جب ’انڈین فوجیوں کی لاشیں سڑکوں پر چھوڑ‘ دی گئیں: انڈیا کا گاؤں جہاں آج بھی جنگ کے سائے منڈلاتے ہیں

بی بی سی اردو  |  Mar 02, 2023

BBC

توانگ میں دھان کے فصل کی کٹائی کا وقت تھا جب حملہ آور چاروں اطراف سے حملہ کرتے ہوئے اس توانگ گاؤں پہنچے اور ان کے یہاں پہنچتے ہی مقامی افراد میں افراتفری پھیل گئی۔

اگرچہ اُس وقت تھوتان چیوانگ کی عمر صرف 11 سال تھی لیکن انھیں جنگ کے بہت سے واقعات اب بھی واضح طور پر یاد ہیں۔ یہ وہ واقعات ہیں جو انھوں نے اپنی آنکھوں سے اُس وقت دیکھے تھے۔

وہ سنہ 1962 کے اکتوبر کا مہینہ تھا۔ چین نے انڈیا کے شمال مشرق میں واقع نارتھ ایسٹ فرنٹیئر ایجنسی (موجودہ اروناچل پردیش) کے سرحدی علاقے پر اچانک حملہ کر دیا تھا۔ حملہ اتنی تیزی سے ہوا کہ کچھ علاقوں میں شدید مزاحمت کے باوجود انڈین فوج چینی فوج کے سامنے کھڑی نہ رہ سکی۔

توانگ کا علاقہ جو سرحد سے تقریباً 35 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے وہ جلد ہی چینی افواج کے قبضے میں آ گیا اور اگلے ایک ماہ تک یہ گاؤں چین کے قبضے میں رہا۔

ساٹھ سال بعد اس جنگ کی یادیں بھلے ہی ماند پڑ گئی ہوں لیکن اس کے سائے آج بھی اس خطے کے لوگوں کے ذہنوں میں منڈلاتے ہیں۔

بڑے ہو کر تھوتان چیوانگ انڈیا کے نیم فوجی دستے میں سپاہی بن گئے اور 28 سال کی سروس کے بعد ریٹائر ہوئے ہيں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ 1962 کی جنگ کے دوران انڈین عوام کو درپیش مشکلات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔

BBCتھوتان چیوانگ اپنی جوانی کی تصویر اٹھائے ہوئے ہیں’جنگ ایک ڈراؤنے خواب کی طرح تھی‘

تھوتان چیوانگ کہتے ہیں: ’اس علاقے میں سڑکیں تک نہیں تھیں۔ لوگ دن رات جنگلوں سے پیدل چل کر محفوظ نشیبی علاقوں تک پہنچے تھے۔ انھوں نے خچروں پر راشن ڈھوئے۔ یہ سب ایک ڈراؤنے خواب جیسا تھا۔‘

توانگ میں رہنے والے نوانگ نے سنہ 1962 کی جنگ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے کئی بزرگوں سے بات کرنے کے بعد ایک کتاب تصنیف کی ہے۔

وہ کہتے ہیں: ’ہر کسی کو اپنی جان پیاری تھی اور لوگ چینی افواج کے حملے کے بعد اپنے اہلخانہ کے ساتھ کسی محفوظ مقام پر بھاگنا چاہتے تھے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس وقت یہاں گاڑیاں تک نہیں تھیں۔ آپ پیدل بھی جائیں گے تو کتنی دور جائیں گے۔‘

لوبسانگ تسیرنگ کی عمر بھی سنہ 1962 میں 11 سال تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ چینی حملے کے بعد ان کے والدین انھیں آسام لے گئے اور جنگ ختم ہونے کے بعد ہی وہ توانگ واپس آ سکے۔

تقریباً ایک ماہ بعد نومبر میں چین نے جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے اپنی فوج کو واپس بلا لیا لیکن توانگ سے جان بچا کر بھاگ نکلنے والے بہت سے لوگ اس بات پر یقین نہیں کر پا رہے تھے۔

توانگ میں رہنے والے لھام نوربو نے بتایا: ’یہ کہا گیا کہ چینی فوج واپس چلی گئی ہے، کچھ لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ جھوٹ ہے کیونکہ جب چین جنگ جیت چکا ہے تو وہ پیچھے کیوں ہٹے گا۔‘

’کچھ لوگوں کو شک تھا کہ شاید انڈیا ان سے جھوٹ بول رہا ہے اور اب انھیں چین کے حوالے کر دیا جائے گا۔ جب انھیں یقین دلایا گیا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے تو وہ واپس اپنے علاقے میں آ گئے۔‘

BBCجنگ کی خوفناک یادیں

توانگ سے جان بچا کر بھاگنے والے لوگ جب چند مہینوں کے بعد واپس آ رہے تھے تو راستے میں انھوں نے کئی ہولناک مناظر دیکھے۔

رنچن دورجے آج بھی ان مناظر کو یاد کر کے کانپ اٹھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جب ہم واپس آ رہے تھے تو دیکھا کہ چینی فوج نے بھارتی فوجیوں کی لاشیں سڑکوں پر رکھ دی تھیں۔‘

