’سونے سے بھی مہنگی خوشبو‘ کے حصول کی خواہش جو پاکستان میں کستوری ہرن کو معدومیت کا شکار کر رہی ہے

بی بی سی اردو  |  Mar 02, 2023

Getty Images

’کچھ لوگوں نے تو اپنا ذریعہ معاش ہی کستوری ہرن کو مار کر اس کی کستوری کو حاصل کرنے کو بنا لیا ہے۔ کستوری سونے سے بھی مہنگی فروخت ہوتی ہے کیونکہ یہ دنیا کی مہنگی ترین خوشبو (پرفیوم) میں استعمال ہوتی ہے۔‘

یہ کہنا ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی وادی نیلم میں کنٹرول لائن کے قریب رہائش پذیر قمر الزمان کا، جنھوں نے حیوانیات میں ماسٹرز کے علاوہ کستوری ہرن پر خصوصی تحقیق کر رکھی ہے۔ قمر الزمان کے کستوری ہرن پر کئی تحقیقاتی مقالے بھی شائع ہو چکے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں شاید پینگولین کے بعد سب سے زیادہ غیر قانونی شکار اور خرید و فروختکستوری ہرن کا ہی ہوتا ہو گا۔

’کستوری ہرن کی تعداد بہت کم ہو چکی ہے۔ بچپن میں کستوری ہرنوں کو ہم اپنے گھر کے قریب سے گزرتے دیکھا کرتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہے۔ ان کی تعداد خطرے کی حد سے بھی کم ہو چکی ہے۔‘

ایسی ہی رائے کا اظہار انڈیا سے ڈاکٹر ایم کے رنجیت سنگھ نے بھی کیا ہے جو انڈیا ٹرسٹ آف وائلڈ لائف کے سربراہ رہ چکے ہیں۔

ڈاکٹر پارس بکرم سنگھ نیپال کی بائیو ڈاویرسٹی کنزوریشن سوسائٹی کے ساتھ منسلک تحقیق دان ہیں۔

ڈاکٹر پارس بکرم سنگھ کے مطابق کستوری ہرن کا غیرقانونی شکار ہمالیہ کے تمام ممالک میں ہے کیونکہ کستوری ہرن ان ہی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔

ہمالیہ ممالک جن میں پاکستان، انڈیا، چین، بھوٹان، نیپال شامل ہیں کے ماہرین نے اپنی ایک بین الاقوامی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ غیر قانونی شکار کے ساتھ ساتھ سنہ 2050 سے 2070 تک ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلی کے سبب کستوری ہرن کی آماجگاہیں معدومی کا شکار ہو سکتی ہیں۔

پاکستان سے اس رپورٹ میں شریک ماہر ڈاکٹر نعیم اعوان کا کہنا تھا کہ انتہائی قیمتی کستوری ہرن کو صرف غیر قانونی شکار ہی سے خطرات لاحق نہیں ہیں بلکہ موسمی اور ماحولیاتی تبدیلی سے بھی خطرہ ہے۔

تاہم سب سے بڑا خطرہ اس کا شکار اور کستوری کا غیر قانونی کاروبار ہے۔

اس سے پہلے کہ ہم کستوری ہرن کے غیر قانونی شکار، ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے خطرات پر بات کریں یہ جانتے ہیں کہ کستوری ہرن کیا ہے اوراس سے حاصل ہونے والی کستوری اتنی اہمیت کی حامل کیوں ہے؟

کستوری ہرن اور خوشبو

مصنف اور انڈیا وائلڈ لائف ٹرسٹ کے سابق چیرمین ڈاکٹر ایم کے رنجیت سنگھ بتاتے ہیں کہ کستوری ہرن کی آمجگاہیں تقریباً تمام ہمالیہ کے ممالک میں موجود ہیں۔ اس کی آمجگاہیں ہمالیہ کے اونچے پہاڑ اور جنگلات میں ہیں۔ کستوریہرن کی آمجگاہوں کے قریب بسنے والے افراد اس کے شکار اور خرید و فروخت میں ملوث ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر ایم کے رنجیت سنگھ کے مطابق کستوری صرف جوان نر کستوری ہرن میں پایا جاتا ہے۔ ان کے مطابق کستوری ہرن سے خوشبو حاصل کرنے کے ہمالیہ کے ممالک میں مختلف طریقے رائج ہیں۔ یہ سب طریقے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ایک جیسے ہی ہیں اور عموماً کستوری حاصل کرنے کے لیے ہرن کو مارا جاتا ہے۔

