“میں دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلا کر بھیک نہیں مانگ سکتا۔ ایسا کبھی نہیں کیا نہ کرسکتا ہوں۔ ہم غریبوں کی مدد کوئی نہیں کرتا لیکن اس لئے مجبوراً اپنے اعضاء بیچ رہے ہیں تاکہ گھر والوں کا پیٹ پال سکیں“
دل چیر دینے والے یہ الفاظ کسی ڈرامے یا فلم کا حصہ نہیں بلکہ ایک غریب شہری کے منہ سے نکلے ہوئے ہیں جو حقیقتاً اپنے جسمانی اعضاء فروخت کرنے کے لئے پوسٹر اٹھائے کراچی پریس کلب کے آگے موجود ہے۔
گھر والوں کا پیٹ کیسے پالوں؟
اس بے بس آدمی کا نام محمد یوسف ہے اور یہ منظور کالونی کا رہائشی ہے۔ کیپیٹل ٹی وی کی رپورٹر اور سب ایڈیٹر شیرین رفس کو اپنے حالات زندگی سے آگاہ کرتے ہوئے محمد یوسف کا کہنا تھا کہ ان کے گھر میں کھانے کے پیسے نہیں بچے۔ گھر میں 6 افراد ہیں اور وہ تقریباً 4، 5 مہینوں سے بے روزگار ہیں۔ محمد یوسف بڑھئی کا کام کرتے ہیں اور اس وقت شدید مالی بحران کا شکار ہیں۔
دکان دار طبقہ بھی مہنگائی کا ذمہ دار ہے
محمد یوسف کا کہنا تھا کہ ملک میں بڑھتی مہنگائی نے غریب انسان کا جینا مشکل کردیا ہے۔ دکان دار طبقہ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر چیز کی قیمت 3 گنا بڑھا دیتا ہے جسکی وجہ سے سارا بوجھ غریب طبقے پر آجاتا ہے۔ اس صورتحال میں جب انھیں بینظیر انکم پروگرام یا پھر کسی بھی حکومتی پروگرام سے امید نہیں وہ پریس کلب کے آگے احتجاجً اپنے جسمانی اعضاء فروخت کر رہے ہیں۔