لھام نوربو بھی آج تک وہ منظر نہیں بھول سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’چینی فوجی اپنے فوجیوں کی لاشوں کو گاڑیوں میں لے گئے اور ہندوستانی فوجیوں کی لاشوں کو جنگلوں سے نکال کر راستوں میں ہی چھوڑ دیا تھا۔ بہت سے لوگ مارے گئے تھے۔‘

نوانگ چھوٹٹا کے مطابق اس وقت چینی فوج نے مقامی لوگوں کو اعتماد میں لے کر کچھ مدد حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔

انھوں نے کہا: ’جب میں نے اپنے بزرگوں سے اس بارے میں بات کی تو انھوں نے بتایا کہ چینی فوج کبھی بھی یہاں کے لوگوں کا اعتماد نہیں جیت سکی اور انھیں ان کی طرف سے بہت کم مدد ملی۔‘

BBCکتاب کے مصنف نوانگ چھوٹٹاتوانگ مسلسل سرخیوں میں رہا

توانگ انڈیا کی شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش کا وہ علاقہ ہے جو گذشتہ کئی سالوں سے شہ سرخیوں میں ہے۔

بدھ مت کا ایک عظیم مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ، یہ وہ جگہ ہے جس کا 14 ویں دلائی لامہ تنزن گیاتسو سے خاص تعلق ہے۔

سنہ 1959 میں تبت سے فرار ہونے کے بعد 14ویں دلائی لامہ تنزن گیاتسو کچھ عرصے توانگ کی خانقاہ میں رہے تھے۔

توانگ ایک ایسا علاقہ ہے جو سنہ 1962 کی انڈیا چین جنگ کے دوران تقریباً ایک ماہ تک چینی کنٹرول میں رہا تھا۔

یہ ایک ایسا علاقہ ہے جو آج بھی دونوں ممالک کے درمیان تنازع کا سبب بنا ہوا ہے۔

اس تنازع کی ایک جھلک گذشتہ سال دسمبر کے مہینے میں سامنے آئی جب توانگ کے علاقے یانگسی میں دونوں ممالک کی فوجوں کے درمیان جھڑپ ہوئی۔

یہ بھی پڑھیے

چین اروناچل پردیش کو ’جنوبی تبت‘ کیوں قرار دیتا ہے؟

انڈین فوجیوں کے لیے ’پٹائی‘ کا لفظ استعمال کرنے پر انڈین وزیر خارجہ برہم

انڈیا نے اس وقت کہا تھا کہ چینی فوج نے لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر تجاوزات قائم کر کے سرحد کی صورتحال کو بدلنے کی کوشش کی ہے۔

انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے پارلیمنٹ میں اس معاملے پر بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’انڈین فوج نے چینی فوج کو ہندوستانی علاقے میں گھسنے سے روکا اور چینی فوجیوں کو اپنی پوسٹوں پر واپس جانے پر مجبور کیا۔‘

اس علاقے میں یہ پہلی جھڑپ نہیں تھی۔ اکتوبر 2021 میں بھی یانگسی میں دونوں ممالک کی فوجیں آمنے سامنے تھیں۔

BBCرنچن دورجے’لائن آف ایکچوئل کنٹرول‘ تک کا سفر

موجودہ کنٹرول لائن توانگ شہر سے صرف 35 کلومیٹر دور ہے۔ بوم، لا درے کی پرپیچ سڑکوں سے گزر کر ہی ایل اے سی تک پہنچا جا سکتا ہے۔

بوم-لا درے سے گزرتے وقت پندرہ ہزار فٹ کی بلندی پر ہوا میں آکسیجن کی کمی ہوتی ہے۔ اس راستے کے ساتھ بہت سی قدرتی جھیلیں نظر آتی ہیں جن کا پانی کم درجہ حرارت کی وجہ سے جم گیا ہے۔

یہ وہی جگہ ہے جہاں 1962 میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے دوران کئی لڑائیاں لڑی گئیں۔ ان لڑائیوں کے کچھ آثار اب بھی اس علاقے میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

وہ بنکر اب بھی سڑک کے کنارے موجود ہیں جہاں انڈین فوجیوں نے پوزیشنیں لے کر چینی حملے کا مقابلہ کیا تھا۔ یہ بنکر آج یقیناً خالی ہیں، لیکن ایل اے سی کے قریبی علاقوں میں انڈین فوج کی بڑی موجودگی دیکھی جا سکتی ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان گذشتہ کچھ عرصے سے جس قسم کی کشیدگی جاری ہے، اس میں یہ فوجی موجودگی حیران کن نہیں ہے۔ اس بڑی فوجی موجودگی کے باوجود، درجنوں سیاح توانگ سے اجازت لے کر ایل اے سی کا روزانہ سفر کرتے ہیں۔

بوم-لا درے کے ذریعے سیاحوں کو ایل اے سی تک لے جانا توانگ میں ٹیکسی ڈرائیوروں کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔

BBCتوانگ جنگ کی یادگار

انڈین فوج کے مطابق 1962 کی جنگ کے دوران کامینگ سیکٹر میں 2420 بھارتی فوجی مارے گئے تھے۔ ان فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے توانگ میں ایک جنگی یادگار کی تعمیر کی گئی ہے۔

یہاں رکھی گئی چند نایاب تصاویر میں سنہ 1959 کی وہ تصویر بھی شامل ہے جس میں 14ویں دلائی لامہ کو تبت سے فرار ہونے کے بعد انڈیا میں دیکھا جا سکتا ہے۔

یہ یادگاری جنگی تصویریں، ہتھیاروں اور دیگر فوجی ساز و سامان کے ذریعے آج بھی 1962 کی ہولناک یادوں کو تازہ کر رہی ہیں۔

نوانگ چھوٹٹا کہتے ہیں: ’ہم اس واقعے کو نہیں بھولے کیونکہ یہ ہمارے لیے بہت بڑا سبق ہے کہ دشمن کی میٹھی باتوں پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔ ہم نے اس سے سبق سیکھا ہے۔‘

BBC’کیفے 62‘

1962 کی جنگ کی یادیں بھلے ہی مدھم ہوتی جا رہی ہوں لیکن وہ لوگوں کے ذہنوں سے محو نہیں ہوئی ہیں۔

ہم نے توانگ سے تقریباً 35 کلومیٹر دور جنگ نامی ایک چھوٹے سے قصبے میں ایسی ہی ایک مثال دیکھی۔

21 سال تک انڈین فوج میں خدمات انجام دینے کے بعد جب رنچن ڈریما ریٹائر ہوئے تو انھوں نے ایک کیفے کھولا اور اس کا نام ’کیفے 62‘ رکھا۔

وہ اس کیفے کے ذریعے سنہ 1962 کی جنگ کی یادوں کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔

رنچن ڈریما کہتے ہیں: ’1962 میں چین کے ساتھ ہونے والی جنگ کی وجہ سے ہمارے بزرگوں کو ان لوگوں نے بہت ہراساں کیا تھا۔ ہم نے اس کیفے کا نام اسی کی یادگار کے طور پر رکھا ہے۔‘

BBC’سرحدوں پر تصادم کوئی نئی بات نہیں‘

توانگ قصبے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کی فوجوں کے درمیان سرحدی جھڑپیں ان کے لیے معمول بن چکی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ دسمبر کے تصادم کے بعد بھی توانگ میں کوئی خوف یا کشیدگی نہیں تھی لیکن کاروبار ضرور متاثر ہوا تھا۔

توانگ کے بازار میں کرمو نامی ایک خاتون کپڑے کی دکان چلاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ’ہم مقامی لوگوں کو کوئی خوف نہیں ہے۔ اکثر ہمیں میڈیا میں خبریں آنے کے بعد ہی معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کچھ ہوا ہے۔ لیکن میڈیا میں شور و غوغہ کے بعد سیاحوں کی تعداد میں کمی آتی ہے۔‘

توانگ مارکیٹ میں گفٹ شاپ چلانے والے تنزین درگے کا بھی اصرار ہے کہ سرحد پر دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان جھڑپوں کا توانگ کے لوگوں پر زیادہ اثر نہیں ہوتا۔

وہ کہتے ہیں: ’یہاں زندگی معمول کے مطابق ہے۔ ہمیں صرف خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ سرحد پر جھڑپیں ہوئی ہیں۔ ہم یہاں عام زندگی گزار رہے ہیں۔ یہاں کوئی اتار چڑھاؤ نہیں ہے۔‘

BBC

توانگ میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ انڈین فوج کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے 1962 کے مقابلے میں بہت بہتر طور پر تیار ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سنہ 1962 کی انڈین فوج اور آج کی انڈین فوج میں بہت فرق ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گذشتہ کچھ عرصے میں اس پورے علاقے میں سڑکوں کی حالت میں کافی بہتری آئی ہے جس کی وجہ سے انڈین فوج اس پوزیشن میں آ گئی ہے کہ وہ فوجی اور رسد بہت جلد سرحد تک پہنچا سکے۔

نوانگ چھوٹٹا کہتے ہیں: ’توانگ کے کسی بھی مقامی سے بات کریں، وہ آپ کو بتا دیں گے کہ انڈین فوجی وہاں موجود ہیں اور اگر ضرورت پڑی تو ہم بھی اس کے پیچھے کھڑے ہیں۔‘

لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ چین کی بات کرتے وقت محتاط رہنا بہتر ہے۔

تھوتان چیوانگ کہتے ہیں: ’وہ (چین) فریب کرتے رہتے ہیں۔ وہ دن میں میٹنگ کرتے ہیں اور رات کو حملہ کرتے ہیں۔ اسی لیے ہمیں ہمیشہ اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھنے ہوتے ہیں۔ ان پر ذرا بھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More