قمر الزمان کے مطابق کستوری کی خوشبو، کستوری ہرن کی ناف کے ساتھ منسلک جھلی یا پھلی میں ہوتی ہے۔

’نر کستوری ہرن میں کستوری اس وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ جوان ہوتا ہے۔ اس وقت اس میں خوشبو پیدا ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر اس خوشبو کا مقصد ملاپ کے لیے دلچسپی رکھنے والی مادہ ہرن کو متوجہ کرنا ہوتا ہے۔‘

قمر الزمان کے مطابق کستوری ایک باریک جھلی میں ہوتا ہے اور جب اسے حاصل کرنے کی غرض سے ہرن کا شکار کیا جاتا ہے تو ماہر شکاری انتہائی تیزی سے اس کو ہاتھ سے پکڑ کر باہر نکالتا ہے اور چاقو سے جلد کو کاٹتا ہے۔ یہ نیم خشک دانے دار سفوف ہوتا ہے۔ اس کو نکالنے کے بعد اس میں موجود نمی کو خشک کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کے لیے مختلف طریقے استعمال ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا طریقہ یہ ہے کہ اس کو چاول میں رکھ دیا جاتا ہے۔ چاول اس کی نمی کو خشک کر دیتے ہیں۔ کچھ لوگ آگ کے قریب اور دھوپ پر بھی خشک کرتے ہیں۔

قمر الزمان کا کہنا تھا کہ ہرن میں پایا جانے والا کستوری مختلف علاقوں اور ہرن کی عمر کے حساب سے ہوتا ہے۔ یہ عموما آدھا تولا سے لے کر چار تولا اور بعض اوقات اس سے زیادہ ہوتا ہے۔

’یہ اتنا قیمتی اور مہنگا ہے کہ میرے مشاہدے میں ہے کہ لوگ سارا سال ایک ہرن کے شکار کا انتظار کرتے ہیں۔ اس سے کستوری حاصل کر کے پورا سال بے فکر انداز میں گزارتے ہیں۔‘

کستوری سے تیار کردہ خوشبو یا پرفیوم یورپ اور عرب ممالک میں انتہائی مقبول ہے۔

ڈاکٹر ایم کے رنجیت سنگھ بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ پیرس گئے تو وہاں پر ایک شخص نے انھیں 70 سال پرانی کستوری دکھائی۔

’70 سال بعد بھی اس کی خوشبو بحال تھی۔ ایسی خوشبو تھی جو مسحور کر دیتی تھی اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی قیمت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔‘

’اس شخص نے غالباً اس کستوری کو اپنے گھر میں خوشبو کے لیے رکھا ہوا تھا۔ اس نے مجھے کئی سال پہلے جو قیمت بتائی تھی۔ وہ اس وقت کے لحاظ سے انتہائی زیادہ تھی۔‘

’کستوری ہرن ہزاروں سال سے غیرقانونی شکار کا نشانہ بنا ہوا ہے‘

ڈاکٹر ایم کے رنجیت سنگھ کہتے ہیں کہ کستوری ہرن کو پانچ، چھ ہزار سال سے غیر فطری طریقے سے مارا جا رہا ہے۔ اس کا شکار صرف خوشبو ہی کے لیے نہیں کیا جاتا بلکہ مذہبی رسومات، مندرروں، مقامی طریقہ علاج، اور جنسی کشتوں میں بھی کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر ایم کے رنجیت سنگھ کا کہنا تھا کہ انڈیا میں ستر کی دہائی میں جب قانون سازی کے ذریعے کستوری ہرن کے اعضا کی خرید و فروخت اور شکار پر پابندی عائد کی گئی تو اس وقت اس کی خرید و فروخت میں ملوث لوگ سفارش کرواتے تھے کہ انھیں صرف ایک مرتبہ ایسا کرنے کی اجازت دے دی جائے۔

ڈاکٹر ایم کے رنجیت سنگھ کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ ہمیں مذہبی حلقوں کی جانب سے بھی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمالیہ خطے کے ممالک میں اس کا بے دریغ شکار کیا گیا ہے اور اس مقصد کے لیے ماضی میں شکاری کتے بھی استعمال ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر پارس بکرم سنگھکہتے ہیں کہ یورپ اور عرب ممالک میں کستوری کی خوشبو استعمال ہوتی ہے مگر اس کی انڈیا، چین، نیپال اور دیگر ممالک میں مقامی مارکیٹ بھی ہے۔

