کر رہے ہیں اور کمیونسٹ پارٹی کی اعلیٰ سطح سے معاملات میں نمٹ رہے ہیں۔ مگر ووٹکے کے مطابق ان کی زیرو کووڈ حکمت عملی کے اثرات آج بھی کاروبار اور عام صارفین جھیل رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’زیرو کووڈ عرصے کے صدمے کو لے کر لوگ پیسے خرچ کرنے میں بہت محتاط رہتے ہیں۔ چین میں گذشتہ چند برسوں کے دوران لوگ حیرت میں مبتلا رہے ہیں۔ وہ فیصلہ کرنے سے پہلے ہر طرح کے خطرات سے ڈرتے ہیں۔ شنگھائی میں یہ صدمہ خاص کر موجود ہے اور بیرونی سرمایہ کاری کی جہاں تک بات ہے تو اس کی چمک اب مانند پڑنے لگی ہے۔‘

ووٹکے کے مطابق یہ صرف لی چیانگ کا قصور نہیں جبکہ دوسرے کاروباری افراد بھی یہی خیال رکھتے ہیں۔

لی چیانگ کو اس بات پر داد دی جاتی ہے کہ وہ شنگھائی میں ٹیسلا کو لائے۔ یہ ٹیسلا کی امریکہ سے باہر پہلی فیکٹری تھی اور چین نے پہلی بار کسی غیر ملکی کار کمپنی کو چینی شراکت دار کے بغیر کام کرنے کی اجازت دی تھی۔

Getty Images

سنہ 2019 میں شنگھائی کے پائلٹ فری ٹریڈ زون کی خوبیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ بین الاقوامی مسابقت کے لیے ایک اہم ملک بن جائے گا، جو ’چین کے لیے اقتصادی گلوبلائزیشن کے ساتھ گہرائی سے مربوط ہونے کے لیے ایک اہم کیریئر کے طور پر کام کرے گا‘۔

لی چیانگ بعض حلقوں میں ایک زیادہ آزاد خیال شخصیت کے طور پر دیکھے جاتے ہیں، جو قوانین میں تبدیلی متعارف کرانے پر تیار نظر آتے ہیں۔

اس کے باوجود یہ واضح نہیں ہے کہ آیا وہ اب ایک بااختیار حکمران بنیں گے جو کچھ بھی کرنے سے نہیں گھبرائیں گے کیونکہ انھیں شی کی حمایت حاصل ہے، یا ایک سابق عملیت پسند جو ایک بہت بڑے سٹیج پر، شی کے سائے کے اندر ہی کھڑے ہوں گے۔

خیال رہے کہ سنہ 2016 میں وہ جیانگ شو کے امیر مشرقی صوبے کے پارٹی کے سیکرٹری بنے۔ یہ صوبہ اپنی ٹیک کمپنیوں کے لیے جانا جاتا ہے۔ انھوں نے علی بابا کے بانی جیک ما اور دیگر ایگزیکٹوز سے ملاقاتیں کیں اور وہاں کاروبار کے لیے ماحول کے بارے میں مشورہ طلب کیا۔

لیکن وہ ایک مختلف وقت تھا۔ حالیہ برسوں میں شی نے حکم دیا ہے کہ ٹیک کمپنیوں کو قابو میں لایا جائے۔ ان کے خیال میں ان کمپنیوں نے اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے بہت طاقت حاصل کر لی ہے۔

ان کمپنیوں کے سربراہوں کا منظر سے ’غائب‘ ہونا ایک عام سی بات ہے تاکہ پارٹی کے نظم و ضبط کے معائنہ کرنے والے افسران ان سے پوچھ گچھ کر سکیں۔۔ تازہ ترین ارب پتی بینکر باو فین ہیں جنھوں نے اہم ٹیک معاہدے کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔

یہ اس قسم کی چیز نہیں ہے کہ جس کی ماضی میں لی جیانگ نے حوصلہ افزائی کی ہو گی۔ تاہم اس سے قبل جب شنگھائی کے جنوب میں زی جیانگ صوبے میں اس وقت شی پارٹی کے سربراہ تھے اور لی ان کے چیف آف سٹاف تھے تو دونوں نے پارٹی کے لیے بہت خدمات انجام دیں جس سے ان کے افسران بالا بہت متاثر ہوئے۔

شی کا سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم لی کی چیانگ کے ساتھ ایسا مشترکہ تجربہ یا ماضی کبھی نہیں تھا۔

وہ دونوں ایک ساتھ منظر پر ابھر کر سامنے آئے اور اس وقت وقت لی کی چیانگ ایک طرح سے حریف تھے۔ انھیں اعلیٰ عہدے کے لیے امیدوار بھی سمجھا جا رہا تھا۔ آپ اور کچھ تو نہیں کر سکتے مگر تصور کریں کہ اگر وہ شی کے بجائے لیڈر بن جاتے تو آج چین کیسا ہوتا؟

ایک روشن ماہر معاشیات جس نے ثقافتی انقلاب کے فوراً بعد پیکنگ یونیورسٹی سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد لی کی چیانگ ایک حریف پاور بلاک کمیونسٹ یوتھ لیگ کے ذریعے پارٹی کی صفوں میں شامل ہوئے۔

