کفن ملتا ہے نہ قبر نصیب ہوتی ہے ۔۔ یورپ میں سیکڑوں پاکستانیوں کی اموات کا ذمہ دارن کون؟

ہماری ویب  |  Mar 03, 2023

بیروزگاری، بھوک، بدحالی، ماں باپ کے طعنے، بیوی بچوں کی فرمائش یا پیسوں کا لالچ، آخر کونسی ایسی چیز ہے جس کیلئے ہر سال سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں پاکستانی نوجوان غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کیلئے اپنی زندگیاں داؤ پر لگادیتے ہیں۔

یورپ جاکر یورو کمانے کے لالچ میں پاکستانی نوجوان راستوں میں کیا کیا مشکلیں اٹھاتے ہیں، کتنے لوگوں کو راستوں میں ہی اغواء کرلیا جاتا ہے، کتنے نوجوان سفر میں دم توڑ دیتے ہیں، کتنے لوگوں کو قبر اور کفن تک نصیب نہیں ہوتا، ہم آپ کو بتائیں گے۔

اٹلی میں چند روز قبل ایک کشتی ڈوبنے کی وجہ سے 60 کے قریب افراد کے ڈوب کر مرنے کی اطلاعات ہیں، اس حادثے میں 28 پاکستانی بھی موت کا نوالہ بنے۔یہ پاکستانی کیوں اپنی زندگیاں داؤ پر لگاکر ایسی موت کا شکار ہوئے اور اس حادثے کا اصل ذمہ دار کون ہے۔ اس حوالے سے جاننے کیلئے ہمیں تھوڑا سا پس منظر جانا ضروری ہے۔

پاکستان میں مہنگائی، بیروزگاری اور عدم استحکام کوئی نئی بات نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے پاکستان انہی مسائل کا شکار رہا ہے۔ملک میں عدم استحکام کی وجہ سے روزگار کے مواقع مسدود ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کو اپنے بچوں کا مستقبل زیادہ تابناک نہیں نظر آتا۔اپنے خاندان کو بہتر سہولیات اور زندگی کی تمام آسائشیں دینے کیلئے ہر سال پاکستان سے لاکھوں لوگ بیرون ممالک چلے جاتے ہیں۔

یہاں آپ کو بتاتے چلیں کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کیلئے اپنے شہریوں کو بیرون ممالک بھیجنا بہت ضروری ہوتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں اپنا نظام زندگی چلانے کیلئے زرمبادلہ کی ضرورت ہوتی ہے جس کا سب سے بڑا ذریعہ ترسیلات زر ہے۔ جتنے زیادہ لوگ بیرون ممالک کام کرکے ملک میں پیسہ بھیجیں گے اتنا ہی ملک کیلئے فائدہ مند ہوگا۔

یہاں مسئلہ یہ ہے کہ بیرون ممالک جانے کے شوقین افراد میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو بنیادی سکلز سے محروم ہوتے ہیں۔پاکستانی نوجوان ہنر سے زیادہ جگاڑ سیکھنے پر وقت ضائع کرتے ہیں جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جب بیرون ممالک لیگل طریقے سے نوکریوں کے مواقع ملتے ہیں تو وہ باقاعدہ تربیت نہ ہونے کی وجہ سے اس موقع سے فائدہ اٹھانے سے قاصر رہتے ہیں۔

اب یہاں کہانی میں نیا موڑ آتا ہے، آپ پاکستان میں کتنے بھی تعلیم یافتہ کیوں نہیں ۔۔ لیکن اگر آپ کے پاس بنیادی ہنر اور مطلوبہ سرٹیفکیٹس نہیں ہیں تو آپ کسی بھی ملک میں اچھی نوکری نہیں کرسکتےاور یہاں سے ہی ایجنٹس کا کاروبار چمکتا ہے۔

دبئی، سعودیہ، کویت اور دیگر عرب ریاستوں میں کرنسی تو اچھی ہے لیکن یہاں پوری زندگی محنت کرکے بھی آپ کو شہرت نہیں ملتی ۔اس لئے پاکستان کے نوجوان امریکا، برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی اور اٹلی کے علاوہ دیگر یورپی ممالک کا رخ کرتے ہیں۔

ہم چاہے دن بھر گالیاں اور کوسنے دیں لیکن سچ یہی ہے کہ یہ یورپی ممالک بغیر رنگ، نسل ، مذہب آپ کو کھانا، رہائش اور اپنی شہرت بھی دیتے ہیں اور اس مقصد کیلئے پاکستانی نوجوان ایجنٹس کے چکر میں پھنس جاتے ہیں۔