قمر الزماں کہتے ہیں کہ کستوری ہرن کے سینگ نہیں ہوتے اور شکار کی صورت میں یہ اپنا زیادہ دفاع نہیں کر پاتا ہے۔ یہ عموماً صبح اور شام کے اوقات جب زیادہ اندھیرا نہیں ہوتا اس وقت کھانے پینے کو باہر نکلتے ہیں۔‘

قمر الزماں کے مطابق وہ لوگ جو مال مویشی لے کر اوپر کے علاقوں میں جاتے ہیں۔ اب ان کے پاس جدید اسلحہ ہوتا ہے۔ وہ بھی موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ انھیں جب موقع ملتا ہے تو اسلحے سے نر کستوری ہرن کو مار کر اس کی کستوری نکال لیتے ہیں۔

ڈاکٹر پارس بکرم سنگھ کا کہنا تھا کہ ہمیں تحقیق سے پتا چلا ہے کہ کستوری ہرن کا شکار کرنے والوں نے ان کی عادات سے بھی واقفیت حاصل کر لی ہے۔ کستوری ہرن عموماً ایک ہی مقام کو رفع حاجت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس دوران وہ دوسرے ہرنوں کو پیغامات بھی پہنچاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ عرصہ قبل نیپال میں ایسے ہی ایک مقام جس کو کستوری ہرن اپنی رفع حاجت کے لیے استعمال کرتے تھے پر چھ کستوری ہرنقتل کیے گئے۔

کنٹرول لائن کے علاقے میں سب سے بڑی تعداد

قمر الزماں کہتے ہیں کہ پاکستان کے جن علاقوں میں چند سال پہلے تک کستوری ہرن پایا جاتا تھا وہاں اب ان کی تعداد انتہائی کم ہو چکی ہے۔

ڈاکٹر پارس بکرم سنگھ کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ گذشتہ برسوں میں کستوری ہرن کی تعداد بہت کم ہوئی ہے مگر ہمیں نہیں معلوم کہ کتنی کم ہوئی ہے کیونکہ ہمیں اس کی اصل تعداد کا کبھی بھی پتا نہیں تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمالیہ ممالک میں ایسا کوئی سروے ممکن ہی نہیں ہوسکا جس سے ان کی تعداد کا اندازہ لگائے جاسکے۔ تعداد کی کمی کا تعلق کسی ایک ملک یا علاقے سے نہیں ہے یہ صورتحال پورے ہمالیہ میں ہے۔‘

ڈاکٹر ایم کے رنجیت سنگھ بھی اس بات سے متفق ہیں۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کنٹرول لائن کے علاقے میں شاید کستوری ہرن کی سب سے بڑی تعدادموجود ہے۔ اس کے علاوہ انڈیا کے کچھ محفوظ قرار دیے گئے پارکوں میں اس کیتعداد موجود ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کنٹرول لائن کے علاقوں میں کستوری ہرن کی موجودگی کی وجہ ان علاقوں میں انسانی مداخلت کا نہ ہونا ہے۔

قمر الزماں کی بھی رائے ہے کہ وادی نیلم کے وہ علاقے جو کنٹرول لائن کے قریب واقع ہیں وہاں پر ان کی اب بھی مناسب تعداد موجود ہے۔

ڈاکٹر ایم کے رنجیت سنگھ کہتے ہیں کہ دیکھیں جب تک کستوری کی مانگ رہے گئی اس وقت تک اس کا شکارپابندیوں کے باوجود کسی نہ کسی طرح جاری رہے گا۔

چین میں کستوری ہرن کی فارمنگ

محمد یوسف قریشی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں محکمہ وائلڈ لائف کے ریٹائرڈ ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک وقت میں تو کستوری ہرن کا بہت زیادہ شکار تھا تاہم اب اس میں کچھ کمی آئی ہے اور اس کی وجہ چین میں کستوری ہرن کی فارمنگ ہے۔

محمد یوسف قریشی کہتے ہیں کہ ’چین نے ہمیں کستوری ہرن کی فارمنگ کا دورہ کروانے کی دعوت دی تھی، مگر انھوں نے ہمیں پورا فارم نہیں دکھایا اور اس متعلق ہمیں مکمل معلومات بھی نہیں دی تھیں۔‘

