لاہور ہائی کورٹ بار کی پہلی خاتون سیکریٹری: ’مرد، عورت کو کیس دینے میں گھبراتے ہیں، اس لیےعورت کو زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے‘

بی بی سی اردو  |  Feb 28, 2023

BBCلاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی 150 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک خاتون سیکریٹری منتخب ہوئی ہیں

’جو سفر میں نے طے کیا ہے وہ آسان نہیں تھا۔ میں نے مردوں کے پیشے میں اپنے آپ کو منوایا ہے۔ میں اپنے آپ کو بطورعورت نہیں،وکیل دیکھتی ہوں۔‘

وکالت کے شعبے سے تعلق رکھنے والی صباحت رضوی لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی 150 سالہ تاریخ میں پہلی خاتون ہیں جو سیکریٹری کے عہدے پر منتخب ہوئی ہیں۔ تاریخ رقم کرنے کا سلسلہ یہاں تک ہی نہیں رکا ہے۔ اس بار لاہور ہائی کورٹ بار میں ہونے والے الیکشنز میں چار اہم سیٹوں میں سے سیکرٹری اور نائب صدر کی سیٹیں بھی خواتین حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔

لاہور سے تعلق رکھنے والی صباحت پچھلے آٹھاراں سالوں سے وکالت کے شبعے سے منسلک ہیں۔ اس طولیل سفر کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’میں ایک مڈل کلاس سید فیملی سے آئی تھی۔ ہم بہنیں ہی ہیں اس لیے ہمارے خاندان کے لوگ چاہتے تھے کہ ہم ٹیچر یا ڈاکٹر بن جائیں۔ لیکن میں وکیل بن گئی اور میں اپنے خاندان کی پہلی لڑکی ہوں جو وکالت میں آئی۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’جب میں چھوٹی تھی تو میری والدہ کہتی تھیں کہ تم میں اتنی زیادہ خود اعتمادی ہے کہ تم وکیل بن سکتی ہو۔ یہی نہیں بلکہ جب بھی سکول سے میرا رپورٹ کارڈ گھر آتا تھا تو اس پر باقاعدہ میری شکایت لکھی ہوتی تھی کہ آپ کی بچی میں ضرورت سے زیادہ خوداعتمادی ہے۔‘

٭لاہور بار کے انتخابات میں خواتین کی کامیابی

’ اب تو سارے خاندان کو پتا چل گیا ہے کہ تم وکالت کر رہی ہو‘

صباحت رضوی بتاتی ہیں کہ وہ سوشل سائنز پڑھنا چاہتی تھیں لیکن داخلے میں تاخیر ہوئی تو ان کے والد نے مشورہ دیا تھا کہ لاء میں داخلہ لے لو۔

وہ بتاتی ہیں ’میں پڑھائی میں بہت اچھی نہیں تھی۔ مجھے سوشل ورک کرنے کا بہت شوق تھا اور میں وہی مضمون پڑھنا چاہتی تھی۔ لیکن میرا فوری داخلہ نہیں ہوا تو میرے والد نے کہا کہ وہاں تو پتا نہیں داخلہ ہو گا یا نہیں تو تم لاء میں داخلہ لے لو۔ میں نے وہاں کاغذ جمع کروا دیے۔ پڑھائی شروع ہوگئی تو دو تین ہفتوں بعد میرا داخلہ وہاں بھی ہوگیا جہاں میں چاہتی تھی۔ لیکن اس وقت والد صاحب نے کہا کہ بیٹا اب تو سارے خاندان کو پتا چل گیا ہے کہ تم وکالت کر رہی ہو۔ پہلے ہی خاندان میں آج تک کوئی اس شعبے میں نہیں گیا تو بس اب چپ کر کے یہی کرتی رہو۔

