میرے بیٹے کا پانچ دن سے فون نہیں آیا، میرا بچہ بہت کمزور ہے، اٹلی کشتی حادثے میں انتقال کرنے والا نوجوان جس کی والدہ کو نہیں معلوم کہ وہ دنیا میں نہیں رہا

ہماری ویب  |  Mar 04, 2023

اٹلی میں کشتی الٹنے کا حادثہ پیش آیا جس میں بدقسمتی سے پاکستانی بھی سوار تھے جو انتقال کر گئے۔ اسی کشتی میں آذان نامی نوجوان بھی سوار تھا جو بڑے خواب سجا کر اٹلی جا رہا تھا تاکہ اپنا مستقبل سنوار سکے۔ مگر غیر قانونی طریقے سے باہر جانا نوجوان پر بھاری پڑا۔

'ہماری ویب' ڈاٹ کام میں آذان کے بارے میں جانیں گے جو اٹلی گیا تو صحیح سلامت تھا مگر واپس اس کی لاش آئی۔

بی بی سی اردو کے مطابق نوجوان کی والدہ کا وب تک نہیں معلوم کہ ان کا بیٹا زب زندہ نہیں رہا۔ آذان کے والد حامد خان نے بی بی سی اردو کو انٹرویو میں بتایا کہ بیٹے کی والدہ سب سے پوچھ رہی ہیں کہ ان کا بیٹا سفر میں کہاں تک پہنچا کیونکہ اس کا پانچ دنوں سے مجھے فون نہیں آیا۔

فی الحال ہم نے انھیں بتایا ہے کہ وہ ہسپتال میں داخل ہے اور جلد ٹھیک ہو جائے گا۔ انھوں نے پھر پوچھا کہ اگر وہ ٹھیک ہے تو پھر یہ اتنے لوگ کیوں ہمارے گھر آ رہے ہیں؟ جس پر ہم نے انھیں بتایا کہ یہ آذان کے اٹلی پہنچنے پر خوش ہیں اور مبارکباد دینے آ رہے ہیں۔

یہ سب تو ہم نے انھیں وقتی طور پر بتا دیا ہے مگر ساتھ ہی ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ جب آذان کی میت گھر پہنچے گی تو اس کی ماں کا کیا حال ہو گا؟

یہ کہنا ہے حامد آفریدی کا جو پشاور کے علاقے گلبرگ میں رہائش پزیر ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ آذان کی والدہ بار بار یہ کہہ رہی ہے کہ اٹلی میں کہو کہ آذان کو دودھ پلا دیں، وہ کمزور ہے مگر دودھ پلا دیں گے تو وہ اچھا ہو جائے گا۔

١٤ سالہ آذان غیرقانونی طریقے سے اٹلی جانے کی کوشش کی تھی مگر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ بی بی سی بات کرتے ہوئے آذان کے والد نے بتایا کہ اُن کا بڑا بیٹا پہلے ہی سویڈن میں انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہا ہے جبکہ آذان کے ایک ماموں اٹلی میں رہتے ہیں۔ آذان کو ماموں کے پاس اٹلی بھیجا تھا جہاں سے وہ اسے سوئیڈن بھیجتے۔

اٹلی کشتی حادثے میں ہلاک ہونے والے افراد کی میتیں اس وقت اٹلی کے ایک مردہ خانے میں موجود ہیں اور ضروری قانونی کارروائی کے بعد انھیں ان کے آبائی ممالک روانہ کیا جائے گا۔ مردہ خانے میں موجود انھیں میتوں میں ایک میت آذان کی بھی ہے جن کے تابوت پر دل کی شکل کے غبارے اور پھول رکھے گئے ہیں۔

پشاور شہر کے علاقے گلبرک میں وہ مکان ہے جہاں آذان آفریدی رہتے تھے جہاں تعزیت کے لیے آنے والوں کا سلسلہ جاری ہے۔ آنے جانے والے دعائیں کر رہے ہیں اور متاثرہ خاندان کے افراد کو تسلیاں دے رہے ہیں۔ حامد خان اور ان کے بھائی اس صورتحال کی وجہ سے کافی پریشان ہیں اور اُن میں اس معاملے پر بات کرنے کی زیادہ ہمت نہیں ہے۔