محمد یوسف قریشی کہتے ہیں لگتا ہے کہ چین فارمنگ سے دنیا کو سستی کستوری فروخت کر رہا ہے جس وجہ سے شکار کی ہوئی کستوری کی مانگ کچھ کم ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے پاکستان کے کچھ علاقوں جہاں پر کستوری ہرن کی آمجگاہیں موجود ہیں وہاں پر کافی عرصے بعد انھیں دوبارہ دیکھا گیا ہے جو خوش آئند ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ چین میں فارمنگ سے کستوری حاصل کرنے کے لیے کستوری ہرن کو بے ہوش کیا جاتا ہے۔

’جس ہرن سے کستوری حاصل کی جاتی ہے اس میں یہ دوبارہ کچھ عرصے بعد پیدا ہوجاتی ہے۔‘

محمد یوسف قریشی کا کہنا تھا کہ انھوں نے کستوری ہرن کی فارمنگ کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں شروع کرنے کی کوششی تھی وسائل کی کمی کے باعث وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔

Getty Images

ڈاکٹر پارس بکرم سنگھ کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ مقامی مارکیٹ اور یورپ اور عرب کی طلب پوری کرنے کے لیے فارمنگ شاید ایک اچھا طریقے ہو مگر اس میں ہمیں جانوروں کے حقوق کا خیال رکھنا ہو گا۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کستوری ہرن کو ایک پنجرے میں بند کر دیا جائے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر فارمنگ کو مسئلے کے حل کے طور پر دیکھا جارہا ہے تو فارمنگ کے لیے ان کی آمجگاہوں جیسے مقامات بنانا ہوں گے۔

’کستوری ہرن ایک شرمیلا جانور ہے۔ وہ تنہائی پسند ہونے کے علاوہ دوڑنا پسند کرتا ہے۔ وہ خود کو مخصوص قسم کے درختوں میں چھپاتا ہے۔ اونچائی پر رہتا ہے۔ اگر فارمنگ کرنا ہے تو یہ سب کچھ مہیا کرنا ہوگا۔ ورنہ اس کے بغیر ایک جاندار کو قید کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔‘

ہمالیہ اور کستوری ہرن لازم و ملزوم

ڈاکٹر ایم کے رنجیت سنگھ کہتے ہیں کہ کستوری ہرن اور ہمالیہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

ڈاکٹر پارس بکرم سنگھ کا کہنا ہے کہ ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ کستوری ہرن کی مختلف انواع کا دائرہ کار پورے ہمالیہ میں پھیلا ہوا ہے۔

’پاکستان، انڈیا، افغانستان کے علاقوں میں کستوری ہرن کی جو انواع پائی جاتی ہے وہ مٖغربی نیپال کے پہاڑوں یا مغربی ہمالیہ تک پائی جاتی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ہمالیہ کے علاقے میں ایک تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ موسمی اور ماحولیاتی تبدیلی کے سبب سے 2050 سے 2070 تک کستوری ہرن کی آمجگاہیں منتقل ہونے کے علاوہ کافی حد تک سکڑ سکتی ہے اور کئی علاقوں میں کستوری ہرن کی آمجگاہیں ختم ہو سکتی ہیں۔

ڈاکٹر محمد نعیم اعوان کہتے ہیں کہ ہمالیہ اور کستوری ہرن ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں اور اگر کستوری ہرن کم یا معدوم ہو گا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمالیہ کا خصوصی ماحول جو کہ ہمالیہ والے ممالک کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں ہے وہ بھی خاتمے کے قریب ہوگا۔

ڈاکٹر ایم کے رنجیت سنگھکہتے ہیں کہ پاکستان ہو یا انڈیا، نیپال یا افغانستان ہمالیہ کے دامن سے اب پہاڑوں تک کھیتی باڑی شروع ہو چکی ہے۔ یہ ہمالیہ میں مداخلت ہو رہی ہے۔ یہ مداخلت کستوری ہرن جیسے قیمتی جانوروں اور ہمالیہ کی تباہی کا باعث بن رہا ہے۔ ہمالیہ والے ممالک کی پانی کی ضرورتیں زیادہ تر ہمالیہ سے پوری ہوتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر ہمالیہ میں انسانی مداخلت اسی طرح بڑھتی رہی تو نقصان صرف کستوری ہرن کے معدوم ہونے یا کم ہونے تک نہیں رہے گا بلکہ اس کے انتہائی ماحولیاتینقصانات انسانوں کو بھی برداشت کرنے پڑیں گے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More