’وہاں سے میرا سفر شروع ہوا۔ لاء کالج میں بھی بڑی پریشان ہوتی تھی کیونکہ پڑھنے کا شوق تھا نہیں۔ اکثر فیل بھی ہو جاتی تو روتی اور کہتی کہ میں نے نہیں کرنا لاء تو والد ہمیشہ کہتے کہ بیٹا بڑی بےعزاتی والی بات ہے کہ خاندان کی مخالفت کر کے یہ کروا رہا ہوں اور تم کہو کہ مجھ سے نہیں ہو رہا، تو کتنی بری بات ہے۔ اس طرح وہ میرا حوصلہ بڑھاتے تھے۔

’اور پھر جب میں اس پروفیشن میں آگئی تو پھر تو اتنا پڑھانا پڑا کہ اس کے بغیر آپ کا گزارا ہی نہیں تھا۔‘

’مرد عورت کو اپنا کیس دینے میں گھبراتے ہیں‘

اس پروفیشن میں مردوں کے غلبے سے متعلق بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں ’جب میں نے شروع شروع میں وکالت شروع کی تو کافی مشکل ہوئی۔ اس پروفیشن کو مردوں کا پروفیشن گنا جاتا تھا۔ جب آپ اس پیشے میں قدم رکھتے ہیں تو آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں آپ کا وکیل بھی مرد ہے، جج بھی مرد ہے، عملہ بھی مرد ہے اور یہاں تک کہ آپ کا کلائنٹ بھی مرد ہی ہے۔ اس لیے جب کوئی کوئی عورت ہی اس شعبے میں ہے تو اس کے لیے یہ ایک بلکل ہوائی رزق کے طور پر کام کرتا ہے کہ اگر کام آگیا تو پیسے بھی مل جائیں گے۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’پھر مرد بھی عورت کو اپنا کیس دینے میں گھبراتے ہیں۔ اس لیے میرے خیال میں عورت کو زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔‘

’اپنا پہلا موبائل اور گاڑی خود پیسے جمع کر کے لیے‘ BBC

اس پیشے میں آنے کے بعد ’شروع کے چار پانچ سال ایسے تھے کہ میرے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ جون جولائی کی سخت گرمی تھی تو میرے پاس واپس گھر جانے کا کرایہ نہیں تھا۔ میں پیدل چل کر واپس گئی تو دل میں سوچا کہ کیا زندگی ہے۔ اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ بندہ سکون سے آ جا سکے۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ پیسے آئے تو خود پر بھی خرچ کیے اور گھر والوں کو بھی دیے۔ میں نے اپنا پہلا موبائل اور پہلی گاڑی خود پیسے جمع کر کے لیے۔

’اس دوران میں نے وکالت کے ساتھ ساتھ مختلف گورنمنٹ کے محکموں میں ملازمت کی۔ ایک سال محکمہ لاء پنجاب میں کام کیا، اس کے ساتھ تین سال لوکل گورنمنٹ کے ڈیپارٹمنٹ میں کام کے علاوہ پرائیوٹ سیکٹر میں بھی کئی سال کام کیا۔‘

کلائنٹ کا کیس جیتا پھر وہ پیچھے پڑ گئے

ماضی کے دنوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ ہمیں کیس کی تاریخ پوچھنے کے لیے بار بار چوتھے فلور سے آنا جانا پڑتا تو میرے ساتھی وکیل کہتے کہ آپ تھک جائیں گی، ہم پتا کر آتے ہیں۔ میں اس بات پر خفا ہوتی اور کہتی کہ کیوں میں بھی وکیل ہوں۔ مجھے بطور عورت مت دیکھو۔ اگر تم لوگ چار چکر لگا سکتے ہو تو میں بھی لگا سکتی ہوں۔‘

وہ کہتی ہیں ’میں نے ہر وہ کام کیا جو ایک مرد وکیل کرتا ہے۔ البتہ مجھے کئی دفعہ میرے کچھ کلائنٹس نے حراساں بھی کیا۔ حالانکہ میں نے ان کی مدد کی، کیس جیتا۔ لیکن پھر وہ میرے پیچھے پڑ گئے۔ خوف بھی آتا تھا، جب ایک مرتبہ ایک کلائنٹ نے میرے پیچھے گاڑی لگا لی۔ اس طرح کے کئی واقعات ہوئے لیکن میں نے ڈٹ کر اپنے ساتھی وکیلوں کے ساتھ مل کر ایسی ہر صورتحال کا مقابلہ کیا۔‘