اعلیٰ ملازمت سے محروم ہونے کے بعد وہ جلد ہی شی کے ماتحت وزیر اعظم کے طور پر کام کرنے پر مجبور ہوئے۔ شی نے جس انداز میں کام کیا ایسا عوامی جمہوریہ چین کے بانی ماؤ زے تنگ کے بعد سے کوئی رہنما اس انداز میں ملک کی ترقی کے لیے کام کرتے نظر نہیں آیا۔

وزیر اعظم کے طور پر ایک موقع پر لی کی چیانگ نے اعلان کیا کہ چین بھر کے شہروں میں پھیری والے دیہاڑی دار مزدوروں کو دوبارہ آزادانہ طور پر کام کی اجازت دینے سے معیشت کی بحالی اور زیادہ گہما گہمی والا ماحول پیدا کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ مگر جن لوگوں نے ایسا کرنے کی کوشش پولیس نے انھیں یہ سب کرنے سے روک دیا۔

شی کے تحت دارالحکومت ’تنزلی کی طرف‘ یا پرانے زمانے کی کوئی علامت نظر آتی ہے تو اس تاثر کو ختم کرنا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑا کہ وزیر اعظم نے ایسی تجویز دی تھی، جو بیجنگ میں قابل عمل نہیں تھی۔

لی کی چیانگ کو سابق رہنما ہوجن تاؤ کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے، جنھیں شی کے حکم پر گذشتہ سال پارٹی کانگریس میں سٹیج سے اتارا گیا تھا۔

چاہے اس کی وجہ یہ تھی کہ ہوجن بیمار تھے یا وہ اس وجہ سے مشکلات کھڑی کر رہے تھے کہ ان کے قریبی سمجھے جانے والوں کو نظر انداز کر دیا گیا اور انھیں ترقی نہیں دی گئی۔ اس غیر واضح واقعہ نے دنیا کے سامنے ماضی میں ہونے والے اقدامات کو آشکارا کر دیا۔

جب ہوجن کو لے جایا جا رہا تھا تو انھوں نے دوستانہ انداز میں لی کی چیانگ کے کندھے پر تھپتھپا دیا اور وزیر اعظم نے بھی سر ہلا کر اس کا جواب دیا۔

Getty Images

یہ بھی پڑھیے

چین میں ’زیرو کووڈ پالیسی‘ کے خلاف غیر معمولی مظاہروں میں صدر شی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ

شی جن پنگ تیسری بار چین کے صدر بن گئے، اعلیٰ سطحی کابینہ میں شامل افراد کون ہیں؟

شی جن پنگ کے اقتدار کے لیے مشکل کھڑی کرنا اتنا مشکل کیسے بنا

لی کی چیانگ کو مضبوط معاشی ٹریک ریکارڈ کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔ تاہم ان کا یہ کارنامہ ان کے دور اقتدار کے اختتام پر زیرو کوویڈ پالیسی کی وجہ سے مانند پڑ گیا۔

اس بدترین صورتحال میں انھوں نے حکام سے کہا کہ معیشت بڑے پیمانے پر دباؤ میں ہے اور ان پابندیوں سے کسی صورت معاشی ترقی پر حرف نہیں آنا چاہیے۔

لیکن پھر ہوا وہی جو شی کا حکم تھا۔ شی جن پنگ کو کچھ بھی فرق نہیں پڑتا، جنھوں نے اب پارٹی کو اپنی مرضی کے مطابق چلانا شروع کیا ہے۔

انھیں صرف ایک خطرہ درپیش ہے کہ ان کی ساکھ عام لوگوں میں متاثر ہوئی ہے۔

زیرو کوویڈ پالیسی، وسیع پیمانے پر پھوٹنے والے مظاہروں کی وجہ سے اس پالیسی کے خاتمے کا اعلان، جائیداد کا بحران، اعلیٰ نوجوانوں کی بے روزگاری، ٹیک کریک ڈاؤن اور سروس انڈسٹری کو پہنچنے والے بھاری نقصان نے ان کے موقف کو ٹھیس پہنچائی ہے۔

مسٹر ووٹکے کا کہنا ہے کہ ’ماؤ مکمل معاشی تباہی کے اس وقت صورتحال پر قابو پانے میں کامیاب ہوئے جب لوگوں کے پاس کھونے کے لیے اتنا کچھ نہیں بچا تھا۔‘

اب لوگوں کا معیار زندگی بہت بہتر ہے لیکن متوسط ​​طبقے کے والدین فکر کرنے لگے ہیں کہ ان کے بچوں کی زندگی ان سے بہتر نہیں ہوگی۔

اس سال کی این پی سی اور خاص طور پر وہ لوگ جنھیں اس اجلاس میں مدعو کیا گیا ہے، پر اب گہری نظر ہو گی کہ ملک کی اقتصادی مشنری کو کیا رخ دیا جائے گا۔

شی کے رستے سے تمام رکاوٹیں بزور طاقت ہٹائی جائیں گی۔ مگر اس کے باوجود اگر ملک تمام محاذ پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پا رہا تو پھر مشکل سوالات ابھر کر سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More