آپ کو بتاتے چلیں کہ اگر آپ امریکا، یورپ یا کہیں بھی جانا چاہتے ہیں تو آپ کو مطلوبہ معیار کا ہنر اور سرٹیفکیٹ لازمی چاہیے، اگر آپ کے پاس ہنر اور اسناد نہیں تو پھر آپ کا باہر جانا بہت مشکل ہوتا ہے۔

جہاں آپ 4، 5 لاکھ میں ہنر کی وجہ سے باآسانی جاکر عزت سے ڈالر اور یورو کماسکتے ہیں وہیں اگر آپ کے پاس مطلوبہ اسناد نہیں تو آپ کو 25 سے 30 لاکھ میں ایجنٹس غیر قانونی راستوں سے یورپ پہنچانے کا وعدہ کرتے ہیں۔

انسانیت سے عاری یہ ایجنٹس پیسوں کے لالچ میں لوگوں کو موت کے کنوئیں میں دھکیل دیتے ہیں جہاں سے صرف چند خوش قسمت ہی یورپ پہنچتے ہیں اور یہ خوش قسمت جب موت سے لڑتے یورپ پہنچتے ہیں تو کئی سال گزرنے کے بعد بھی انہیں اکثر دھکے ہی کھانے کو ملتے ہیں۔

پاکستان سے غیر قانونی طریقے یعنی ڈونکی لگاکر باہر جانے والے پہلے ایران، پھر ترکی، پھر یونان اور وہاں سے یورپ کے دل اٹلی تک پہنچتے ہیں۔پاکستان سے نکلتے ہی ایران میں سیکورٹی فورسز ان نوجوانوں کو پکڑ لیتی ہیں۔اگر ایران میں گرفتاری سے بچ گئے تو کئی کئی روز بھوکے پیاسے، بیانوں میں پیدل چلنا پڑتا ہے۔

کسی طرح ترکی پہنچیں تو یہاں بھی گرفتاری کا ڈر اور جنگلوں میں کئی روز کا پیدل سفر، یہاں آپ کے ساتھ موجود ڈونکر لاکھوں روپے دینے والے لوگوں کے ساتھ قیدیوں سے بھی برا سلوک کرتے ہیں، راستے میں خدا نخواستہ اگر کوئی بیمار ہوجائے تو اس کو وہیں چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں جانور اس کو کھاجاتے ہیں یا وہ انسان ایڑیاں رگڑ رگڑ کر وہیں مرجاتا ہے جہاں نہ کفن ملتا ہے نہ قبر نصیب ہوتی ہے۔

اگر ترکی میں بھی قسمت نے ساتھ دیا تو یونان پہنچ بھی فورسز کا خوف ہوتا ہے اور یونان سے اٹلی جاتے ہوئے سمندر میں ڈوبنے کا خطرہ ہمیشہ موجود ہوتا ہے۔کئی بار بیٹوں کی راہ تکتے ماں باپ کی آنکھیں ہمیشہ کیلئے بند ہوجاتی ہیں لیکن بیٹوں کی کوئی خبر نہیں ملتی۔

ماں باپ کے خوابوں کو پورا کرنے اور بیوی بچوں کو خوشیاں دینے کی خاطر باہر جانے والے اکثر ماں باپ کے جنازوں میں بھی نہیں آسکتے۔بیوی کی جوانی اور بچوں کا بچپن کہیں پیچھے چھوٹ جاتا ہے اور سنہرے مستقبل کا خواب سجانے والوں کی نیندیں ہمیشہ انجانے خوف سے بھری رہتی ہیں۔

اٹلی میں پاکستان کے سفارتخانے کا کہنا ہے کہ حادثے میں 28 پاکستانیوں کی موت کی اطلاع غلط تھی۔ انہوں نے 4 اموات کا دعویٰ کیا ہے۔یہاں سوال 28 یا 4 کا نہیں بلکہ ان سیکڑوں کا ہے جو بہتر مستقبل کیلئے اپنی زندگیوں کی بازی کھیل رہے ہیں۔

بیرون ممالک جانے کی خواہش ہر سال کتنے نوجوان راستوں میں زندگیاں گنوادیتے ہیں ، کتنے دیار غیر میں ساری زندگی چھپ چھپ کر گزارتے اور وہیں گمنامی میں مرجاتے ہیں یہ کوئی نہیں جانتا، ایسا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں کہ آج تک کتنے پاکستانی ان غیر قانونی راستوں میں دم توڑ چکے ہیں۔

ان پاکستانیوں کی موت کا ذمہ دار کون ہے یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے، اگر ہماری حکومتیں عوام کو بہتر زندگی کی ضمانت دیتیں۔ نوجوانوں کو اچھا روزگار۔۔ بچوں کیلئے تابناک مستقبل اور صحت کے علاوہ دیگر سہولیات دیتی تو کیوں ہمارے لاکھوں نوجوان اپنے ملک کو چھوڑ کر بیرون ممالک کی خاک چھانتے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More