اہلخانہ کے مطابق جمعرات کو رات دیر سے معلوم ہوا تھا کہ آذان آفریدی کی لاش مل گئی ہے۔

کشتی حادثے کی خبر ملنے کے بعد پشاور میں آذان کے والدین اور رشتہ داروں کے علاوہ اٹلی میں موجود آذان کے ماموں اور سویڈن میں اُن کے بھائی اس کوشش میں لگے رہے کہ آذان کو تلاش کر لیا جائے۔ پانچ روز سے سب خاندان والے اس کشمکش میں رہے کہ کہ آذان کہاں ہے، سمندر میں ڈوب گیا ہے یا کسی ہسپتال میں زیر علاج یا ساحل پر کہیں لاپتہ ہے۔

حامد خان نے بتایا کہ ان کے لیے وہ وقت انتہائی تکلیف دہ تھا جب تک آزان کی لاش نہیں ملی تھی۔ ’یہ امید تھی کہ ہو سکتا ہے کہ وہ زندہ ہو اور ابھی یہ خبر مل جائے کہ آذان صحیح سلامت مل گیا ہے۔‘

حامد خان نے بتایا کہ آذان کے ساتھ ایک افغان نوجوان یوسف بھی تھا اور آذان نے حادثے سے قبل ٹیلیفون پر اُن سے اس کی بات بھی کروائی تھی۔ میں نے یوسف سے کہا تھا کہ آذان تمھارے چھوٹے بھائیوں کی طرح ہے، اس کا خیال رکھنا۔ اس پر یوسف نے کہا تھا کہ وہ اس کا خیال رکھے گا۔

انھوں نے کہا کہ جب حادثے کے بعد یوسف سے رابطہ کیا گیا تو اس نے بتایا کہ وہ کشتی میں اکٹھے تھے اور آذان نیچے بیٹھا تھا لیکن جب حادثہ ہوا تو اس وقت کشتی بالکل ٹوٹ گئی اور کسی کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کون کہاں ہے۔ حامد کے مطابق یوسف نے مزید بتایا کہ اسے ایک لکڑی کا ٹکڑا مل گیا تھا جس کا اس نے سہارا لے لیا اور پھر اسے بچا لیا گیا تھا۔

حامد خان نے بتایا کہ آذان اور اس کے ساتھ دو لڑکوں اور ایک لڑکی کی لاش سمندر میں جھاڑیوں میں ایک ہی جگہ پھنسی ہوئی تھی جہاں سے انھیں نکالا گیا۔

آذان کب کیسے اٹلی روانہ ہوا؟

اس حوالے سے آذان کے والد بتاتے ہیں وہ بہت ضد کر رہا تھا کہ اسے بھائی کے پاس سوئیڈن جانا ہے تاکہ وہ وہاں جا کر تعلیم حاصل کرسکے۔ وہ پاکستان میں رہنا نہیں چاہ رہا تھا اسے وہیں جانا تھا۔

حامد خان نے بتایا کہ انھوں نے ماموں کے کہنے پر آذان کو روانہ کر دیا تھا اور وہ ٹیلیفون پر ماموں کے ساتھ اور ہمارے ساتھ رابطے میں تھا ۔ ’وہ کوئی دو ماہ پہلے یہاں پشاور سے روانہ ہوا تھا اور اس کے منزل اٹلی کے بعد سویڈن تھی۔

آذان اس سارے سفر میں ماں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہا اور اس سے ساری باتیں کرتے رہا۔ جب کشتی کو حادثہ پیش آیا تو اس کے بعد آذان کا فون ماں کو نہیں آیا تو وہ پریشان ہو گئی تھیں اور بار بار کہہ رہی تھیں کہ آذان کا فون نہیں آ رہا اللہ خیر کرے۔ بعد میں انھیں حادثے کا پتہ چل گیا تھا مگر ہم نے انھیں یہ تسلی دی تھی کہ آذان زندہ ہے اور وہاں ہسپتال میں ہے جلد ٹھیک ہو جائے گا پھر آپ سے رابطہ کرے گا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More