بیٹیوں کو کسی مرد کی ضرورت نہیں

صباحت نے شادی نہیں کی ہے، وہ بتاتی ہیں ’میری شادی نہیں ہوئی ہے۔ اور اس بات کی فکر میری والدہ کو کافی تھی۔ وہ میرے والد سے کہتی تھیں کہ لوگ کہتے ہیں ہم نے نہیں رشتہ کرنا اس سے کیونکہ یہ وکیل ہے۔ وکالت کو گالی کے طور پر لیا جاتا تھا۔ لیکن میری خوش قسمتی یہ تھی کہ میرے والد کہتے تھے کہ میں نے اپنی بیٹیوں کی شادی نہیں کرنی کیونکہ میں نے ان کو اتنا مضبوط اور خود مختار بنا دیا ہے کہ انھیں کسی مرد کی ضرورت نہیں ہے۔‘

BBC’مردوں کی سیٹ ہے، تم کہاں سے آگئی ہو‘

خواتین کو درپیش مشکلات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی یہ کہے کہ خواتین کے لیے اب معاملات بہتر ہیں تو یہ غلط ہوگا۔ اکیسویی صدی میں بھی عورت کا گھر سے نکل کر کام کرنا آسان نہیں ہے۔ آپ میری مثال دیکھ لیں۔ جب میں نے یہ کہا کہ میں سیکرٹری کی سیٹ پر الیکشن لڑنا چاہتی ہوں تو میرے پروفیشن کے لوگوں نے کہا کہ تم پاگل ہو۔ یہ تو مردوں کی سیٹ ہے، تم کہاں سے آگئی ہو۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’یہی نہیں بلکہ میرے گھر والوں اور دوستوں نے مجھے کہا کہ یہ سیٹ تمہارے لیے نہیں ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ فنانس سیکرٹری یا نائب صدر جیسے عہدوں پر لڑ لو الیکشن۔ میں نے انھیں ہمیشہ ایک ہی جواب دیا کہ میں عورت نہیں ہوں، میں ایک وکیل ہوں اور یہ وکیلوں کی سیٹ ہے۔ اتنے سالوں میں اگر کوئی خاتون اس عہدے پر نہیں آئی تو اب آئے گی اور میں اس روایت کو توڑوں گی اور جیت کر دیکھاؤں گی۔ میں نے محنت کی ہمت نہیں ہاری۔ اور آج میں یہ الیکشن جیت گئی۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’جب میں الیکشن مہم کے لیے مختلف تحصیلوں میں جاتی تھی تو لوگ مجھ سے پوچھتے کہ تم واقعی سیکرٹری کے لیے الیکشن لڑ رہی ہو؟ کیا یہ تمارا پہلا الیکشن ہے؟ ان کے لیے یہ بات خاصی حیران کن تھی کہ ایک عورت اس سیٹ پر آنے کو تیار ہے۔ اس لیے مجھے ملے جلے تاثرات ملے۔ کچھ نے سپورٹ کیا اور کچھ لوگوں کے لیے یہ بات ہضم کرنا مشکل تھی۔‘ سیکرٹری لاہور ہائی کورٹ بار بننے کے بعد صباحت پر عزم ہیں کہ وہ ان لوگوں کی آواز بنیں گی جن کی آواز بننے والا کوئی نہیں ہے۔انھوں نے اپنے ارادوں کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے لیے بار کی سالمیت سب سے پہلے ہے۔ اس لیے کہ پچھلے کچھ عرصے میں ہماری بارز خاصی سیاسی ہو چکی ہیں، جنھیں غیر سیاسی کرنے کی ضرورت ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More